مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ

   
تاریخ: 
ستمبر ۱۹۹۵ء

بعد الحمد والصلاۃ۔ حضراتِ محترم! سب سے پہلے تو میں مدنی مسجد کی منتظمہ اور بالخصوص مولانا رضاء الحق سیاکھوی کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے میرے لیے اس سعادت میں شمولیت کا اہتمام فرمایا کہ جناب سرور کائنات، شفیع المذنبین، خاتم النبین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ وازواجہ واصحابہ واتباعہ وبارک وسلم کی سیرت طیبہ پر چند دن مسلسل کچھ گزارش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کے بعد میں آپ حضرات سے درخواست کروں گا کہ گفتگو کے باقاعدہ آغاز سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں خصوصی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کی اصلاح فرمائیں اور یہ عمل جو ہم شروع کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ خلوص نیت کے ساتھ اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائیں۔ اس دوران سیرت طیبہ کے حوالے سے جو گفتگو ہو اللہ تعالیٰ کہنے اور سننے والوں کو جناب نبی کریمؐ کے اسوۂ حسنہ سے زیادہ سے زیادہ واقفیت اور اس پر عمل کی توفیق سے نوازے، اس لیے کہ صحیح علم کا فائدہ تبھی ہے جب اس پر عمل ہو۔

سیرتِ طیبہ، بحرِ نا پیدا کنار

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ایک بہت بڑا سمندر ہے، ایسا سمندر نہ جس کا کوئی کنارہ ہے اور نہ جس کی کوئی تہہ ہے۔ آج دنیا کے سمندر کی تہہ تو لوگوں نے ڈھونڈ لی ہے اور کنارے بھی معلوم کر لیے گئے ہیں لیکن رسول اللہؐ کی سیرت طیبہ ایک ایسا سمندر ہے جس کی تہہ تک آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا اور قیامت تک کوئی نہیں پہنچ سکے گا۔ گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال سے جناب نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں، تقریریں ہو رہی ہیں اور مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن کوئی نہ کوئی نئی بات اللہ تعالیٰ دلوں میں ڈال دیتے ہیں، یوں آنحضرتؐ کی سیرت طیبہ کے حوالے سے نئے نئے نکات، نئی نئی چیزیں اور نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں جو کہ قیامت تک ہوتے رہیں گے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آج تک جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اور جتنا کچھ کہا جا چکا ہے یہ سب مل کر بھی جناب رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کا حق ادا نہیں کرتے تو یہ بات خلافِ واقعہ نہیں ہے۔ رسول اللہؐ کی سیرت طیبہ کا احاطہ تو کسی کے بس کی بات نہیں ہے، یہ دعویٰ کہ ہم ساری سیرت بیان کر لیں گے یا ساری سیرت سمجھ لیں گے یہ بات ممکن ہی نہیں ہے۔ لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میرا یہ اِرادہ ہے کہ آج کے ہمارے عملی مسائل کے حوالے سے آنحضرتؐ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو ترتیب کے ساتھ ذکر کیا جائے۔ ہم نے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر گفتگو کے جو عنوانات منتخب کیے ہیں ان کی ترتیب یہ ہے، ان عنوانات پر ان شاء اللہ العزیز روزانہ گفتگو ہوگی اللہ تعالیٰ تکمیل کی توفیق دے، آمین۔

۱۔ سیرت نبویؐ اور مکارم اخلاق

۲۔ سیرت نبویؐ اور سماجی خدمت

۳۔ سیرت نبویؐ اور خواتین کی معاشرتی حیثیت

۴۔ سیرت نبویؐ اور انسانی حقوق

۵۔ سیرت نبویؐ اور سیاسی قیادت

۶۔ سیرت نبویؐ اور قانون کی بالادستی

۷۔ سیرت نبویؐ اور معاشی انصاف

۸۔ سیرت نبویؐ اور دعوتِ اسلام

۹۔ سیرت نبویؐ اور خاندانِ نبوت

۱۰۔ سیرت نبویؐ اور تسخیر کائنات

انسانی اخلاق

ہماری آج کی پہلے دن کی گفتگو کا عنوان ہے: سیرت نبویؐ اور مکارمِ اخلاق۔ ’’خُلُق‘‘ انسانی عادت کو کہتے ہیں ’’اَخلاق‘‘ عادات کو کہتے ہیں۔ انسان جب اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے تو والدین کی تربیت، ارد گرد کے ماحول اور حالات و واقعات کے ذریعے اس کا مختلف عادات پر مشتمل ایک مزاج بن جاتا ہے۔ اخلاق اچھے بھی ہوتے ہیں اور اخلاق برے بھی ہوتے ہیں، اخلاق فاضلہ اور اخلاق رذیلہ دونوں کا ذکر آتا ہے۔ اچھی عادت ہے سچ بولنا بری عادت ہے جھوٹ بولنا، اچھی عادت ہے انصاف کرنا بری عادت ہے ظلم کرنا، اچھی عادت ہے وعدہ پورا کرنا بری عادت ہے وعدہ توڑنا۔ یہ میں نے مثال کے طور پر عرض کیا ہے کہ عادات اچھی بھی ہوتی ہیں اور عادات بری بھی ہوتی ہیں، اچھی عادات کو بھی اخلاق کہتے ہیں اور بری عادات کو۔

ایک انسان کی عادات صرف اسی پر اثر انداز نہیں ہوتیں بلکہ پوری سوسائٹی پر اثر انداز ہوتی ہیں اِس لیے کہ کوئی بھی انسان دنیا میں اکیلا زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ ایک انسان اگر دنیا میں باقی انسانوں سے کٹ کر تنہا رہنا چاہے تو یہ بات ممکن نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگیوں کے لیے اجتماعی معاشرہ بنایا ہے اور مل جل کر رہنے والی اور ایک دوسرے کے کام آنے والی سوسائٹی بنائی ہے۔ سب انسان مل کر اجتماعی اعمال سے گزرتے ہیں تو ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ مثال کے طور پر میرے ہاتھ میں یہ ایک کاغذ ہے جس پر کچھ لکھا ہے یہ مجھ اکیلے کا کام نہیں ہے۔ اس کاغذ کے بننے میں خدا جانے کتنے لوگوں کا عمل دخل ہے، جس قلم سے لکھا گیا ہے اس کے بننے میں خدا جانے کتنے لوگوں کا عمل شامل ہے، قلم میں جو سیاہی ہے خدا جانے اس کے بننے میں کن کن لوگوں کی مہارت کار فرما ہے، اور پھر میری اس کاغذ پر لکھنے کی جو صلاحیت ہے خدا جانے اس کے پیچھے کن کن لوگوں کی محنت شامل ہے۔ تو اس کاغذ پر جو تحریر ہے یہ اتنے سارے لوگوں کی محنت اور عمل کے بعد وجود میں آئی ہے۔ کوئی بھی عمل دنیا میں ایسا نہیں ہے جو ایک انسان تنہا کر سکے، چنانچہ انسانوں کے اجتماعی اعمال سے ایک معاشرہ وجود میں آتا ہے، اگر انسانوں کے مجموعی اعمال اچھے ہوں تو ایک اچھی سوسائٹی بنتی ہے لیکن اگر انسانوں کے مجموعی اعمال برے ہوں تو ایک بری سوسائٹی بنتی ہے۔

یوں سمجھ لیں کہ انسانی معاشرہ ایک مشین ہے جس کے پرزے اِنسان ہیں۔ مشین کے اچھے یا برے ہونے کا دارومدار پُرزوں کے معیار پر ہے، پُرزے اچھے معیار کے ہوں گے اور جس انجینئر نے وہ مشین ڈیزائن کی ہے اس کی ہدایات کے مطابق ہوں گے تو ان پُرزوں سے مشین بھی اچھی بنے گی، لیکن اگر مشین کے اکثر یا بنیادی پُرزے خراب ہوں گے تو وہ مشین بیکار ہوگی۔ اسی طرح معاشرے کے اکثر لوگوں کی اور راہنما لوگوں کی اخلاق و عادات اچھی ہوں گی تو اس سے ایک اچھا معاشرہ بنے گا لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہوگا تو ظاہر بات ہے کہ معاشرہ بھی بُرا ہی سامنے آئے گا۔ حضرات انبیاءؑ ؑکی تعلیمات کی بنیاد اسی بات پر ہے کہ انسان اس مشینری کا ایک صحیح اور کار آمد پرزہ بنے اور انسان کا ایمان، یقین اور اس کی عادات اچھی ہوں۔ اگر انسان کا خدا کی ذات پر یقین پختہ ہوگا تو اس کے اخلاق و اعمال اچھے ہوں گے اور یوں وہ معاشرے کا ایک مفید فرد بنے گا۔

بہترین اخلاق کے لوگ

اس دنیا میں اخلاق اور کردار کے اعتبار سے حضرات انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والتسلیمات سب سے بہتر لوگ تھے، یہ صرف ہماری عقیدت اور محبت کی بات نہیں ہے بلکہ تاریخی واقعہ اور حقیقت ہے۔اسی طرح انبیاء کرامؑ میں سے سب سے برتر اور سب سے اعلیٰ شخصیت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، یہ بات اپنے اور پرائے سب تسلیم کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ کی ذات گرامی انسانی تاریخ کی سب سے بہتر شخصیت تھی۔ اور طبقاتِ انسانی میں سب سے بہتر طبقہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طبقہ تھا، یہ تاریخی شہادت ہے کہ ایک معاشرے اور سوسائٹی کے طور صحابہ کرامؓ کا طبقہ سب سے مثالی اور آئیڈیل طبقہ تھا، ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے والا ایک دوسرے کے لیے ایثار کرنے والا ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا۔ ایسا طبقہ جس کی بنیاد اچھے اخلاق و عادات پر تھی اس لیے کہ یہ طبقہ جناب نبی کریمؐ کا تربیت یافتہ تھا اَور حضورؐ نے ایک ایک پرزے کی تربیت اس انداز سے کر دی تھی کہ وہ انسانی معاشرے کی مشین میں پرزے کے طور پر اپنی اپنی جگہ فٹ ہوتے چلے گئے اور یوں دنیا کا ایک بہترین معاشرہ تشکیل پایا۔

چنانچہ اخلاق فاضلہ انسانی معاشرے کی سب سے بنیادی ضرورت ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین اور ایمانیات کے بعد انسانی معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت اچھے اخلاق و عادات کا حامل ہونا ہے۔ اچھی عادات میں اللہ پر ایمان بھی ہے، عبادات بھی ہیں اور آپس کے معاملات بھی ہیں۔ لیکن شخصی مزاج اور شخصی عادات کا اچھا ہونا یہ دین اسلام کا سب سے بڑا مطالبہ اور سب سے بڑا تقاضا ہے۔ خود جناب نبی کریمؐ سے جب پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب بندہ کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں، رسول اللہؐ نے خود فرمایا کہ میرا قُرب سب سے زیادہ اسے نصیب ہوگا جو سب سے زیادہ خوش اخلاق ہوگا۔ ایک حدیث میں رسول اللہؐ نے یوں ارشاد فرمایا کہ اگر تم سوسائٹی میں اچھے لوگ دیکھنا چاہو تو ان لوگوں کو دیکھو جو ’’احسنھم اخلاقًا‘‘ جن کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔

نسلِ انسانی کی بہترین شخصیت

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقِ حسنہ کے اعتبار سے پوری نسل انسانی میں ممتاز ترین شخصیت ہیں۔ ایک بات یہ ہے کہ کوئی شخص ذاتی حد تک عادات و اخلاق کے اعتبار سے اچھے مزاج کا حامل ہو، اس اعتبار سے تو آپؐ اچھے مزاج کے حامل تھے ہی، لیکن آپ ؐ نے اپنے اچھے اخلاق و عادات کو اپنے ساتھیوں، دوستوں، بچوں اور شاگردوں میں تقسیم فرمایا اور اخلاق فاضلہ کی ایک بہترین سوسائٹی دنیا کو دی۔ یہ جناب نبی کریمؐ کا کمال ہے کہ آپ نے اچھے اخلاق کی تربیت دے کر ایک باکمال جماعت تشکیل دی جو آج بھی ایک بہترین معاشرے کے طور پر دنیا کے سامنے مثال ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے اچھے اخلاق کی تربیت کو اپنی زندگی کا مشن قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘ کہ مجھے سب سے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ فرمایا کہ میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاق میں جو سب سے بلندی والے شرافت والے اور عزت والے اخلاق ہیں انہیں اپنے کمال تک پہنچا دوں اور واقعی جناب نبی کریمؐ نے مکارم اخلاق کو انتہا تک پہنچایا۔ رسول اللہؐ کی حیات مبارکہ میں قدم قدم پر اخلاقِ حسنہ کا مظاہرہ دکھائی دیتا ہے۔ اخلاقِ حسنہ میں آپ کوئی بھی دو چار چیزیں منتخب کر لیں آنحضرتؐ کی شخصیت آپ کو ان کی انتہا پر نظر آئے گی۔ میں اس موقع پر جناب رسول اکرمؐ شخصیت کے حوالے سے کچھ چیدہ چیدہ باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا۔

سچائی

’’سچائی‘‘ اخلاق حسنہ میں سب سے پہلی عادت ہے۔ سچ بولنا اس دنیا کی سب سے بڑی خوبی ہے اور انسانی اخلاق و عادات میں سب سے اچھی عادت سچ بولنا ہے۔اسی طرح جھوٹ بولنا سب سے بری عادت ہے۔ ایک کافر شخص جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں ایمان قبول کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں بہت سی بری عادت ہیں۔ میں شراب بھی پیتا ہوں زنابھی کرتا ہوں اور نہ جانے کیا کچھ کرتا ہوں۔ میں ایمان قبول کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن سب بری عادات یک دم نہیں چھوڑ سکتا البتہ ایک ایک کر کے چھوڑ سکتا ہوں۔ جناب رسول اکرمؐ نے اس شخص کی اس شرط پر راضی ہوتے ہوئے اسے کلمہ پڑھوایا اور اس شخص نے ایمان قبول کر لیا۔ اس کے بعد آپؐ نے اس شخص سے کہا کہ میرے ساتھ وعدہ کرو کہ تم آج کے بعد جھوٹ نہیں بولو گے، اس نے کہا کہ ٹھیک ہے میرا آپ کے ساتھ وعدہ ہے کہ میں آج کے بعد جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اللہ کی قدرت دیکھیں کہ اس جھوٹ کے چھوڑنے سے اس شخص کی سب برائیاں یکے بعد دیگرے چھوٹتی چلی گئیں۔

جناب رسول اللہؐ نے برائیوں کی ترتیب میں سب سے پہلے ’’جھوٹ‘‘ کا ذکر فرمایا۔ آپؐ نے اپنی تعلیم سے بتایا کہ اچھائیوں میں سب سے اچھی عادت سچائی ہے جبکہ برائیوں میں سب سے بری عادت جھوٹ ہے۔ رسول اللہؐ کو پوری نسل انسانی میں ’’اصدق الناس‘‘ کہاجاتا ہے اور یہ کوئی مبالغے کی بات نہیں ہے کہ ہم اپنی عقیدت اور محبت کی وجہ سے ایسی بات کہہ رہے ہیں بلکہ یہ امر واقعہ ہے جس کی بڑے سے بڑے دشمن نے بھی تصدیق کی ہے۔ حضورؐ کے سب سے بڑے دشمن دو تھے پہلے ابو جہل اور اس کے بعد ابو سفیان۔ رسول اللہؐ کے خلاف مکہ کے معاشرے کو لڑانے والے یہی دو بڑے تھے لیکن آنحضرت کے ایک سچا انسان ہونے کے بارے میں دونوں کی گواہی تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔

ابو جہل سے کسی نے پوچھا کہ محمدؐ کے بارے میں تمہار کیا رائے ہے؟ ابوجہل نے اقرار کیا کہ محمدؐ سچے آدمی ہیں۔ اس سے پوچھا گیا کہ اگر وہ سچے ہیں تو تم مانتے کیوں نہیں ہو؟ ابوجہل نے کہا کہ یہ الگ بات ہے کہ میں نہیں مانتا یہ ہماری چودھراہٹ کا مسئلہ ہے لیکن محمدؐ ایک سچا آدمی ہے۔ دشمن کی شہادت ہی اصل میں سب سے بڑی گواہی ہوتی ہے۔

اس وقت کی سب سے بڑی سپر پاور رُوم کے بادشاہ قیصر کے دربار میں جب جناب محمد رسول اللہؐ کا خط پہنچا تو قیصرِ روم نے کہا کہ عرب معاشرے کا کوئی ایسا معتبر آدمی لاؤ جس کے ساتھ میں محمدؐ کے بارے میں بات کر سکوں۔ ابو سفیان بھی اتفاق سے ان دنوں تجارت کی غرض سے شام گئے ہوئے تھے چنانچہ قیصر روم کے دربار میں حضورؐ کا خط پڑھا گیا اَور ابو سفیان جو رسول اللہؐ کے اس وقت کے سب سے بڑے مخالف تھے انہیں قیصرِ روم کے دربار میں بلا کر پوچھا گیا کہ تمہارے علاقے کے ایک آدمی محمدؐ کا خط آیا ہوا ہے، میں اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ قیصرِ روم نے ابوسفیان سے جناب نبی کریمؐ کی ذات گرامی کے بارے میں جو سوالات کیے ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ اس شخص (محمدؐ) کی ذاتی زندگی میں سچ اور جھوٹ کے حوالے سے تمہاری کیا رائے ہے؟ ابوسفیان نے جواب دیا کہ محمدؑ ایک سچ بولنے والا بندہ ہے۔ چنانچہ یہ بھی ایک بہت بڑی تاریخی شہادت ہے کہ آپؐ کے سب سے دشمن نے بھی آپؐ کے سچا اور کھرا آدمی ہونے کا اعتراف کیا۔

حضورؐ کی ذاتی زندگی تو سچائی ہی سے عبارت تھی، صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر پورے معاشرے سے شہادت مانگی کہ میں نے تمہارے اندر چالیس سال گزارے ہیں میرے شب و روز تم نے دیکھے ہیں میرا بچپن، جوانی، اٹھنا بیٹھنا اور میرے معاملات سب کچھ تم لوگوں نے دیکھا ہے، تم لوگوں کی میرے بارے میں کیا رائے ہے؟ ’’ھل وجدتمونی صادقاً او کاذباً‘‘ کہ مجھے تم لوگوں نے سچا پایا یا جھوٹا؟ سب نے بیک وقت آواز کہا ’’ما وجدنا فیک الا صدقًا‘‘ کہ اے محمدؐ تمہاری زندگی میں ہم نے کبھی سچائی کے سوا کچھ دیکھا ہی نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تو سچائی کا مظہر تھے ہی لیکن آپؐ نے جو سوسائٹی تشکیل دی وہ کیسی تھی؟ آپؐ کی حیات مبارکہ میں غزوۂ تبوک کا لشکر سب سے بڑا اورمشکل لشکر تھاجسے جیش عُسرت کہا جاتا ہے۔شام کی طرف ایک لمبا سفر تھا، ایک طرف کا سفر ایک مہینے میں طے ہوتا تھا اور پھر یہ اندیشے بھی تھے قیصرِ روم سے مقابلہ ہے خدا جانے وہاں کیا کیا مشکلات پیش آئیں گی۔ چنانچہ منافقین تو بہانے اور عذر کر کے مدینہ منورہ رہ گئے لیکن ان کے ساتھ ساتھ کچھ مخلص صحابیؓ بھی اپنی سستی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے جن میں سے ایک حضرت کعب بن مالکؓ بھی تھے۔ چونکہ غزوہ میں شرکت کے لیے اعلانِ عام تھا اِس لیے رسول اللہؐ غزوہ سے جب واپس تشریف لائے تو پیچھے رہ جانے والے لوگوں سے پوچھا کہ بھئی کیا بات تھی تم لوگ ساتھ کیوں نہیں گئے؟ جو لوگ منافقین تھے انہوں نے تو بہانے گھڑے کسی نے کہا کہ بیوی بیمار تھی کسی نے کہا کہ بچہ بیمار تھا کسی نے کہا کہ فلاں ضروری کام تھا وغیرہ۔ جبکہ کعب ابن مالکؓ خود کہتے ہیں کہ میں بھی غزوہ میں نہیں جا سکا تھا میں نے سوچا کہ جیسے یہ سارے لوگ عذر بہانے کر کے جان چھڑا رہے ہیں ایسے ہی میں بھی کوئی ہلکا پھلکا عذر پیش کر کے اپنا کام بنا سکتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ یہ بات ذہن میں آئی لیکن پھر میں نے اپنے آپ سے کہا کہ کعب! ایسا نہ کرنا بلکہ سچ بولنا اور رسول اللہ کے سامنے جھوٹ مت بولنا۔ چنانچہ جھوٹ بولنے والوں نے تو وقتی طور پر اپنی جان بخشی کروالی لیکن حضرت کعب بن مالکؓ نے سچ بولا اور مسلسل پچاس روز تک سوشل بائیکاٹ کی سزا بھگتی۔ شاعر کہتا ہے کہ :

؂     اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا

یہ جناب نبی کریمؐ کی تربیت تھی کہ جھوٹ بول کر جان نہیں چھڑوانی بلکہ سچ بول کر سزا بھگتنی ہے، یہ جناب نبی کریمؐ کے اخلاق کا پرتو تھا کہ آپ کے تربیت یافتہ صحابیؓ نے مشکل وقت میں سچ بول کر دنیا کو بتایا کہ سچائی کسے کہتے ہیں۔

تحمل

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے سب سے نمایاں اوصاف میں ایک صفت کا ذکر ہوتا ہے جسے تحمل، بردباری اور درگذر کہتے ہیں۔ یعنی تکلیف، مخالفت اور اذیت کو برداشت کرتے ہوئے دشمن کو معاف کر دینا۔ دنیا کی کوئی اور شخصیت جناب نبی کریمؐ کے تحمل اور بردباری کے کسی ایک واقعہ کی مثال بھی نہیں پیش کر سکتی۔ مکہ کی تیرہ سالہ زندگی کے بارے میں تو کوئی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ آپؐ وہاں طاقت میں نہیں تھے کہ لوگ جب تکلیف دیتے تھے تو برداشت کرنے کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مکہ کی زندگی میں اختیار نہیں تھا، قوت نہیں تھی، اقتدار نہیں تھا اَور آپ کی جماعت کمزور تھی، صبر کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ لیکن مدنی زندگی میں جب آپؐ کے پاس اقتدار تھا جب آپ کے پاس حکومت تھی اور پھر جب آپ مکہ مکرمہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تو مکی زندگی کی وہ ساری تکالیف وہ ساری اذیتیں وہ ساری مشکلات آپ کے سامنے تھیں۔ جب آپ دس ہزار صحابہؓ کے ساتھ مکہ مکرمہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے ، اللہ اکبر کی صدا بلند کی، خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا، مکہ مکرمہ میں اقتدار قائم کیا اَور پھر سب کو اکٹھا کر کے یہ سوال کیا کہ آج کے دن تم لوگ مجھ سے کس سلوک کی توقع رکھتے ہو؟ اس پر مکہ والوں نے کہا کہ ہم آپ سے ایک شریف آدمی کی اور ایک شریف آدمی کے بیٹے کے سلوک کی توقع رکھتے ہیں، اِس پر رسول اللہؐ نے فرمایا ’’لا تثریب علیکم الیوم، اذھبوا فانتم الطلقاء‘‘ کہ آج کے دن تم سے کوئی انتقام نہیں ہے، جاؤ تم سب آزاد ہو۔

حضورؐ کے پاس اختیار اورطاقت تھی آپؐ کیا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ حضورؐ کے سب سے بڑے دشمن ابو جہل کے بیٹے عکرمہؓ جن کے بارے میں کسی کو تصور بھی نہیں تھا کہ انہیں معافی مل جائے گی، عکرمہؓ نے مکہ چھوڑا اورجدہ پہنچ کر سمندر میں کشتی پر بیٹھ گئے کہ اب میرے لیے یہاں رہنا ممکن نہیں اس لیے مجھے جزیرۃ العرب سے نکل کر کہیں دور چلے جانا چاہیے۔ عکرمہؓ کی اہلیہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور پوچھا کہ یا رسول اللہؐ کیا عکرمہؓ کے لیے بھی معافی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہاں ۔ عکرمہؓ کی بیوی نے پوچھا وہ عکرمہؓ جو ابو جہل کا بیٹا ہے۔ آپؐ نے فرمایا، ہاں جانتا ہوں اس کے لیے بھی معافی ہے۔ پوچھا کیا میں عکرمہؓ کو ڈھونڈ کر لے آؤں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں لے آؤ۔ چنانچہ وہ جدہ تک پیچھا کر کے اپنے خاوند کو واپس لائی اور وہ ایک معزز شہری کے طور پر اسلامی معاشرہ کا حصہ بنے۔

اسی طرح وحشی بن حربؓ آئے جنہوں نے حضورؐ کے چچا سید الشہداء حضرت حمزہؓ کو احد کے میدان میں اس بے دردی سے شہید کیا تھا کہ ان کی زبان کاٹی تھی کان کاٹے تھے ناک کاٹی تھی اور سینے سے جگر نکالا تھا۔ لیکن جب رسول اللہؐ مکہ کے فاتح کی حیثیت سے لوگوں کی قسمت کے فیصلے کر رہے تھے تو وحشی بن حربؓ آئے اور بتایا کہ یا رسول اللہ! میں وحشی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا، ہاں جانتا ہوں۔ پوچھا اگر میں اسلام قبول کروں تو کیا میرا اسلام قبول ہوگا؟ فرمایا، ہاں قبول ہوگا۔ بتایا ، جناب میں حمزہؓ کا قاتل ہوں کیا یہ قتل مجھے معاف ہو جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا، ہاں معاف ہو جائے گا۔ ’’الاسلام یھدم ما کان قبلہ‘‘ کہ اسلام قبول کرنے سے کفر کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ وحشی کا اسلام قبول کر کے جناب نبی اکرمؐ نے انہیں اپنے مسلمانوں اور عقیدت مندوں میں شامل کیا۔ لیکن انسانی فطرت کے پیش نظر آپؐ نے ایک بات فرمائی کہ وحشی! تمہارا اِسلام قبول ہے، تم صحابیؓ ہو اور تمہارے سارے گناہ معاف ہیں لیکن میں جب تمہیں دیکھتا ہوں تو اپنے چچا کی شہادت کا وہ منظر میرے سامنے آجاتا ہے۔ اس پر وحشیؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آج کے بعد آپ مجھے نہیں دیکھیں گے۔ حضورؐ کو تکلیف کے اوقات نہ یاد دلانے کے لیے وحشی نے یہ وعدہ کیا ورنہ کس صحابی کا جی چاہتا ہے کہ وہ حضورؐ کے سامنے نہ آنے کے لیے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے پابند کر لے، چنانچہ وحشی شام چلے گئے اور انہوں نے حضورؐ کے ساتھ کیا ہوایہ وعدہ نبھایا۔

وحشیؓ خود روایت کرتے ہیں کہ میرے دل میں ایک کھٹک تھی کہ قیامت کے دن جب حمزہؓ اپنے چاک سینے کے ساتھ پیش ہوں گے تو قاتل کا نام بھی سامنے آئے گا، وحشیؓ کہتے ہیں کہ میرے دل میں یہ حسرت اور تمنا تھی کہ یا اللہ ! جتنا بڑا مسلمان میرے ہاتھوں شہید ہوا ہے اتنا ہی بڑا کافر میرے ہاتھوں مارا جائے تاکہ کل قیامت کے دن جب یہ کہا جائے کہ یہ حمزہ کا قاتل ہے تو دوسری طرف بھی کوئی بڑا نام ہو جس سے حساب برابر ہو جائے۔ چنانچہ وحشیؓ کے ہاتھوں نبوت کا دعوے دار مسیلمہ کذاب قتل ہوا۔ وحشی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے تک میں نے وہی نیزہ سنبھال کر رکھا ہوا تھا جس سے میں نے حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا کہ اِس سے کسی بڑے کافر کو قتل کروں گا، وحشی وہ نیزہ لے کر یمامہ کی لڑائی میں شریک ہوئے اور مسیلمہ کو قتل کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ مسیلمہ کو قتل کرنے کے بعد وحشیؓ میدانِ جنگ میں دیوانہ وار طرح گھومتے تھے اور اعلان کرتے جاتے تھے کہ لوگو! میں حمزہؓ کا قاتل تھا اور میں مسیلمہ کا قاتل ہوں۔ وہ کھٹک جو وحشیؓ کے دل میں تھی نکل گئی اور ذہنی تسکین ہوگئی کہ میں نے آج اپنا حساب چکا دیا ہے۔

دنیا نے بڑے بڑے فاتح دیکھے ہیں لیکن فتح کے بعد قبضے کے بعد اور اقتدار و حکومت ملنے کے بعد اس طرح کوئی اپنے دشمنوں کو معاف کر دے اس کی مثال جناب نبی کریمؐ کے علاوہ کوئی اور فاتح پیش نہیں کر سکتا۔

امانت

اخلاق حسنہ اور اچھی عادات میں امانت و دیانت کا ذکر بھی آتا ہے۔ امانت ایک اچھی عادت ہے جبکہ بے ایمانی ایک بری عادت ہے، دیانت ایک اچھی خصلت ہے جبکہ بد دیانتی ایک بری خصلت ہے۔ کسی کی امانت میں خیانت کرنا اور کسی کے ساتھ بد دیانتی کا معاملہ کرنا یہ انسان کے برے اخلاق میں شمار ہوتا ہے۔ جبکہ امانت کا خیال کرنا، لوگوں کے ساتھ دیانت کا معاملہ کرنا اور لوگوں کے حقوق کو محفوظ رکھنا یہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہے۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اس بات میں بھی انتہاء پر ہے کہ اپنوں کے ساتھ دیانت کا معاملہ کرنا آسان ہے، کمال تو یہ ہے کہ دشمنوں کے ساتھ امانت و دیانت کا معاملہ کیا جائے۔

جب کفارِ مکہ کے ستم سے تنگ آکر آنحضرتؐ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ کی طرف روانہ ہونے لگے تو یہ وہ وقت تھا جب مکہ کے تمام قبائل نے متحد ہو کر آپؐ کو شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ماحول یہ تھا کہ قبائل نے افراد منتخب کر کے قاتلوں کا گروہ بنا دیا تھا اور اس گروہ کے سب افراد آپؐ کی جان کے درپے تھے، قاتلوں نے مختلف راستوں کی ناکہ بندی کر کے آپؐ کامحاصرہ کر رکھا تھا۔ اس ماحول سے اور قتل کے اس فیصلے کے نتائج سے بچنے کے لیے حضورؐ نے ہجرت کا راستہ اختیار کیا تھا، اس صورت حال میں جب آنحضرتؐ مکہ سے نکلنے لگے تو آپ کا آخری عمل کیا تھا؟ آپؐ نے اپنے بستر پر اپنے چچا زاد حضرت علیؓ کو سلایا اس وقت حضرت علیؓ آپؐ کے داماد نہیں تھے۔ حضورؐ نے رخصت ہوتے وقت چند امانتیں حضرت علیؓ کے سپرد کیں اور انہیں نصیحت کی کہ یہ امانتیں فلاں فلاں تک پہنچا کر ہمارے ساتھ شامل ہو جانا، یہ امانتیں حضورؐ کے دشمنوں کی تھیں۔ حضورؐ کی دیانت کا یہ حال کہ جن دشمنوں کی تلواروں کے سائے تلے سے نکل رہے ہیں انہی کی امانتوں کو واپس کرنے کی فکر اور اہتمام کر رہے ہیں۔

جناب نبی کریمؐ جب جہاد کے لیے نکلتے تھے تو عام طور پر لشکر کے خاص لوگوں کے علاوہ آخری منزل سے لوگوں کو آگاہ نہیں فرماتے تھے۔ خیبر کے لیے حضورؐ لشکر لے کر نکلے جو کہ یہود کا علاقہ تھا، صبح کے وقت جب ان کے کاشت کار کھیتی باڑی کے لیے گھروں سے نکل رہے تھے تب انہیں پتہ چلا کہ محمدؐ کے لشکر نے ہمیں گھیر لیا ہے۔ جب وہاں پہنچ کر آپؐ کے لشکر نے قلعے کا محاصرہ کر لیا تو ایک شخص اسود راعیؓ جو بعد میں صحابی ہوئے، اس علاقے میں بکریاں چَرا رہے تھے،انہیں اپنے کالے رنگ کی وجہ سے اسود اور چرواہا ہونے کی وجہ سے راعی کہا جاتا تھا۔ اسود راعی کسی کے غلام تھے اور اس کی بکریاں چرایا کرتے تھے انہوں نے دیکھا کہ نبی کریمؐ کا لشکر خیبر تک پہنچ گیا تھا، وہ جناب نبی کریمؐ کے پاس آئے اور پوچھا کہ میں اگر آپؐ کا دین قبول کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا جنت ملے گی۔ اسود راعی نے پوچھاکیا مجھ کالے کو جنت ملے گی؟ آپؐ نے فرمایا ہاں تجھے جنت ملے گی۔ پوچھا کیا میری نجات ہو جائے گی؟ فرمایا ہاں ہو جائے گی۔ اسود راعیؓ نے کہا ٹھیک ہے آپ مجھے کلمہ پڑھائیں۔ چنانچہ آپؐ نے اسود راعیؓ کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیا۔ مسلمان ہونے کے بعد اسود راعیؓ نے حضورؐ سے کہا کہ میں اب آپ کا خادم ہوں۔ آپؐ نے فرمایا وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ بکریاں جو تم چَرا رہے ہو یہ کس کی ہیں؟ خیال فرمائیے کہ حالت جنگ میں دشمن کے قلعے کا محاصرہ کر رکھا ہے اور بکریاں بھی کسی دشمن کی ہیں۔ فرمایا کہ تمہارا اسلام قبول کرنا اپنی جگہ لیکن یہ بکریاں جس کی ملکیت ہیں جس کی امانت ہیں اسے واپس کر کے آؤ۔ اسود راعیؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اگر میں بکریاں واپس کرنے گیا تو میں خود کیسے واپس آؤں گا؟ فرمایا کہ اچھا ایسا کرو کہ گھر جا کر انہیں دروازے سے اندر کر آؤ۔

ایفائے عہد

مکارم اخلاق اور اچھی عادات میں وعدہ نبھانا ایک اچھی خصلت ہے۔ وعدہ پورا کرنا ایک اچھی عادت ہے جبکہ وعدہ کی خلاف ورزی کرنا ایک بری عادت ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ پورا کرنے کی تلقین بھی فرمائی اور خود وعدہ پورا کرنے کی مثالیں بھی لوگوں کے سامنے پیش کیں۔

مکہ مکرمہ میں رسول اللہؐ کے ایک ساتھی عبد اللہ تھے جو حضورؐ کے نبوت سے پہلے کے دوستوں میں سے تھے، اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا واقعہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضورؐ کی بعثت سے پہلے کی بات ہے میرا حضورؐ کے ساتھ ایک کاروباری سودا ہوا۔ سودے کی کچھ رقم میرے پاس تھی جو میں نے حضورؐ کو دے دی جبکہ باقی رقم کے لیے کہا کہ آپ یہاں رکیں میں گھر سے لے کر آتا ہوں۔ لیکن جب میں گھر پہنچا تو میرے ذہن سے یہ بات نکل گئی حتیٰ کہ اس بات کو تین دن گزر گئے، تیسرے دن مجھے یاد آیا کہ میں نے تو حضورؐ کو فلاں جگہ رک کر انتظار کرنے کا کہا تھا۔ کہتے ہیں کہ میں بھاگم بھاگ اس جگہ پہنچا تو حضورؐ وہاں کھڑے تھے۔ آپؐ نے شکایت کا صرف ایک ہی جملہ ارشادفرمایا کہ عبد اللہ تم نے مجھے بہت پریشان کیا۔ فرمایا کہ تم مجھ سے کہہ کر گئے تھے کہ اس جگہ پر کھڑے ہو کر تمہارا اِنتظار کروں اور میں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ تمہارے واپس آنے تک یہاں رکوں گا۔ ایفائے عہد کی اور وعدہ پورا کرنے کی یہ مثال دنیا میں کہیں نہیں ملے گی۔

اسی طرح حضورؐ کے ایک صحابی ہیں حذیفہ بن یمانؓ ۔ دونوں باپ بیٹا صحابی تھے، باپ کا نام حسیل تھا لیکن یمنی ہونے کی وجہ سے لوگوں نے یمان نام رکھ دیا تھا، بنو عظفان کے قبیلے سے ان کا تعلق تھا۔ جنگ بدر سے پہلے یہ دونوں مسلمان ہو چکے تھے اور انہوں نے یہ باتیں سن رکھی تھیں کہ مکہ والوں کا مدینہ والوں سے مقابلہ ہونے والا ہے، چنانچہ دونوں باپ بیٹا اس نیت سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے کہ وہاں جا کر مدینہ والوں کے ساتھ مل کر مکہ والوں کے خلاف لشکر میں شریک ہوں گے۔لیکن ہوا یہ کہ راستے میں ابو جہل کا لشکر مل گیا جنہوں نے بھانپ لیا کہ یہ دونوں باپ بیٹا مدینہ والوں کے لشکر میں شریک ہونے جا رہے ہیں۔ انہوں نے روک لیا کہ ہم تم دونوں کو محمدؐ کے لشکر میں شامل نہیں ہونے دیں گے۔ اِنہوں نے بہت ٹالنے کی کوشش کی کہ ہم تو صرف مدینہ جا رہے ہیں، اس پر ابوجہل کے لشکر والوں نے ان سے کہا کہ اگر تم محمدؐ کے لشکر میں شامل نہ ہونے کا وعدہ کرو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے۔ انہیں بھی اس بات پر اعتماد تھا کہ رسول اللہؐ کے ساتھی جو وعدہ کرتے ہیں پورا کرتے ہیں، چنانچہ اس وعدہ پر حضرت حذیفہؓ اور ان کے والد حضرت یمانؓ کو چھوڑا۔

جب یہ وعدہ کر کے دونوں باپ بیٹا مدینہ منورہ پہنچے تو حضورؐ کا لشکر بدر کے لیے پیش قدمی کر رہا تھا۔ ملاقات پر انہوں نے حضورؐ سے ابو جہل کے لشکر ہاتھوں پکڑے جانے اور وعدہ پر رہائی کا سارا قصہ ذکر کر دیا۔ کیفیت دیکھئے کہ جناب نبی کریمؐ کو محاذ جنگ کے لیے ایک ایک آدمی کی ضرورت تھی، بوڑھے اور بچے ملا کر ۳۱۳ لوگ ہوئے تھے، نہ تلواریں پوری نہ گھوڑے پورے اور نہ کمانیں پوری۔ جبکہ دوسری طرف جنگ کے لیے ہر طرح کے ساز و سامان سے لبریز کفار کا لشکرایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل تھا۔ لیکن جب حذیفہ بن یمانؓ نے حضورؐ کو بتایا کہ ہم ابو جہل کے لشکر سے وعدہ کر کے آئے ہیں کہ آپ کے لشکر میں شامل ہو کر ان کے خلاف نہیں لڑیں گے تب انہوں نے ہمیں چھوڑا ہے، اگر آپؐ حکم دیں تو ہم اب بھی حاضر ہیں۔ اس پر رسول اللہؑ نے فرمایا نہیں! تم لوگوں کو لشکر میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہے بلکہ تم اپنا وعدہ نبھاؤ گے۔ یہ ہے ایفائے عہد اور وعدے کا پورا کرنا۔ حالت جنگ میں دشمن کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کے لیے اپنی ضرورت کی اتنی بڑی قربانی دے کر جناب رسول اکرمؐ نے ایفائے عہد کی جو مثال پیش کی دنیا کی تاریخ ایسی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ جب دشمن کے ساتھ تلواریں چل رہی ہوں تب اخلاق کی تکمیل کرنا تب وعدے اور سچائی کا لحاظ رکھنا، اس کا نام ہے اخلاقِ فاضلہ۔

