’’انقلابِ شام‘‘

   
حوالہ: 
تاریخ : 
۲ نومبر ۲۰۱۶ء

نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔

عباسی خلافت کے خاتمہ کے ساتھ جس طرح فاطمی حکومت وجود میں آئی اور اس میں ابن علقمی کے کردار نے اپنے اثرات دکھانا شروع کیے وہ اسلامی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔ یہی وجہ تھی کہ صلیبی جنگوں کے دوران سلطان نور الدین زنگیؒ اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبیوں کے خلاف صف آراء ہونے سے پہلے ان منحوس اثرات سے نمٹنا ضروری سمجھا ورنہ وہ شاید صلیبیوں کی طوفانی یلغار کا راستہ روکنے اور بیت المقدس کو ان کے قبضے سے چھڑانے میں کامیاب نہ ہو پاتے۔

آج پھر وہی ماحول ہے، وہی میدان جنگ ہے، وہی ہلال و صلیب کی کشمکش ہے اور وہی کردار باردگر تاریخ کے نقشے میں اپنے اپنے حصے کا رنگ بھرنے میں مصروف ہیں۔ البتہ نور الدین زنگیؒ اور صلاح الدین ایوبیؒ کے کردار کا خانہ خالی دکھائی دے رہا ہے۔ عراق، شام، یمن اور لبنان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور بحرین اور سعودی عرب میں جو کچھ کر گزرنے کے ارادے بلکہ پلاننگ نظر آرہی ہے اس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ماضی کے اس تسلسل اور مختلف گروہوں کے مرحلہ وار عمل و کردار سے آگاہ ہونا ضروری ہے جبکہ نئی نسل کو اس سے روشناس کرانے کی اس سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔ مولانا ابو تراب ندوی نے زیر نظر کتاب ’’انقلاب شام‘‘ میں یہی فریضہ سرانجام دیا ہے جس پر وہ شکریہ و تبریک کے مستحق ہیں۔

حالات جس رخ پر تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں اس میں سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور حضرت امام مہدی حفظہ اللہ تعالیٰ کے ظہور کا انتظار شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جو یقیناً ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن کیا اہل سنت کے ارباب فکر و دانش کی ذمہ داری صرف یہی رہ گئی ہے کہ وہ اس انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ ہماری اصل جنگ صلیبی قوتوں کے ساتھ ہے جو ہلاکو خان سے زیادہ تباہ کاریوں اور ستم خیزیوں کے ساتھ عالم اسلام کے گرد اپنا حصار تنگ کرتی جا رہی ہیں۔ جبکہ بغل میں ابن علقمی کے وجود کا احساس بھی دن بدن بڑھ رہا ہے۔

ان حالات میں نور الدین زنگیؒ اور صلاح الدین ایوبیؒ کو تلاش کرنے اور انہیں آگے لانے کی ضرورت ہے۔ خدا کرے کہ مولانا ابوتراب ندوی کی یہ کتاب عالم اسلام کے ارباب علم و دانش اور اصحاب حکمت و بصیرت کو اس طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔ اس دلی دعا کے ساتھ اس کاوش پر ایک بار پھر مولانا موصوف کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

   
2016ء سے
Flag Counter