اٹلی کی عدالت کا شرمناک فیصلہ اور بائبل کی تعلیمات

   
تاریخ اشاعت: 
۲۲ ستمبر ۲۰۰۰ء

روزنامہ جنگ لاہور نے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۰ء کو اٹلی کی سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کے بارے میں مختصر خبر شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس یورپی ملک کی عدالت عظمیٰ نے اپنی ایک ماتحت عدالت کے اس فیصلہ کی توثیق کر دی ہے کہ کسی عورت کا اپنے خاوند کے علاوہ دوسرے کسی مرد سے تعلق رکھنا جرم نہیں ہے البتہ اسے رات کو بہرحال اپنے خاوند کے پاس ہونا چاہیے۔ تعلق کی نوعیت کی وضاحت نہ ہوتی تو بات کسی حد تک گول ہو سکتی تھی لیکن خبر میں ’’جنسی تعلق‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے، اس لیے یہ سمجھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ مغربی ممالک نے جائز و ناجائز کے ہر قسم کے فرق کو ختم کرتے ہوئے اباحیت مطلقہ (فری سوسائٹی) کو آخری انتہا تک پہنچانے کا عزم کر رکھا ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ نام نہاد شخصی حقوق کے اس فلسفہ کو وہ پوری دنیا سے تسلیم کرانے پر بھی ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ زنا دنیا کے تمام مذاہب میں حرام ہے اور کسی مذہب اور فلسفۂ اخلاق نے اس فعل قبیح کی اجازت نہیں دی۔ لیکن آج کا مغربی فلسفہ اس فرق کو مٹا دینے پر تل گیا ہے جس کا اظہار اٹلی کی سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے سے واضح طور پر ہو رہا ہے۔

اٹلی بنیادی طور پر مسیحی ملت سے تعلق رکھنے والا ملک ہے بلکہ مسیحیت کے مذہبی مراکز میں شمار ہوتا ہے، اس لیے ہم اس موقع پر بائبل کی ان تعلیمات کا حوالہ دینا چاہیں گے جن میں زنا کی شرعی حیثیت کو بیان کیا گیا ہے تاکہ قارئین اس حقیقت کا ادراک کر سکیں کہ مغرب نفسِ مذہب کی دشمنی اور اسے ختم کر دینے کے جنون میں کس حد تک آگے بڑھ گیا ہے۔ بائبل کے عہد نامہ قدیم کی کتاب خروج باب ۲۰ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان دس احکام کا ذکر ہے جو ان پر اللہ رب العزت کی طرف سے نازل ہوئے تھے اور یہ یہودی مذہب کے بنیادی دس احکام کہلاتے ہیں۔ یہ احکام مندرجہ ذیل ہیں:

  1. میرے ساتھ غیر معبودوں کو نہ ماننا اور ان کی عبادت نہ کرنا یعنی شرک نہ کرنا۔
  2. بت اور مورتیاں بنا کر ان کی عبادت نہ کرنا۔
  3. خدا کا نام بے مقصد نہ لینا۔
  4. سبت (ہفتہ) کے دن کو پاک ماننا اور اس دن عبادت کے سوا کوئی کام نہ کرنا۔
  5. ماں باپ کی عزت کرنا۔
  6. خون نہ کرنا یعنی کسی کو قتل نہ کرنا۔
  7. زنا نہ کرنا۔
  8. چوری نہ کرنا۔
  9. پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔
  10. پڑوسی کے گھر، بیوی، غلام، لونڈی یا کسی اور چیز کی لالچ نہ کرنا۔

جبکہ بائبل کے عہد نامہ جدید میں، جو انجیل اور اس کی تشریحات پر مشتمل ہے، انجیل مرقس باب ۱۰ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی ان تعلیمات کو دہراتے ہوئے قتل، زنا، چوری، جھوٹی گواہی، فریب کاری، اور ماں باپ کی عزت کرنے کے بارے میں یہی ہدایات دی ہیں۔ اور اسی انجیل کے باب ۱۷ میں کسی عورت پر بری نظر ڈالنے کو بھی زنا کے ساتھ شمار کیا گیا ہے۔

زنا کی شرعی سزا کے بارے میں بائبل کی کتاب استثناء باب ۲۲ اور احبار باب ۲۰ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ زانی مرد اور زانیہ عورت کی سزا موت ہے اور یہ سنگسار کی صورت میں دی جائے گی۔ اسی طرح موجودہ مسیحیت کے بانی اور مسیحی علماء کے نزدیک اناجیل کے سب سے بڑے شارح سینٹ پال (پولس) نے رومیوں اور کرنتھیوں کے نام اپنے خط میں، جو بائبل کے عہد نامہ جدید میں موجود ہیں، زنا سے گریز کو شریعت سے وفاداری کی کسوٹی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ زنا کرنے والے خدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ہو سکتے۔ کرنتھیوں کے نام سینٹ پال کے اسی خط کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے ایک شارح پادری جے جے لوکس اپنی کتاب ’’کرنتھیوں کے نام پولس کے پہلے خط کی تفسیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ

’’حرام کاری یا زنا کاری ایک بڑا بھاری گناہ ہے، اس سے مسیحی مسیح سے جدا ہو جاتا ہے اور جو یگانگت مسیح سے وہ رکھتا ہے سو جاتی رہتی ہے۔ اس گناہ کے برابر مسیحی کے لیے کوئی دوسرا گناہ نہیں۔ اس لیے پولس کرنتھی مسیحیوں کو آگاہ کرتا ہے کہ حرام کاری مسیح سے جدا کرتی ہے تاکہ وہ لوگ اس گناہ کی حقیقت اور برائی کو پہچان کر اس سے نفرت کریں۔‘‘

یہاں ایک بات کی وضاحت شاید نامناسب نہ ہو کہ بائبل اور اس کی مذکورہ تفسیر کے یہ حوالہ جات کسی بہت زیادہ پرانے نسخہ سے نہیں بلکہ اردو زبان میں شائع ہونے والے ان نسخوں سے لیے گئے ہیں جو ’’پنجاب مذہبی بک سوسائٹی انارکلی لاہور‘‘ نے شائع کیے ہیں اور اب بھی مسیحی حلقوں میں متداول ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مذہبی طور پر مسیحی تعلیمات میں اب بھی زنا کی وہی قباحت اور سنگینی مسلّم ہے جو تورات میں بیان کی گئی تھی۔ اور جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ وضاحت اور صراحت کے ساتھ قرآن کریم کی آیات اور ان کی تشریحات کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش فرمایا ہے۔ مگر مغرب کی حکومتیں، عدالتیں، اسمبلیاں، اور ان کی سرپرستی میں چلنے والے انسانی حقوق کے نام نہاد ادارے تورات، انجیل اور قرآن کریم کی ان مشترکہ تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے بدکاری اور زنا کی ہر ممکن صورت کو رواج دینے اور اسے قانونی و عدالتی تحفظ فراہم کرنے کی راہ پر ایک عرصہ سے گامزن ہیں۔ حتیٰ کہ برطانیہ سمیت متعدد مغربی ممالک کی اسمبلیوں اور عدالتوں میں شادی کے بغیر مرد اور عورت کے اکٹھے رہنے کو ان کا حق قرار دینے اور مرد کی مرد کے ساتھ شادی اور دونوں کو بطور میاں بیوی تسلیم کرنے کے عدالتی فیصلوں کے بعد اب اٹلی کی سپریم کورٹ کی طرف سے عورت کو خاوند کے علاوہ دوسرے مردوں سے تعلق قائم کرنے کی قانونی اجازت فراہم کرنے سے زنا، بدکاری اور حرام کاری کی کوئی ایسی شکل باقی نہیں رہ گئی جسے قانونی طور پر نام نہاد ’’انسانی حقوق‘‘ کی فہرست میں شامل نہ کر لیا گیا ہو۔

یہ صورتحال صرف مسلمان علماء کے لیے نہیں بلکہ مسیحیت کے سنجیدہ علماء اور مذہبی دانشوروں کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ راقم الحروف پاکستان، برطانیہ اور امریکہ کے متعدد سنجیدہ مسیحی مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کر کے انہیں حالات کی اس سنگینی کی طرف توجہ دلا چکا ہے اور ان سے یہ عرض کر چکا ہے کہ مغربی سیکولرازم کی یہ جنگ صرف اسلام کے خلاف نہیں بلکہ مسیحیت کے خلاف بھی ہے۔ لیکن مسیحی رہنما عالمی سیکولر اداروں کے پھیلائے ہوئے جال سے باہر نکلنے کے لیے ابھی تک ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ان سے وہی گزارش کرنے کو جی چاہتا ہے جو حضرت لوط علیہ السلام کے پاس خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آنے والے فرشتوں کو دیکھ کر جمع ہو جانے والے بدکاروں کی یلغار پر حضرت لوط علیہ السلام نے کہی تھی کہ ’’الیس منکم رجل رشید؟‘‘

   
2016ء سے
Flag Counter