ماہنامہ الشریعہ کی سترہویں جلد کا آغاز

   
تاریخ : 
جنوری ۲۰۰۶ء

بحمد اللہ تعالیٰ زیر نظر شمارے کے ساتھ ہم ’الشریعہ‘ کی سترہویں جلد کا آغاز کر رہے ہیں۔ آج سے کم و بیش سولہ سال قبل اکتوبر ۱۹۸۹ء میں ’الشریعہ‘ نے ماہوار جریدے کے طور پر اپنا سفر شروع کیا تھا اور اتار چڑھاؤ کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے یہ دینی و فکری ماہنامہ اپنی موجودہ شکل میں قارئین کے سامنے ہے۔

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے اس ترجمان کی ابتدا اس عزم کے ساتھ ہوئی تھی کہ دور حاضر کے مسائل اور چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات و احکام کو جدید اسلوب اور تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی، عالم اسلام کے علمی و دینی حلقوں کے درمیان رابطہ و مفاہمت کے فروغ کی راہ ہموار کی جائے گی، اسلام دشمن لابیوں اور حلقوں کے تعاقب اور نشان دہی کا فریضہ انجام دیا جائے گا اور دینی حلقوں میں فکری بیداری کے ذریعے سے جدید دور کے علمی و فکری چیلنجز کا ادراک و احساس اجاگر کیا جائے گا۔ ان مقاصد کی طرف ہم کس حد تک پیشرفت کر پائے ہیں، اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ ہمارے لیے یہ بات بہرحال اطمینان بخش ہے کہ یہ اہداف و مقاصد بدستور ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں اور ہم اپنی بساط اور استطاعت کی حد تک ان کے لیے مسلسل مصروف عمل ہیں۔

اس دوران میں ہماری بھرپور کوشش رہی ہے کہ پیش آمدہ مسائل پر دینی حلقوں میں بحث و مباحثہ کا ماحول پیدا ہو اور کسی بھی مسئلہ پر اپنا موقف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے فریق کا موقف اور دلائل بھی حوصلہ اور اطمینان کے ساتھ سننے اور پڑھنے کا مزاج بنے، کیونکہ اس کے بغیر کسی مسئلہ پر صحیح رائے اور نتیجہ تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں تحقیق، مطالعہ، مباحثہ اور مکالمہ کی روایت ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکی اور چند شخصیات کے استثنا کے ساتھ عمومی ماحول یہی ہے کہ دلائل کی روشنی میں رائے قائم کرنے کے بجائے رائے قائم کر کے اس کے لیے دلائل تلاش کیے جاتے ہیں۔ ہماری کوشش رہی ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ تعالیٰ رہے گی کہ دینی حلقوں، بالخصوص علماء کرام اور طلبہ کو دنیا کے معروضی حالات اور حقائق سے آگاہی حاصل کرنے اور آج کے معاصر علمی و فکری حلقوں کے موقف، دلائل اور طرز استدلال سے شناسا ہونے کے لیے آمادہ کیا جائے اور انہیں اس ضرورت کا احساس دلایا جائے کہ آج کی دنیا سے بات کرنے کے لیے آج کی زبان اور اسلوب پر دسترس ناگزیر ہے اور ہم ماضی کے اسلوب اور طرز استدلال کے ذریعے سے آج کی دنیا تک اسلام کا پیغام اور تعلیمات پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

یہ بات بھی ہمارے ایجنڈے کا حصہ چلی آ رہی ہے کہ جدید اسلوب اور طرز استدلال کی طرح ابلاغ کے جدید ذرائع اور تکنیک تک دینی حلقوں اور علماء کرام کی رسائی بھی انتہائی ضروری ہے اور ہم اس ضرورت کی طرف دینی حلقوں کو مسلسل توجہ دلا رہے ہیں۔

ہم وہی بات کہہ رہے ہیں جو تین صدیاں قبل حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے فرمائی تھی کہ آنے والے دور میں دین کو صحیح طور پر پیش کرنے کے لیے عقلی استدلال کے ہتھیار سے کام لینا ہوگا اور فکری جمود کے دائرے سے نکل کر کھلے دل و دماغ کے ساتھ مسائل کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب نے یہ بات تین سو سال قبل کے ماحول میں فرمائی تھی اور ہم اسی بات کو تین سو سال کے بعد آج کے حالات اور تناظر میں دینی حلقوں اور ارباب علم و دانش کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ممکن ہے بعض دوستوں کو ہمارا کہنے کا انداز حضرت شاہ صاحب سے مختلف دکھائی دے، مگر مقصد اور ہدف کے اعتبار سے ہم وہی کچھ عرض کر رہے ہیں جو تین صدیاں قبل امام ولی اللہ دہلویؒ پورے شرح و بسط کے ساتھ تحریر فرما چکے ہیں۔

ہمارا طریق کار یہ رہا ہے کہ بعض مسائل کو ہم از خود چھیڑتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہمارا موقف بھی وہی ہو جو کسی مسئلہ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے ’الشریعہ‘ کے صفحات میں پیش کیا گیا ہے، مگر ہماری خواہش ہوتی ہے کہ دینی حلقوں کے ارباب فکر و دانش اس طرف توجہ دیں، مباحثہ میں شریک ہوں، اپنا نقطہ نظر دلائل کے ساتھ پیش کریں، جس موقف سے وہ اختلاف کر رہے ہیں، اس کی کمزوری کو علمی انداز سے واضح کریں اور قوت استدلال کے ساتھ اپنے موقف کی برتری کو واضح کریں، کیونکہ اب وہ دور نہیں رہا کہ کسی مسئلہ پر آپ اپنی رائے پیش کر کے اس کے حق میں چند دلائل کا تذکرہ کرنے کے بعد مطمئن ہو جائیں کہ رائے عامہ کے سامنے آپ کا موقف واضح ہو گیا ہے اور آپ کی بات کو قبول کر لیا جائے گا۔ آج کا دور تقابلی مطالعہ کا دور ہے، تجزیہ و استدلال کا دور ہے اور معروضی حقائق کی تفصیلات و جزئیات تک رسائی کا دور ہے۔ آپ کو یہ سارے پہلو سامنے رکھ کر اپنی بات کہنا ہوگی اور اگر آپ کی بات ان میں سے کسی بھی حوالے سے کمزور ہوگی تو وہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکے گی۔ ہم جب کسی مسئلے پر بحث چھیڑتے ہیں تو امکانی حد تک اس کے بارے میں تمام ضروری پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہمارا مقصد ہوتا ہے اور ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ’الشریعہ‘ میں شائع ہونے والے کسی موقف کے حق میں یا اس کے خلاف موصول ہونے والا کوئی مضمون یا مراسلہ اشاعت سے رہ نہ جائے اور اس بحث کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔

اس صورت حال سے بعض دوستوں کو الجھن ہوتی ہے اور وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، مگر ہمارے خیال میں یہ الجھن عام طور پر دو وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک اس وجہ سے کہ بہت سے دوست ہمارے اس طریق کار اور مقصد کو سمجھ نہیں پاتے جس کا سطور بالا میں تذکرہ ہو چکا ہے اور دوسرا اس وجہ سے کہ ہمارے خاندانی پس منظر کے باعث بہت سے دوست ’الشریعہ‘ کو ایک مسلکی جریدہ کے طور پر دیکھنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے مسلک و مشرب کا تعلق ہے، ہم نے سولہ برس قبل ’الشریعہ‘ کے پہلے شمارے میں ہی یہ بات دوٹوک طور پر واضح کر دی تھی کہ ہم اہل السنۃ والجماعۃ میں سے ہیں اور اہل سنت کے مسلمات کی پابندی کو اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم فقہی مذہب کے لحاظ سے حنفی ہیں اور فروع و احکام میں حنفی مذہب کے اصول اور تعبیرات کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ مسلک و مشرب کے حوالے سے دیوبندی ہیں اور اکابر علماء دیوبند کثر اللہ جماعتہم کی جدوجہد اور افکار سے راہ نمائی حاصل کرنا اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتے ہیں، لیکن ’الشریعہ‘ کو مسلکی ترجمان کے طور پر ہم نے کبھی پیش نہیں کیا۔ مسلک کی ترجمانی کے لیے ملک میں درجنوں جرائد موجود ہیں اور ہم بھی اس مقصد کے لیے ان سے حتی الوسع تعاون کرتے ہیں، مگر ہمارا عملی میدان اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری تگ و تاز کا دائرہ فقہی اور مسلکی کشمکش نہیں، بلکہ مغرب کے فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کی وسیع تر یلغار کے تناظر میں اسلامی تعلیمات و احکام کو جدید زبان اور اسلوب میں پیش کرنا ہے۔ اس کا مطلب فقہی اور مسلکی جدوجہد کی ضرورت سے انکار نہیں بلکہ یہ ایک تقسیم کار ہے کہ دینی جدوجہد کا یہ شعبہ ہم نے اپنی جدوجہد کے لیے مختص کر لیا ہے اور اسی میں اپنی صلاحیتیں صرف کرنا چاہتے ہیں۔

بعض دوستوں نے یہ شکوہ کیا ہے کہ ’الشریعہ‘ میں بسا اوقات ایک ہی مسئلہ پر متضاد مضامین شائع ہوتے ہیں اور بعض مضامین اہل سنت، حنفیت اور دیوبندیت کے حوالوں سے روایتی موقف سے متصادم ہوتے ہیں۔ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے، مگر اس کی وجہ وہی ہے جس کا سطور بالا میں ہم تذکرہ کر چکے ہیں کہ ہم علمی و فکری مسائل میں ارباب علم و دانش کو بحث و مباحثہ کے لیے کھلا ماحول اور فورم مہیا کرنا چاہتے ہیں اور دینی حلقوں میں باہمی مکالمہ کا ذوق بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طریق کار ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی جاری رہے گا، تاہم اب اسے قدرے محدود اور معین و مشخص کیا جا رہا ہے، اس طور پر کہ ’الشریعہ‘ کے ہر شمارے کے ایک تہائی صفحات اس طرح کے کھلے مباحثے کے لیے مخصوص کیے جا رہے ہیں جن میں کسی بھی اہم مسئلہ پر مختلف نقطہ ہائے نظر پیش کیے جائیں گے اور کسی بھی نقطہ نظر کی حمایت یا مخالفت میں موصول ہونے والا ہر وہ مضمون شامل اشاعت ہوگا جو طعن و تشنیع اور مناظرانہ موشگافیوں سے گریز کرتے ہوئے افہام و تفہیم کے سنجیدہ اور علمی اسلوب میں تحریر کیا گیا ہو۔ زیر نظر شمارے سے اس سلسلے کو ’’مباحثہ و مکالمہ‘‘ کا مستقل عنوان دیا جا رہا ہے اور یہ بات اصولاً واضح رہنی چاہیے کہ اس عنوان کے تحت شائع ہونے والے کسی مضمون سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

ان گزارشات کے ساتھ ’الشریعہ‘ کی اشاعت کے سولہ سال مکمل ہونے اور سترہویں جلد کے آغاز پر میں ان رفقاء کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جن کی کاوش اور محنت کا ’الشریعہ‘ کو موجودہ مقام تک پہنچانے میں بہت بڑا حصہ ہے۔

’الشریعہ‘ کی ادارت اور ترتیب وغیرہ کی تمام تر ذمہ داری عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے سنبھال رکھی ہے اور وہ بحمد اللہ تعالیٰ پوری محنت اور ذوق کے ساتھ اسے نباہ رہے ہیں۔ عزیز موصوف کو اس سلسلے میں پروفیسر محمد اکرم ورک، مولانا حافظ محمد یوسف اور پروفیسر میاں انعام الرحمن کی پرخلوص رفاقت اور پروفیسر محمد یونس میو، پروفیسر حافظ منیر احمد، جناب شبیر احمد میواتی اور پروفیسر حافظ سمیع اللہ فراز کی مسلسل مشاورت حاصل ہے، جبکہ الشریعہ کی کمپوزنگ، طباعت اور اسے انٹرنیٹ اور ڈاک کے ذریعے سے قارئین تک پہنچانے میں عزیزم ناصر الدین خان سلمہ، عبد الرزاق خان، مولانا فضل حمید اور حافظ محمد آصف مہر کی محنت قابل ذکر اور قابل داد ہے۔

میں ان سب حضرات کی محنت اور قارئین کی طرف سے حوصلہ افزائی کا معترف ہوں اور سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ اور ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے ذریعے سے اسلام اور ملت اسلامیہ کی علمی و فکری خدمات جاری رکھنے کی توفیق دیں اور اپنے اہداف و مقاصد میں کامیابی سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter