اقلیتوں کے حقوق اور اسلامی روایات

   
تاریخ : 
۱۵ نومبر ۲۰۰۲ء

میں نے کسی مضمون میں سعودی دانشور ڈاکٹر محمد المسعری کے حوالہ سے فتح بیت المقدس کا واقعہ لکھا تھا کہ امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المقدس کی چابیاں وصول ہونے کے بعد یہودیوں کے اس عبادت خانے کے بارے میں پوچھا جسے عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضے کے بعد مسمار کر دیا تھا۔ لوگوں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں اب کوڑے کرکٹ کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنی دستار مبارک اتاری اور کوڑا کرکٹ اٹھانا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر سب لوگ ساتھ لگ پڑے اور چند لمحوں میں وہ جگہ صاف ہوگئی جہاں حضرت عمرؓ نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا۔

لیکن دو روز قبل ایک دوست کے پاس بھارت کے حضرت مولانا نجیب اللہ ندوی کی کتاب ’’اسلام کے بین الاقوامی اصول و تصورات‘‘ نظر سے گزری جس میں انہوں نے حافظ ابن کثیر کی ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ کے حوالہ سے یہ واقعہ ذرا مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے اس جگہ مسجد تعمیر نہیں کی بلکہ اس کی صفائی کر کے اسے چھوڑ دیا اور صفائی کے بعد جب نماز کا وقت ہوا تو نماز کی ادائیگی کے لیے اس جگہ سے باہر آگئے اور اس کی حدود سے باہر الگ جگہ نماز ادا فرمائی۔ اس پر بعض ساتھیوں نے دریافت کیا کہ امیر المومنین! وہ بھی تو عبادت گاہ تھی، اس جگہ نماز ادا کرنے میں کیا حرج تھا؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں اگر اس جگہ نماز ادا کر لیتا تو بعد میں تم نے وہاں مستقل قبضہ کر لینا تھا کہ یہاں ہمارے امیر المومنینؓ نے نماز ادا کی ہے اس لیے ہم اس جگہ پر مسجد بنائیں گے۔ جبکہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں پر اس طرح قبضہ کیا جائے۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے احترام کا کس اہمیت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے اور خلفاء اسلام نے اس کی کس طرح پاسداری کی ہے۔ ویسے تو اب غیر مسلموں کی بہت سی عبادت گاہیں مساجد کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ برطانیہ میں سینکڑوں مساجد ایسی ہیں جو پہلے عیسائیوں کے چرچ تھے اور اب وہاں مساجد ہیں۔ لیکن یہ تبدیلی قبضہ کی صورت میں نہیں آئی بلکہ مسیحی مذہبی اداروں نے خود یہ چرچ بیچے ہیں اور مسلمانوں نے انہیں خرید کر وہاں مساجد بنائی ہیں۔ حتیٰ کہ گزشتہ دنوں گلاسگو حاضری کے موقع پر میں نے ایک ایسی مسجد و مدرسہ بھی دیکھا اور وہاں بیان کا موقع بھی ملا جس کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ یہ یہودیوں کا سینی گاگ (عبادت خانہ) تھا۔ مجھے اس پر تعجب ہوا کیونکہ یہودی عام طور پر اپنی عبادت گاہ کو فروخت نہیں کیا کرتے۔ لیکن مجھے بتایا گیا کہ چند سال قبل تک یہ عمارت یہودیوں کی عبادت گاہ تھی جو انہوں نے فروخت کر دی اور مسلمانوں نے اسے خرید کر مسجد بنا لیا اور اس میں قرآن کریم کی تعلیم کا مدرسہ بھی قائم ہے۔

ہمارے ہاں پاکستان کے مختلف حصوں میں بعض مساجد ایسی ہیں جو ہندوؤں اور سکھوں کی ان عبادت گاہوں میں بنائی گئی ہیں جو وہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ جبکہ بھارت میں جن علاقوں سے مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آئے وہاں کی ہزاروں مساجد ہندوؤں کے مندروں اور سکھوں کے گوردواروں میں تبدیل ہو چکی ہیں، ان میں سے ایک مسجد میں نے بھی دیکھی ہے۔ وہ اس طرح کہ دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر بھارت جانے کا اتفاق ہوا تو میں لدھیانہ بھی گیا جہاں مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کے فرزند مولانا محمد احمد لدھیانویؒ کا چند روز تک مہمان رہا۔ اس دوران میں نے ایک مسجد دیکھی جس کی باہر کی ہئیت تو مسجد کی تھی اور مینار بھی بدستور قائم تھے لیکن اس کے اندر مندر تھا اور مسجد کے مرکزی ہال میں پوجا کے لیے مورتیاں نصب کی گئی تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر طبیعت پر اس قدر اثر ہوا کہ اس کے بعد مزید وہاں ٹھہرنے کو جی نہ چاہا۔

خلفاء اسلام نے اسلامی سلطنت میں غیر مسلموں کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کی ہے اور ان کا کردار اس سلسلہ میں ایک ایسا نمونہ ہے جس کی دوسرے کسی مذہب میں مثال نہیں پیش کی جا سکتی۔ مولانا مجیب اللہ ندوی نے اس سلسلہ میں ایک اور دلچسپ اور سبق آموز واقعہ بیان کیا ہے کہ جب حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے خلافت کا منصب قبول کیا اور ذمہ داریاں سنبھال کر گزشتہ حکومتوں کے مظالم کی تلافی کا سلسلہ شروع کیا تو ان کے عدل و انصاف کے واقعات سن کر سمرقند کے غیر مسلم باشندوں کا ایک وفد ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے شکایت کی کہ اب سے پندرہ سال قبل جب مسلم کمانڈر قتیبہ بن مسلم نے سمرقند فتح کیا تو اس شہر پر حملے سے قبل اسلامی احکام کے مطابق نہ تو انہیں اسلام کی دعوت دی اور نہ ہی دوسری شرائط پیش کیں بلکہ اچانک حملہ کر کے شہر فتح کر لیا۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے جس کی تلافی ہونی چاہیے۔

سمرقند کی فتح حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے خلیفہ بننے سے پندرہ برس قبل ہوئی تھی لیکن انہوں نے اسے ماضی کے حوالہ سے ٹالنے کی بجائے غیر مسلموں کی شکایت کی تلافی ضروری سمجھی اور جمیع بن حاضر الباجی کو اس شکایت کی انکوائری اور تصفیہ کے لیے خصوصی قاضی مقرر کر دیا۔ انہوں نے تحقیقات کے بعد شکایت کو درست پایا تو اس پر فیصلہ صادر کر دیا کہ شہر پر قبضہ چونکہ اسلامی احکام کے مطابق نہیں ہوا اس لیے مسلم افواج سمرقند شہر خالی کر دیں۔ چنانچہ قاضی کا فیصلہ نافذ ہوگیا اور اسلامی فوج اس کا احترام کرتے ہوئے پندرہ سال قبل فتح کیا ہوا شہر خالی کر کے باہر کھلے میدان میں نکل آئی۔ اس منظر کو دیکھ کر شہر کے باشندے حیران و ششدر رہ گئے اور اصول و احکام کی اس پاسداری کو دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ان کی دعوت پر اسلامی فوج نے پھر شہر میں داخل ہو کر سمرقند کا نظم و نسق سنبھال لیا۔

مولانا ندوی کے قلم سے اس سلسلہ میں ایک اور واقعہ بھی ملاحظہ کر لیجیے کہ شام اور حجاز کی سرحد پر عیسائیوں کا ایک طاقتور قبیلہ تھا جس نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں باقاعدہ تحریری معاہدہ کر کے چند شرائط کے تحت اسلامی قلمرو میں شامل ہونا منظور کیا اور حضرت عمرؓ نے یہ شرائط منظور کر لیں۔عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے دور میں کسی سیاسی مصلحت کی خاطر اس معاہدہ کو منسوخ کرنا چاہا۔ ہارون الرشید کا خیال تھا کہ معاہدہ منسوخ کر کے بنو تغلب پر فوج کشی کی جائے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مشورہ کے لیے حضرت امام محمدؒ کو بلایا اور خلوت میں ان کے سامنے اپنا ارادہ بیان کر کے ان سے مشاورت چاہی۔ امام محمدؒ نے فرمایا کہ چونکہ خلیفہ راشد حضرت عمرؓ نے بنو تغلب کو امان دے رکھی ہے اس لیے ان کے خلاف فوج کشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ حضرت عمرؓ نے اس شرط پر بنو تغلب کو امان دی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو بپتسمہ نہیں دیں گے یعنی انہیں عیسائی بنانے کی رسم ادا نہیں کریں گے جبکہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔ امام محمدؒ نے جواب دیا کہ بچوں کو بپتسمہ دینے کے باوجود حضرت عمرؓ نے اس معاہدہ کو برقرار رکھا تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے کہا کہ حضرت عمرؓ کو بنو تغلب کے خلاف فوج کشی کا مناسب موقع نہیں ملا تھا اس لیے وہ ایسا نہ کر سکے۔ امام محمدؒ نے جواب میں فرمایا کہ حضرت عمرؓ کے بعد حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے پاس موقع تھا لیکن انہوں نے معاہدہ کی پاسداری کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے بنو تغلب کو غیر مشروط امان دی تھی اس لیے اس معاہدہ کو توڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ امام محمدؒ کے اس جواب پر ہارون الرشید سخت ناراض ہوا اور انہیں اپنے سامنے سے اٹھ جانے کا حکم دیا۔ لیکن اس ناراضگی کے باوجود خلیفہ ہارون الرشید کو بنو تغلب کے ساتھ حضرت عمرؓ کے معاہدہ کو توڑنے اور ان کے خلاف فوج کشی کا حوصلہ نہیں ہوا۔

میں پاکستان میں بسنے والی غیر مسلم اقلیتوں سے عرض کیا کرتا ہوں کہ انہیں اسلامی قوانین اور دینی قیادت سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں بلکہ آنجہانی جسٹس اے آر کار نیلیس اور آنجہانی مسیحی راہنما جوشوا فضل دین کی طرح پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ کی حمایت کرنی چاہیے۔ کیونکہ شرعی نظام کے نفاذ اور دینی قیادت کے آنے سے جہاں ملک میں عدل و انصاف کی فراہمی عام ہو جائے گی وہاں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق و مفادات کا بھی تحفظ ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter