دینی مدارس کیلئے حکومتی امداد ۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مفتی محمودؒ کا موقف

   
تاریخ : 
۲۶ اگست ۲۰۰۳ء

سرکاری سطح پر ’’مدرسہ ایجوکیشن بورڈ‘‘ نے کام شروع کر دیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ہیں۔ اسلام آباد کے حاجی کیمپ میں اس کا ہیڈ آفس قائم ہو گیا ہے اور ڈاکٹر صاحب محترم کی طرف سے اخبارات میں ایک اشتہار کے ذریعے سے دینی مدارس سے اس بورڈ کے ساتھ الحاق کے لیے درخواستیں طلب کرنے کا اعلان بھی ہو گیا ہے۔ گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں ایک حساس ادارے کے ذمہ دار افسر نے مجھ سے دریافت کیا کہ سرکاری بورڈ کے ساتھ الحاق کے سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرا چونکہ دینی مدارس کے ساتھ تعلق ہے، اس لیے میری رائے وہی ہوگی جو دینی مدارس اپنے اپنے وفاقوں کے ذریعے سے اجتماعی طور پر قائم کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ گوجرانوالہ میں بعض مدارس نے الحاق کے لیے رابطہ قائم کر لیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حوالے سے حساس ادارے بھی متحرک ہیں اور مختلف شہروں میں انفرادی طور پر دینی مدارس کو مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ساتھ الحاق کے لیے آمادہ کرنے پر محنت ہو رہی ہے۔

اسی دوران میں اے پی پی کی ایک خبر کے مطابق وفاقی وزیر تعلیم محترمہ زبیدہ جلال نے کوئٹہ میں دینی مدارس کے اساتذہ کی تربیتی ورکشاپ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی راہ میں کوئی اندرونی یا بیرونی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نے ’’قومی دھارے‘‘ میں شامل کرنے کے عنوان سے دینی مدارس کے جداگانہ تعلیمی تشخص کو ہر قیمت پر ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور یہ وہی نقطہ نظر ہے جسے:

  • ہمارے ہاں داخلی طور پر دینی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا نام دیا گیا ہے،
  • اور بین الاقوامی حلقوں میں اسے دینی مدارس کی اصلاح کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے جس کے لیے امریکہ نے حکومت پاکستان کو اربوں روپے کی امداد دی ہے اور یورپی یونین نے بھی گزشتہ روز اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کو دینی مدارس کی اصلاح کے لیے مالی امداد دینے کو تیار ہے۔

محترمہ زبیدہ جلال نے اپنے کوئٹہ کے مذکورہ خطاب میں یہ جملہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ دینی مدارس میں دنیاوی علوم کے فروغ کا مقصد دینی مدارس کے طلبہ کو ملک اور قوم کا ایک کارآمد شہری بنانا ہے۔ اس طرح اس تاثر کا ایک بار پھر اعادہ کیا جا رہا ہے کہ دینی مدارس جس رخ پر کام کر رہے ہیں، وہ صحیح رخ نہیں ہے۔ اور دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء جن شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ملک و قوم کے لیے ان کا کارآمد ہونا محل نظر ہے۔ اس حوالے سے یہ الگ بحث ہے جو مستقل گفتگو کی متقاضی ہے کہ دینی مدارس اس معاشرے کی جو خدمت کر رہے ہیں، اس کی اہمیت و افادیت کی سطح اور حجم کیا ہے۔ اور ان مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء کرام، حفاظ، قاری، مفتی، خطیب، مدرس، امام اور مبلغ کی حیثیت سے جن شعبوں میں کام کر رہے ہیں، وہ ملک و قوم کے لیے کارآمد ہیں یا نہیں۔ مگر سرِدست اس بحث سے قطع نظر عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ تمام تر مبینہ کمزوریوں، اعتراضات اور طعن و تشنیع کے باوجود دینی مدارس کو اپنا جداگانہ تشخص اور آزادانہ کردار ہمیشہ عزیز رہا ہے اور باوجودیکہ ’’قومی دھارے‘‘ میں شامل ہونے کی صورت میں انہیں اخراجات کے لیے رقوم جمع کرنے کے حوالے سے بہت سے جھنجھٹوں سے نجات مل سکتی ہے، مگر وہ اپنے مشن کے لیے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے عام آدمی کا تعلق دین کے ساتھ قائم رکھنا ہے اور قرآن و سنت کی تعلیم کو کسی مداخلت کے بغیر اگلی نسلوں تک صحیح حالت میں پہنچانا ہے تو ان کا حکومتی نظام اور قومی دھارے سے الگ رہنا لازمی ہے۔ اپنا جداگانہ تشخص اور آزادانہ کردار باقی رکھ کر ہی وہ ان دینی مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں جن کی خاطر ان دینی مدارس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