خوش طبعی

حضرت عمر و بن العاصؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے۔ ’’دھاۃ العرب‘‘ یعنی کے چوٹی کے سیاست دانوں میں سے تھے اور فاتح مصر تھے، ان سے کسی نے پوچھا کہ حضرتؓ آپ رسول اللہؐ کے چہرۂ مبارک کی تفصیلات بیان کیجیے۔ فرمانے لگے سچی بات یہ ہے کہ میں خیال نہیں کر سکا، اس کی وجہ یہ بتائی کہ حضورؐ کی شخصیت کا رعب ہی اتنا تھا کہ کبھی اس بات کی ہمت نہیں ہوئی کہ نظر بھر کر حضورؐ کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھ سکوں۔ لیکن اس خداداد ہیبت و رعب کے ساتھ ساتھ حضراتِ صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضورؐ سے زیادہ نرم کلام کرنے والا نہیں دیکھا، آپؐ خوش کلامی فرماتے تھے اور آپ کے چہرے پر تبسم رہتا تھا۔ آپؐ جب بات کرتے تھے تو مسکراتے تھے، اس رعب و دبدبہ کے باوجود اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوش طبعی کا معاملہ بھی فرماتے تھے۔ صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ کی طبیعت میں تکلف والا رعب نہیں تھا، آپؐ خواہ مخواہ رعب نہیں جماتے تھے بلکہ آپ کی ہیبت اور دبدبہ خداداد تھا لیکن اس کے باوجود آپؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ حسب موقع خوش طبعی فرماتے تھے۔

زاہرؓ ایک دیہاتی صحابی تھے وہ آپؐ کے لیے کبھی گاؤں سے کوئی تحفہ وغیرہ بھی بھیجا کرتے تھے، اسی طرح حضورؐ بھی انہیں کبھی کوئی تحفہ دیا کرتے تھے۔ زاہرؓ ایک دفعہ بازار میں تھے کہ حضورؐ نے جا کر پیچھے سے اس طرح جھینپ (دونوں بازوؤں میں جکڑ) لیا کہ وہ حضورؐ کو دیکھ نہ سکیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ حضورؐ نے جواب نہیں دیا اس خیال سے کہ وہ خود ہی بوجھیں،چنانچہ دوسری یا تیسری دفعہ پوچھنے پر حضورؐ نے انہیں چھوڑا ۔

اسی طرح آپؐ کی خدمت میں ایک بڑھیا آئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ ! میرے لیے دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت دے، آپؐ نے فرمایا کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی جس پر وہ پریشان ہوگئی کہ میں تو دعا کے لیے آئی تھی لیکن حضورؐ یہ کیا خبر دے رہے ہیں؟ لیکن اس کی پریشانی دیکھ کر حضورؐ نے بتایا کہ سب لوگ جوان ہو کر جنت میں جائیں گے۔

ایسے ہی ایک شخص آیا اور حضورؐ سے درخواست کی کہ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے آپ مجھے بیت المال سے ایک اونٹ عنایت کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا، اچھا میں تمہیں اونٹ کا بچہ دے دیتا ہوں۔ وہ فکرمند ہو کر کہنے لگا یا رسول اللہ! اونٹ کا بچہ لے کر میں کیا کروں گا مجھے تو سفر کے لیے سواری چاہیے؟ آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ بھئی ہر اونٹ کسی اونٹ کا بچہ ہی ہوتا ہے۔

تواضع

اخلاق حسنہ میں تواضع ایک اچھی عادت ہے جبکہ تکبر ایک بری عادت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع کی تعریف اور تکبر کی مذمت فرمائی ہے۔ خیال فرمائیے کہ آنحضرتؐ سے بڑھ کر قابل احترام شخصیت کونسی ہوگی اور صحابہ کرامؓ سے زیادہ آپؐ کا احترام کس نے کیا ہوگا؟ خود جناب نبی کریمؐ کی تواضع کا حال یہ تھا کہ انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ جب مجلس میں تشریف لاتے تھے تو ہمارا جی چاہتا تھا کہ ہم احتراماً کھڑے ہو جائیں لیکن ہم کھڑے نہیں ہوتے تھے کہ حضورؐ کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ ایک جگہ صحابہ کرامؓ گفتگو فرما رہے تھے جس میں حضرت یونس علیہ السلام کا حضورؐ کے ساتھ تقابل کے انداز میں تذکرہ ہو رہا تھا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا ’’لا تفضلونی علٰی یونس بن متٰی‘‘ کہ مجھے اس طرح حضرت یونسؑ پر فضیلت مت دو۔

ایک بات تو عقیدے کی ہے کہ جناب نبی کریمؐ افضل الانبیاء ہیں، سارے نبیوں کے سردار ہیں اور سارے انبیاء میں برتر شخصیت ہیں۔ قرآن کریم بھی یہ کہتا ہے ’’تلک الرسل فضلنا بعضھم علیٰ بعض‘‘ لیکن آپؐ نے دو انبیاء کا آپس میں اس طرح تقابل کرنے سے منع فرمایا کہ یہ دیکھنا شروع کر دیا جائے کہ فلاں پیغمبر میں یہ بات تھی اور فلاں میں نہیں تھی۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس طرح تقابل نہ کرو کہ جس سے کسی پیغمبر کی توہین کا پہلو نکلتا ہو یا جس سے کسی بزرگ کی تخفیف کا پہلو سامنے آتا ہو۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا ’’لا تطرونی کما أطرت النصاری عیسی بن مریم‘‘ کہ مجھے اس طرح نہ بڑھاؤ چڑھاؤ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھا چڑھا دیا تھا۔

حضراتِ محترم! جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے آیا ہوں اور دنیا کو اخلاق کا بہترین نمونہ دکھانے آیا ہوں۔ چنانچہ حضورؐ نے اپنی جماعت کو اخلاقِ فاضلہ کی تربیت دے کر دنیا کے سامنے بہترین اخلاق و عادات کا حامل ایک معاشرہ پیش کیا، یہ جناب نبی کریمؐ کا ایک بڑا معجزہ اور اعجاز ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپؐ کی سنت پر اور آپؐ کے اُسوۂ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter