روزنامہ جنگ راولپنڈی میں ۲۲ فروری ۲۰۲۲ء کو شائع ہونے والی خبر ملاحظہ فرمائیں:
’’اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پیر کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک نشست کے دوران ترک وفد نے پاکستان کے پہلے مفتی اعظم مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے رفقاء کی ان کاوشوں کا خصوصی تذکرہ کیا جو خلافتِ عثمانیہ کو سقوط سے بچانے کیلئے کی گئیں۔ نشست پارلیمنٹ ہاؤس کی جامع مسجد میں ہوئی جہاں ترکی کے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر علی عرباش، دو وزرائے مملکت، جامع مسجد آیا صوفیہ کے خطیب امام فرح مستعور، وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان، پارلیمنٹ ہاؤس کے خطیب مولانا احمد الرحمن (فاضل جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)، اور وزارتِ مذہبی امور کے افسر مہمانداری کلیم ڈار موجود تھے۔ اس موقع پر پاکستان اور ترک مشترکہ مذہبی اور ثقافتی اقدار کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا محمود حسن، مولانا حسین احمد مدنی کا تذکرہ ہوا جنہیں خلافتِ عثمانیہ (کی حمایت کی) تحریک میں گرفتار کر کے مالٹا کی جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ ترک وفد نے پارلیمنٹ کی جامع مسجد کے بہتر انتظامات اور ماحول کو سراہا۔ ترک سفیر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ترک مہمانوں کو خطیب مولانا احمد الرحمن نے تحائف پیش کیے۔“
یہ خبر ہمارے اکابر کی اس عظیم جدوجہد کی صدائے بازگشت ہے جو عالمِ اسلام پر استعماری قوتوں کی یلغار کے دوران خلافتِ اسلامیہ کے تحفظ اور متحدہ ہندوستان سمیت مسلم ممالک کی آزادی کے لیے دو صدیاں مسلسل جاری رہی ہے، اور مسلم ممالک کی موجودہ آزادی جیسی کیسی بھی ہے اس جدوجہد اور اس میں دی جانے والی بے پناہ قربانیوں کا ثمرہ ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کے تحفظ اور متحدہ ہندوستان کی جنگِ آزادی کے حوالہ سے اس جدوجہد کا ایک پہلو روزنامہ جنگ لندن میں اب سے ربع صدی قبل شائع ہونے والی درج ذیل خبر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
’’لاہور (پ ل) ریشمی رومال تحریک کا اصل نام ”برلن پلان“ تھا جو ۱۵ اگست کو کابل میں جرمنی اور ترکی کی مدد سے تیار کیا گیا۔ ہندوستان کی آزادی کے اس منصوبے کی تشکیل میں راجہ مہندر پرتاب، مولانا برکت اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
یہ انکشاف جرمنی کی وزارتِ خارجہ کے ایک سابق ڈپٹی سیکرٹری اور برلن یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد پروفیسر اولف شمل نے ایک خصوصی ملاقات میں کیا۔ پروفیسر اولف شمل آج کل پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں اور ”برلن پلان“ پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ برلن پلان دراصل شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے ذہن کی اختراع تھی۔ اس منصوبے کے تحت جرمنی، ترکی اور افغانستان کے علاوہ روس، چین اور جاپان کی مدد سے ہندوستان کو آزاد کروانا تھا، تاہم مولانا محمود الحسن صرف جرمنی، ترکی اور افغانستان کے حکمرانوں کو راضی کر سکے۔ اس پلان کے لیے مالی امداد کراچی کے تاجر حاجی عبد اللہ ہارون نے فراہم کی تھی، جبکہ مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اور نواب وقار الملک نے بھی برلن پلان کے تحت بہت سا کام کیا۔
پروفیسر اولف شمل کے مطابق ۱۵ اگست ۱۹۱۵ء کو کابل میں ہونے والے اجلاس میں جرمن وزارتِ خارجہ کے ایک افسر ڈاکٹر منیر بے، جرمن آرمی کے کیپٹن سینڈئر میئر، لیفٹیننٹ وان بیئنگ اور کیپٹن ویگز کے علاوہ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کا ایک نمائندہ شامل تھا۔ اس اجلاس میں طے پایا کہ جرمنی قبائلی علاقوں میں فوجی تربیت کے کیمپ لگائے گا۔ نیز افغانستان کے راستے سے ساٹھ ہزار جرمن فوجی اور مالی امداد بھی فراہم کی جائے گی۔ نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ نہ صرف جرمنی کی حمایت کرے گی، سلطان ترکی برطانیہ کے خلاف اعلان جہاد کر دے گا۔ ترکی اور افغانستان کو یہ ضمانت دی گئی کہ ان کے خلاف جارحیت کی صورت میں جرمنی اور ہندوستان ان کا تحفظ کریں گے۔ اس اجلاس کے بعد ہندوستان کی جلاوطن حکومت تشکیل دی گئی، جس کا صدر راجہ مہندر پرتاب، وزیر اعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی، وزیر خارجہ مولانا عبید اللہ سندھی اور فیلڈ مارشل مولانا محمود الحسن کو بنایا گیا۔ ۲۶ مئی ۱۹۱۶ء کو عبید اللہ سندھی نے عبد الباری اور شجاع اللہ کو حتمی معاملات طے کرنے کے لیے جرمنی بھیجا لیکن روس میں ان دونوں کو گرفتار کر کے برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ اس دوران کابل کے نواحی علاقے باغ بابر میں جرمنی آرمی کے لیفٹیننٹ والکاٹ نے تربیتی کیمپ قائم کر لیا۔ ایک روز وہ مجاہد بھرتی کرنے قبائلی علاقے میں آیا اور گرفتار ہو گیا۔ انگریزوں نے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے ریشمی رومالوں پر خفیہ پیغامات لکھ کر اپنے ساتھیوں کو ہندوستان بھیجے لیکن یہ رومال پکڑے گئے اور منصوبہ بے نقاب ہو گیا۔ سینکڑوں افراد گرفتار ہوئے۔ کابل کا حکمران امیر حبیب اللہ خوفزدہ ہو گیا اور یوں منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔
۱۹۱۷ء میں روسی انقلاب کے بعد لینن نے مولانا عبید اللہ سندھی کو ماسکو بلا لیا اور ہندوستان کی آزادی کے لیے تعاون کی پیشکش کی۔ جرمنی نے بھی ایک دفعہ پھر رضامندی ظاہر کر دی لیکن کابل نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ پروفیسر اولف شمل کے مطابق حاکم جدہ نے مولانا محمود الحسن کو گرفتار کروا دیا تھا ورنہ یہ منصوبہ دوبارہ بھی شروع ہو سکتا تھا۔
۱۹۳۳ء میں ہٹلر نے برسر اقتدار آ کر اپنی وزارتِ خارجہ کو حکم دیا کہ ہندوستانی علماء کے ساتھ دوبارہ رابطہ کیا جائے لیکن علامہ عنایت اللہ مشرقی کے علاوہ کسی سے رابطہ نہ ہوا۔ پروفیسر اولف شمل کا کہنا ہے کہ اگر کابل مدد کرتا تو نہ سلطنتِ عثمانیہ ختم ہوتی اور نہ ہی ہندوستانیوں کو مزید تیس سال غلام رہنا پڑتا کیونکہ جرمنی، ترکی اور روس نے ہندوستان کو گھیرا ڈال لینا تھا۔“ (روزنامہ جنگ، لندن ۔ ۱۶ اگست ۱۹۹۴ء)
ملتِ اسلامیہ اور مسلم ممالک کے دینی حلقے آج اسی تحریک آزادی کے دوسرے مرحلہ میں استعماری نظام سے نجات اور اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذ و ترویج کے لیے مصروفِ عمل ہیں، جس کے لیے ہماری ہمیشہ سے یہ گزارش رہی ہے کہ علماء کرام اور دینی کارکنوں کو اپنے بزرگوں کی ملی و دینی تحریکات سے پوری طرح آگاہ ہونا چاہئے اور دینی مراکز و جامعات کو اس آگاہی اور فکری وابستگی کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ اسی صورت میں ہم اپنے اکابر کی جدوجہد کو منطقی نتائج کی طرف لے جانے کی شعوری اور مؤثر جدوجہد کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