فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے وزیر داخلہ کی سفارشات اور حقیقت حال

   
تاریخ اشاعت: 
۴ اکتوبر ۲۰۰۰ء

وفاقی وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں اس ٹاسک فورس کی سفارشات کا اعلان کیا ہے جو ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بارے میں قائم کی گئی تھی۔ روزنامہ ایکسپریس کراچی کے ۳۰ ستمبر کے ادارتی نوٹ کے مطابق وزیر داخلہ نے جن سفارشات کا اعلان کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

  • سرکاری انتظامیہ کا مؤثر احتساب۔
  • اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قوانین میں ترامیم۔
  • عدالتی کاروائیاں اردو زبان میں کرنا۔
  • کسی کو کافر کہنے پر قانون کے مطابق کارروائی۔
  • ہر قسم کی چاکنگ پر پابندی۔
  • مذہبی جلوسوں کو اوقات اور مقررہ روٹس کا ہر حال میں پابند بنانے اور تعلیمی اداروں میں مذہبی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی۔

سرکاری انتظامیہ کا احتساب

جہاں تک سرکاری انتظامیہ کے مؤثر احتساب کی سفارشات کا تعلق ہے یہ ملک کے ہر باشعور شہری کے دل کی آواز ہے کیونکہ سرکاری اہل کاروں میں رشوت، بدعنوانی، نااہلی اور سفارش کی مذموم روایات جس طرح سرایت کیے ہوئے ہیں انہوں نے ملک کے پورے نظم و نسق کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ حتیٰ کہ اوپر سے نیچے تک کسی بھی سطح پر عوام کے جائز کام وقت پر اور سفارش و رشوت کے بغیر ہونے کے تمام امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں اور اس نے عوام کی مایوسی کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی امر واقعہ ہے کہ پاکستان میں آنے والی ہر حکومت نے انتظامیہ کے احتساب کا اعلان کیا ہے مگر عملاً یہ کارروائی کسی دور میں بھی حکومت مخالف اہل کاروں کی چھانٹی اور باقی ماندہ کو خوفزدہ کر کے حکومتی ترجیحات کا پابند بنانے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں دے سکی۔ اس لیے احتساب کے ان نعروں اور اعلانات پر اب کوئی بھی اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے۔

ہمارے نزدیک اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارا انتظامی ڈھانچہ فرنگی استعمار کے نوآبادیاتی دور کی یادگار ہے جس کی تشکیل ہمارے قومی مفادات اور ملی ضروریات کو سامنے رکھ کر نہیں بلکہ غیر ملکی آقاؤں کے مفادات و مقاصد کی تکمیل کے لیے کی گئی تھی۔ اور اب اس کی جگہ لوکلائزیشن اور ضلعی حکومتوں کے نام سے جو نیا انتظامی ڈھانچہ لانے کی باتیں ہو رہی ہیں اس میں بھی ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اور عالمی استعمار کے گلوبلائزیشن کے سامراجی منصوبے پیش نظر ہیں۔ جبکہ ہمارا قومی ذہن استعماری قوتوں کے دائرہ اثر سے آزاد ہو کر اپنے مفادات اور قومی ضروریات کے حوالہ سے سوچنے کے لیے ابھی تک تیار ہی نہیں ہوا۔ اس لیے ملک کو ایک صحت مند اور باوقار انتظامی ڈھانچہ دینے اور انتظامی افسران کے مؤثر احتساب کے لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ذہنوں کو مغرب کی مرعوبیت سے آزاد کریں اور ملی مفادات کو اپنی پالیسیوں کی بنیاد بنائیں۔ ورنہ احتساب کے نام پر باہمی انتقام کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا اور انتظامیہ کی مشینری مزید خلفشار اور انارکی کا شکار ہوگی۔

مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانونی ترامیم اور اردو کو عدالتی زبان بنانے کی سفارش بھی بہت اہم ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ملک کے دستور کے مطابق اپنے ذمہ ڈیوٹی کو مکمل کرتے ہوئے ملک کے تمام رائج الوقت قوانین کا جائزہ لے کر قرآن و سنت کی روشنی میں ان میں ترامیم کی سفارشات بلکہ متبادل قوانین کے مسودات مرتب کر کے حکومت کے حوالے کر دیے ہیں لیکن اس سلسلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی جامع اور مکمل رپورٹ وزارت قانون کے ڈیپ فریزر میں منجمد پڑی ہے۔ اگر ان سفارشات کو قانون سازی کی بنیاد بنا کر ملک کے مروجہ قوانین میں ضروری ترامیم کر دی جائیں تو نہ صرف ملک کے عدالتی اور قانونی ڈھانچے میں صحت مند اور انقلابی تبدیلی رونما ہوگی بلکہ دستور میں قوم سے اسلامی قوانین کے عملی نفاذ کا جو وعدہ کیا گیا ہے اس کی بھی تکمیل ہو جائے گی۔ اور اگر موجودہ حکومت یہ کام کر گزرے تو دیگر تمام تر مسائل کے باوجود تاریخ میں اس کا یہ کارنامہ ایک شاندار اور روشن باب کی صورت میں ہمیشہ کے لیے یادگار رہے گا۔

کسی کو کافر کہنے پر پابندی

البتہ ’’کسی کو کافر کہنے پر پابندی‘‘ کی سفارش کے بارے میں ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ صرف کافر کہنے پر پابندی کافی نہیں ہوگی بلکہ ان امور کے کھلے بندوں اظہار پر پابندی لگانا بھی ضروری ہوگا جو کفر کے فتووں کا باعث بنتے ہیں۔ کیونکہ اگر کفریہ باتوں کے اظہار پر پابندی نہ ہو اور صرف کافر کہنے پر پابندی لگا دی جائے تو یہ یکطرفہ بات ہوگی جو سراسر ناانصافی ہے اور کوئی بھی معقولیت پسند شخص اس کو قبول نہیں کر پائے گا۔ جبکہ منطقی اور بدیہی بات یہ ہے کہ جہاں کفر کی باتوں کا اعلانیہ اظہار ہوگا تو اسے کفر قرار دینے پر پابندی کا کوئی عقلی اور اخلاقی جواز نہیں رہ جائے گا۔ اس لیے اس ضمن میں ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت یا اسلامی نظریاتی کونسل کے آئینی اداروں کے ذریعہ ان امور کا تعین کیا جائے جو کفر کا موجب بنتے ہیں اور جن کے اظہار کی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس قانونی ضابطہ اور حدود کے تعین اور اعلان کے بعد بلاجھجھک یہ پابندی لگا دی جائے کہ اس سے ہٹ کر کوئی شخص یا گروہ کسی کو کافر کہے گا تو وہ قانون کی رو سے سزا کا مستوجب ہوگا۔ ورنہ کسی کو کافر کہنے کی یکطرفہ پابندی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام کے نام پر اور اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدے کے ساتھ بننے والے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر کوئی شخص (نعوذ باللہ)

  • اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کر دے،
  • اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف پرچار شروع کر دے،
  • عقیدۂ ختم نبوت سے بغاوت کر دے،
  • قرآن کریم یا سنت نبویؐ کے خلاف ہرزہ سرائی کرے،
  • حضرات انبیاء کرامؑ کی شان میں توہین کا ارتکاب کرے،
  • یا صحابہ کرامؓ کے ایمان اور ان کی عدالت و دیانت پر حرف زنی شروع کر دے

تو اس پر تو کوئی قدغن نہیں ہوگی مگر جو شخص ان کے اس کفر کی نشاندہی کرے گا اور اس کے خلاف احتجاج کرے گا وہ قانون کی نظر میں مجرم قرار پائے گا۔ یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس کے بارے میں کسی بھی قسم کی قانونی پیشرفت کے نتائج انتہائی دوررس ہوں گے۔ اس لیے جذباتی اور سطحی انداز میں کوئی قدم اٹھانے سے قبل حکومت کو اس کے دونوں پہلوؤں کا جائزہ لینا ہوگا ورنہ فرقہ وارانہ کشیدگی ختم کرنے کی غرض سے کی جانے والی کارروائی اس کشیدگی میں کمی کی بجائے اس کی شدت میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے۔

مذہبی جلوسوں پر مقررہ اوقات اور روٹس کی پابندی

اسی طرح مذہبی جلوسوں کے روٹس اور اوقات کے بارے میں بھی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ امن عامہ کے قیام و استحکام کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ فرقہ وارانہ مذہبی رسوم و عبادات کو، جن میں جلسے اور جلوس بھی شامل ہیں، عبادت گاہوں تک محدود کر دیا جائے۔ یعنی چار دیواری اور عبادت گاہ کی حدود میں کسی فرقہ کی سرگرمیوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہ ہو لیکن متنازعہ مذہبی رسوم کو مشترکہ پبلک مقامات بالخصوص ان علاقوں میں بجا لانے کی قطعاً اجازت نہ ہو جہاں ان رسوم کو شرعاً جائز نہ سمجھنے والے لوگوں کی آبادی بھی ہو۔ ورنہ تنازعات پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا اور فرقہ وارانہ کشیدگی پر پابندی کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو پائے گی۔ حکومت اگر فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث بننے والی باتوں کو روکنے میں بھی سنجیدہ ہونا چاہیے کیونکہ اسباب ختم کیے بغیر نتائج پر قابو پانے کی خواہش ہوا میں تلوار چلانے کے مترادف ہے اور اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter