توہینِ رسالت کی سزا کے قانون پر عملدرآمد کے طریقِ کار میں تبدیلی

   
تاریخ: 
اپریل ۲۰۰۰ء

(اپریل ۲۰۰۰ء کے دوران جامعہ حنفیہ قادریہ باغبانپورہ لاہور میں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام شہدائے بالاکوٹ کی یاد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ توہینِ رسالت کی سزا کے قانون کا طریقِ کار تبدیل کرنے کی سرکاری تجویز قانون و انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے اور اس طریقِ کار کو اس سے قبل ملک کے قانونی حلقے متفقہ طور پر مسترد کر چکے ہیں۔ قتل کے جرم میں ایک عرصہ تک ہمارے ہاں یہ طریقِ کار رائج تھا کہ قتل کا مقدمہ سیشن کورٹ میں باضابطہ پیش ہونے اور ملزم پر فردِ جرم عائد کرنے سے پہلے درجہ اول کا مجسٹریٹ اس کیس کی چھان بین کرتا تھا اور اس کی طرف سے توثیق کے بعد وہ مقدمہ سیشن کورٹ میں پیش ہونے کے قابل سمجھا جاتا تھا۔ مگر ۱۹۷۲ء کی قانونی اصلاحات میں اس طریق کار کو قانون پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا گیا۔ جبکہ حکومت اسی طریق کار کو توہینِ رسالت کی سزا کے قانون میں اختیار کر کے ایف آئی آر کے اندراج کو ڈپٹی کمشنر کی منظوری کے ساتھ مشروط کر رہی ہے جو ۱۹۷۲ء کی قانونی اصلاحات کی رو سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ کے مترادف ہے۔

موت کی سزا صرف توہینِ رسالت کے جرم میں نہیں بلکہ قتل، ڈکیتی، منشیات فروشی اور دیگر کئی جرائم میں بھی موت کی سزا موجود ہے، اس لیے ان میں سے صرف توہینِ رسالت کی سزا کے قانون کا طریقِ کار تبدیل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی دباؤ اور این جی اوز کے موقف کو قبول کرتے ہوئے اس شرعی قانون کو غیر مؤثر بنایا جا رہا ہے۔ جب توہینِ رسالت پر سزا کے قانون کو انسانی حقوق کے منافی قرار دے کر اس کی تبدیلی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو فطری طور پر یہ سوال ذہنوں پر ابھرتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبروں کی توہین کرنا بھی انسانی حقوق میں شامل ہو گیا ہے؟ اس لیے مغربی قوتوں اور ناجائز دباؤ ڈالنے والی لابیوں سے ہمارا سوال ہے کہ انہوں نے توہین اور گستاخی کو کب سے انسانی حقوق کی فہرست میں شامل کر لیا ہے؟

امیر المومنین سید احمد شہیدؒ، حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان کے قافلہ نے نہ صرف برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا بلکہ پشاور کے صوبہ میں اقتدار حاصل ہونے پر مکمل اسلامی نظام نافذ کر کے بتا دیا کہ مجاہدینِ آزادی کی جدوجہد اور قربانیوں کا اصل مقصد اس خطہ میں خلافتِ اسلامیہ کا احیا اور اسلامی نظام کا عملی نفاذ ہے۔ اس لیے جب تک پاکستان میں مکمل طور پر اسلامی نظام کا نفاذ عمل میں نہیں آ جاتا اس وقت تک مجاہدینِ آزادی کی جدوجہد کا تسلسل قائم ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ جہادِ آزادی کی نظریاتی تکمیل تک اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں۔

2016ء سے
Flag Counter