جائے سانحہ گیارہ ستمبر پر کچھ وقت

   
تاریخ : 
۱۶ ستمبر ۲۰۰۵ء

۱۱ ستمبر کو میں نیویارک میں تھا، اس دن میں نے اپنے میزبان دوستوں مولانا حافظ محمد اعجاز، بھائی برکت اللہ اور بھائی یامین کے ساتھ مین ہیٹن کے اس علاقے کا چکر لگایا جہاں آج سے چار برس پہلے تک ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی دو بلند و بالا عمارتیں پورے کروفر کے ساتھ کھڑی تھیں۔ وہاں ہم نے بے شمار ٹولیوں کو گھومتے اور ان مرنے والوں کی یاد مناتے دیکھا جو چار سال قبل آج کے دن دہشت گردی کا شکار ہو گئے تھے۔ مذکورہ تینوں دوست کوئینز کے علاقے میں واقع دینی درسگاہ دارالعلوم نیویارک سے وابستہ ہیں، انہوں نے ہی مجھے ایئرپورٹ سے وصول کیا اور میرا قیام انہی کے پاس دارالعلوم میں ہے۔

میں نے یہ جگہ کئی بار دیکھی ہے، اسے آباد حالت میں دیکھا ہے اور ویرانی کے بعد کے منظر کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔ کوئی سترہ برس پہلے کی بات ہے جب میں نے اس ایک سو دس منزلہ عمارت کی ایک سو ساتویں منزل پر واقع سیرگاہ سے نیویارک کے منظر کا اس طرح مشاہدہ کیا کہ بادل اس سے نیچے تھے اور بادلوں کی وجہ سے شہر کی کوئی عمارت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میرے ساتھ کچھ اور دوست بھی تھے اور ہم نے عصر کی نماز اسی سیر گاہ میں باجماعت ادا کی تھی جسے دیکھنے کے لیے چاروں طرف سے لوگ جمع ہو گئے تھے۔

پھر یہ بلند و بالا عمارت دہشت گردی کا شکار ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہو گئی۔ میں اس وقت پاکستان میں تھا اور میرے بیٹے نے کمپیوٹر کے ذریعے مجھے یہ منظر دکھایا تھا۔ مگر میرے میزبان بھائی یامین اور بھائی برکت اللہ، جن کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، برصغیر کے کسی بھی حصے سے کوئی عالم دین امریکہ آ جائے تو اس کی خدمت اور میزبانی کر کے خوش ہوتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ یہ منظر خود انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، وہ دونوں کوئینز کے علاقے سے مین ہیٹن کی طرف آ رہے تھے۔ بھائی یامین کہتے ہیں کہ ایک پل سے گزرتے ہوئے میں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر سورج کی روشنی پڑتے دیکھی تو میں نے بے ساختہ کہا کہ آج تو یہ بہت چمک رہا ہے، اس کے بعد میں اونگھنے لگا تو ہمارے ساتھ گاڑی میں موجود ایک طالب علم نے توجہ دلائی کہ وہ دیکھو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو آگ لگ گئی ہے۔ ہم نے پہلا جہاز ٹکراتے نہیں دیکھا، اس کے نتیجے میں بھڑکنے والی آگ دیکھی، ہم ابھی یہ خوفناک منظر دیکھ رہے تھے اور یہ سوچ رہے تھے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی رکھنے والے اس ملک میں اس حادثے سے نمٹنے کے لیے کیا صورت اختیار کی جاتی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ آگ بلڈنگ کے اندر کسی حادثے کی وجہ سے لگی ہے۔ اتنے میں دوسرا جہاز آیا تو ہمیں خیال ہوا کہ یہ جہاز آگ بجھانے کے لیے آیا ہے، مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ بلڈنگ کے دوسرے حصے سے ٹکرا گیا اور تھوڑی دیر میں دونوں بلڈنگیں بھڑکتے شعلوں میں زمین بوس ہو گئیں۔ یہ حضرات اپنے مشاہدات بیان کر رہے تھے اور میرا ذہن اس بلڈنگ کے حوالے سے پرانی یادیں تازہ کر رہا تھا۔

میں نے اس سانحہ کے ایک سال بعد واشنگٹن سے نیویارک آتے ہوئے شہر میں داخل ہوتے وقت ایک بلند و بالا پل سے مین ہیٹن کے اس علاقے پر نظر ڈالی جہاں بہت سی بلند عمارتوں کے جلو میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی یہ بلند ترین عمارتیں ہوا کرتی تھیں، اور اس پل سے شہر میں داخل ہونے والوں کی پہلی نظر ان عمارتوں پر پڑتی تھی، مگر سچی بات ہے کہ مین ہیٹن کی بہت سی عمارتوں کے درمیان ان بلڈنگوں کی جگہ خالی دیکھ کر دل سے اک ہوک سی اٹھی تھی اور سوگواری کے جذبات نے خاصی دیر تک دل و دماغ کو گھیرے رکھا تھا۔

اس بار امریکہ آنے کا پروگرام بنا تو خیال ہوا کہ میرے اس پانچ سالہ ویزے میں، جو میں نے نائن الیون کے سانحہ سے پہلے لے رکھا تھا، بس اسی سفر کی گنجائش ہے کیونکہ وہ ۲۸ ستمبر کو ختم ہو رہا ہے۔ اور اگلے سال معلوم نہیں اسلام آباد کا امریکی سفارت خانہ مجھے ویزا دے گا یا نہیں، کیونکہ جب علامہ اقبالؒ کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال کو امریکہ کے ویزے سے انکار ہو سکتا ہے تو میرے لیے خوش فہمی اور توقعات کی کون سی کھڑکی کھلی رہ گئی ہو گی۔ اس خیال سے پروگرام میں یہ بات شامل کر لی کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے مقام پر، جسے اب گراؤنڈ زیرو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ضرور جانا ہے اور ۱۱ ستمبر کو ہی جانا ہے، تاکہ اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کی یاد منانے والوں اور ان کے لیے غم و رنج کا اظہار کرنے والوں میں میرا نام بھی شامل ہو جائے۔ اگرچہ اس بار یہاں تک پہنچنے میں مجھے بہت سے صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا اور سفر کا دورانیہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا، مگر بہرحال ۱۱ ستمبر کو مین ہیٹن کی گراؤنڈ زیرو تک پہنچنے اور چار سال قبل مرنے والوں کی یاد منانے والوں میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

میں ۳۰ اگست کو صبح نمازِ فجر کے بعد گھر سے لندن کے لیے روانہ ہوا اور میرے بیٹے حافظ محمد عمار خان ناصر اور ہمارے ساتھی مولانا قاری جمیل الرحمان اختر نے مجھے لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ پر رخصت کیا۔ مگر کاؤنٹر والوں نے بتایا کہ ٹکٹ اوکے ہونے کے باوجود چانس پر ہے اور رش کی وجہ سے سیٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے واپس گھر جانا پڑا۔ تین روز بعد ۳ ستمبر کو پھر پی آئی اے کی اسی فلائیٹ سے کوشش کی، اس بار اس کوشش میں میرے ٹریول ایجنٹ نے بھی خاصا زور لگایا مگر نتیجہ وہی نکلا، اس لیے متبادل صورت کی تلاش شروع کر دی۔ ٹریول ایجنٹ نے آٹھ ہزار روپے کے اضافے کے ساتھ ٹکٹ کو سعودیہ ایئرلائن میں تبدیل کرنے اور اسی شام کو چانس چیک کرنے کے لیے کہا۔ میں نے عرض کیا کہ اگر سعودی ایئرلائن میں جانا ہے تو سفر سے میری واپسی رمضان المبارک کے دوران ہو گی، مجھے عمرے کے لیے تین روز جدہ میں رکنے کی سہولت دے دی جائے۔ اس پر بتایا گیا کہ اس صورت میں اٹھارہ ہزار روپے مزید، یعنی کل چھبیس ہزار روپے زائد صرف ہوں گے۔ میں نے اسے منظور کر لیا اور ٹکٹ کی تبدیلی کے بعد اسی شام پھر ایئرپورٹ پہنچ گیا۔ مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ سیٹ بھی چانس پر ہے اور جہاز میں سیٹ کی گنجائش نہیں ہے، اس لیے رات پھر گھر جا کر گزاری۔ اس کے بعد پھر ٹکٹ کی تبدیلی کی صورت نکالی اور ۶ ستمبر کو کراچی سے الامارات ایئرلائن کی کنفرم سیٹ لندن کے لیے ملی۔

۵ ستمبر کو رات کراچی پہنچا، ۶ ستمبر کو وہاں سے روانہ ہوا اور تیرہ گھنٹے دوبئی ایئرپورٹ پر گزارنے کے بعد اگلی فلائیٹ ملی جس نے ۷ ستمبر کو صبح ساڑھے سات بجے لندن کے گیٹ وک ایئرپورٹ پر اتار دیا۔ اس طرح وہ سفر جو میں نے گھر سے ۳۰ اگست کی صبح کو لندن کے لیے شروع کیا تھا اور مجھے اسی روز دو بجے لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر پہنچنا تھا، ۷ ستمبر کی صبح کو گیٹ وک ایئرپورٹ پر مکمل ہوا، اور میں برطانیہ کے مختلف شہروں کے دوستوں کے شدید تقاضوں کے باوجود وہاں دو روز سے زیادہ وقت نہ دے سکا اور ۱۰ ستمبر کو نیویارک کے لیے روانہ ہو گیا، جہاں مجھے رات کو ساڑھے آٹھ بجے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر اترنا تھا۔

میرے ذہن میں خدشہ تھا کہ نائن الیون شروع ہونے سے تین چار گھنٹے قبل نیویارک کے ایئرپورٹ پر پوری ڈاڑھی اور خالص مولویانہ لباس میں اترنے پر کوئی الجھن پیش آ سکتی ہے، یہ خدشہ درست ثابت ہوا۔ مجھے ایئرپورٹ پر روک لیا گیا اور تفتیش کے کمرے میں لے جا کر تین افسروں نے، جن میں ایک خاتون بھی تھی، سوال و جواب اور سامان کی تلاشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ چونکہ ذہن میں خدشہ پہلے سے موجود تھا اس لیے کوئی پریشانی نہیں ہوئی، اور یہ بھی اطمینان تھا کہ الحمد للہ کسی غلط کام میں ملوث نہیں ہوں اس لیے بالآخر چھٹی مل ہی جائے گی۔ میں نے تقریباً دو گھنٹے اس تفتیشی کمرے میں گزارے، بہت سے سوالات ہوئے ، سامان اور کاغذات کی اچھی طرح چیکنگ ہوئی، ٹیلی فون پر بار بار میرے کوائف اور سوالات و جوابات سے افسرانِ بالا کو بھی آگاہ کیا جاتا رہا، اور آخر کار پونے گیارہ بجے کے لگ بھگ چھ ماہ کی انٹری کی مہر کے ساتھ مجھے ایئرپورٹ سے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی۔

ان مراحل سے گزر کر میں ۱۱ ستمبر کو گراؤنڈ زیرو تک پہنچ پایا ہوں۔ مجھے ان ہزاروں افراد کی موت کا غم ہے جو چار سال قبل اس مقام پر بے گناہ مارے گئے۔ اگرچہ اس بارے میں بحث ابھی تک جاری ہے کہ اس دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے کون ہیں؟ اور خود مغربی دانشوروں میں اس نتیجے تک پہنچنے والوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ یہ واردات جن کی طرف منسوب کی جا رہی ہے، اس نوعیت کی منصوبہ بندی ان کے بس کی بات نہیں تھی، اس لیے اس دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے ڈانڈے کہیں اور ملتے ہیں۔ مگر مرنے والے تو مر گئے، ان کے گھر تو ویران ہو گئے، ان کا غم تو سب لوگوں کا مشترکہ غم ہے، لیکن اس دہشت گردی کے ردعمل میں یا اس کے بہانے افغانستان اور عراق میں جو لاکھوں افراد مارے گئے اور جنہیں اسی طرح کی دہشت گردی میں بارود اور آگ میں بھسم کر دیا گیا، وہ بھی تو آخر اسی طرح کے گوشت پوست کے انسان تھے، ان کی یاد کون منائے گا؟

   
2016ء سے
Flag Counter