اس سلسلے میں دینی مدارس کس قدر حساس ہیں؟ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۸۶۶ء میں جب دیوبند کے قصبہ میں پہلی دینی درس گاہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جو بعد میں دارالعلوم دیوبند کے نام سے جنوبی ایشیا کی علمی و دینی جدوجہد کا عنوان بنا، تو اس کے اساسی اصولوں میں حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے یہ بات ہمیشہ کے لیے لکھ دی کہ اس کے اخراجات عام مسلمانوں کے رضاکارانہ مالی تعاون کے ذریعے سے ہی پورے کیے جائیں گے اور اس کے لیے کسی حکومت یا ریاست سے کوئی مستقل امداد قبول نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ ایک سو چالیس سال کے لگ بھگ عرصہ گزر چکا ہے کہ دارالعلوم نے بڑی بڑی پیشکشوں کے باوجود آج تک کسی حکومت کی گرانٹ قبول نہیں کی۔ اسی وجہ سے یہ دینی ادارے پورے اطمینان کے ساتھ اپنے دینی و ملی مقاصد کے لیے مصروف عمل ہے۔

اسی طرح اس خطے کے ایک دوسرے بڑے علمی و فکری ادارے ’’ندوۃ العلماء لکھنو‘‘ کا ایک واقعہ بھی خاصا فکر انگیز اور بصیرت افروز ہے جو حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ نے اپنی کتاب ’’پرانے چراغ‘‘ میں مولانا مسعود عالم ندویؒ کے تذکرہ میں بیان کیا ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے بعد جب مولانا ابو الکلام آزادؒ بھارت کے وزیر تعلیم بنے تو انہوں نے حکومت کی سرپرستی میں ایک معیاری عربی درس گاہ قائم کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے ندوۃ العلماء کا انتخاب کیا کہ حکومت اسے اپنی سرپرستی میں ایک جدید معیاری عربی تعلیمی ادارے کی شکل دے کر ملک بھر کے دیگر اداروں کے لیے مثال بنائے گی۔ اس مقصد کے لیے ندوۃ العلماء لکھنو کو پیشکش کی گئی کہ اگر ندوہ اس کردار کو قبول کر لے تو حکومت اس کی عمارتوں کی تکمیل کرا دے گی اور اخراجات میں سرپرستی کرے گی۔ مولانا سید ابو الحسن ندویؒ لکھتے ہیں کہ ندوہ والے اس پیشکش پر الجھن میں پڑ گئے۔

  • ایک طرف مولانا آزاد کی شخصیت تھی جو بھارتی مسلمانوں کے قومی لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر تعلیم بھی تھے، ندوۃ العلماء لکھنو کے قدیمی معاونین اور سرپرستوں میں سے تھے، اور ایک عرصہ سے ندوہ کی انتظامیہ اور شوریٰ کا حصہ چلے آرہے تھے۔
  • اور دوسری طرف یہ بات پیش نظر تھی کہ سرکاری سرپرستی قبول کر کے ندوہ اپنا تشخص کھو دے گا اور وہ مختلف ملی و دینی شعبوں میں جو خدمات سرانجام دے رہا ہے، ان سے محروم ہو جائے گا۔

اس لیے یہ پیشکش قبول کرنا ندوہ والوں کے لیے بے حد مشکل بات تھی، چنانچہ اس مقصد کے لیے مولانا مسعود عالم ندویؒ کا انتخاب ہوا کہ وہ مولانا آزاد سے مل کر بات کریں۔ مولانا ندوی دہلی گئے، مولانا آزاد سے ملے اور ان سے جو بات کی، اس کا خلاصہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے قلم سے ملاحظہ فرما لیجئے:

’’مولانا ابو الکلام آزاد نے ملاقات کے لیے آنے پر مولانا مسعود عالم ندویؒ کو فوراً بلا لیا اور اپنے معمول کے مطابق کہا کہ مولانا مسعود کیسے آئے؟ (مولانا مسعودؒ) کہنے لگے کہ کچھ بزرگوں کے لوح مزار کی عبارت کے بارے میں غور و خوض ہو رہا ہے۔ مولانا محمد علی مونگیریؒ کے لوح مزار پر بانی ندوۃ العلماء لکھنا تجویز ہوا ہے۔ اسی طرح مولانا شبلی نعمانیؒ کی لوح مزار کی کوئی عبارت بتائی جس سے ان کی ندوۃ العلماء کی تحریک کو ترقی دینے کا اظہار ہوتا تھا۔ کہنے لگے کہ اندیشہ ہے کہ ہمارے اور آپ کے لوح مزار پر ’’قاتل ندوۃ العلماء‘‘ لکھا جائے گا۔ مولانا آزاد نے بڑے استعجاب سے پوچھا کہ کیوں؟ معاملہ کیا ہے؟ کہنے لگے کہ آپ نے جو تجویز پیش کی ہے، اس کا مآل تو یہی ہے کہ ندوۃ العلماء تو ختم ہو جائے اور ہم اور آپ اس کے قاتل ٹھہریں۔ آج تو آپ منصب وزارت پر ہیں اور آپ کی موجود گی میں اس کا خطرہ نہیں، لیکن آئندہ کون آتا ہے اور کیا ہوتا ہے؟ مولانا کی شہرہ آفاق ذہانت کے لیے اتنا اشارہ کافی تھا۔ وہ دور تک بات کو سمجھ گئے اور فرمایا کہ آپ لوگوں کا فیصلہ صحیح ہے اور اس تجویز پر کوئی اصرار نہ کیا۔‘‘

اسی قسم کی صورتحال ہمارے ہاں بھی اس وقت پیش آئی تھی جب ۱۹۷۲ء میں مولانا مفتی محمودؒ صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کی حکومت پر ملک کے دینی حلقوں میں بڑی خوشی محسوس کی گئی تھی جو فطری بات ہے۔ مفتی صاحب اس وقت وفاق المدارس کے ذمہ دار حضرات میں سے تھے۔ ان سے بعض دینی مدارس نے صوبائی حکومت کی طرف سے امداد کی درخواست کی اور ایک مجلس میں یہ بات بطور مشورہ زیر غور آئی کہ مفتی صاحب کی حکومت کو دینی مدارس کی مالی امداد کرنی چاہیے یا نہیں؟ بعض دوستوں کی رائے اس کے حق میں تھی، مگر مفتی صاحب نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں یہ روایت قائم نہیں کرنا چاہتا۔ آج میں وزیر اعلیٰ ہوں، کل کوئی اور ہوگا اور اگر میں دینی مدارس میں سرکاری امداد کا راستہ کھول دوں گا تو کل آنے والا مداخلت بھی کرے گا اور دینی مدارس کا نظام اپنے مقصد سے ہٹ جائے گا، اس لیے دینی مدارس کی امداد کے لیے صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی فنڈ دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نظریاتی اور مشنری دینی ادارے اس معاملے میں کس قدر حساس ہیں اور ان کے تحفظات کیا ہیں؟ یہ درست ہے کہ سرکاری مدرسہ بورڈ کو بھی بہت سے مدارس مل جائیں گے اور امریکی امداد اور یورپی امداد کے مصرف کے طور پر بھی سینکڑوں بلکہ ہزاروں مدارس حکومت کو میسر آ جائیں گے، لیکن جو مدارس ایک مشن اور نظریہ کے طور پر کام کر رہے ہیں، وہ پہلے کی طرح اب بھی اس سے الگ ہی رہیں گے۔ اس کا تجربہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں سرکاری سطح پر مدارس میں زکوٰۃ کی رقم تقسیم کرنے کے حوالے سے کیا جا چکا ہے۔ اب بھی اس تجربے کے نتائج مختلف نہیں ہوں گے، تاہم دینی مدارس کے وفاقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آنے والے حالات پر نظر رکھیں اور دینی مدارس کو گھیرنے کے اس نئے پروگرام کے بارے میں رائے عامہ کی راہنمائی اور اپنے موقف اور پوزیشن کی وضاحت کا محاذ خالی نہ رہنے دیں۔ دینی مدارس کے وفاقوں کو ایک بار پھر مشترکہ اجتماعات کا اہتمام کرنا چاہیے اور درپیش خطرات و خدشات کے پیش نظر دینی مدارس، علماء کرام، دینی کارکنوں اور رائے عامہ کی راہنمائی کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter