پاکستان میں نفاذ شریعت کی متفقہ دستاویزات

   
تاریخ : 
۱۱ اکتوبر ۲۰۱۱ء

(نفاذ اسلام کی دستوری جدوجہد کے سلسلے میں ۱۹۴۷ء میں قرارداد مقاصد منظور کی گئی۔ ۱۹۵۱ء میں تمام مسالک کے علماء نے کراچی میں جمع ہو کر متفقہ طور پر ۲۲ دستوری نکات مرتب کیے۔ اور ۲۴ ستمبر ۲۰۱۱ء کو ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کے پلیٹ فارم پر تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین نے لاہور میں اکٹھے ہو کر نفاذ شریعت کے حوالہ سے دینی حلقوں کا متفقہ موقف دہرایا اور اس موقع پر ۲۲ نکاتی دستوری خاکے کی آج کے حالات کے تقاضوں کے مطابق تشریح و توضیح کی جسے ملی مجلس شرعی پاکستان کے نائب صدر مولانا زاہد الراشدی نے قومی پریس کے لیے جاری کیا۔ روزنامہ پاکستان لاہور نے ۸ و ۹ جنوری ۲۰۱۲ء کو یہ دستاویز شائع کی۔ جبکہ ماہنامہ ایوان اسلام کراچی نے اکتوبر ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں (۱) قرارداد مقاصد، (۲) ۲۲ دستوری نکات، (۳) نفاذ شریعت کے لیے متفقہ رہنماء اصول، (۴) اور ملی مجلس شرعی کی قراردادیں یکجا شائع کیں۔)

متن قراردادِ مقاصد ۱۹۴۹ء

(یہ قرارداد مقاصد پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے وزیراعظم لیاقت علی خان شہیدؒ کی تجویز پر منظور کی تھی اور اس کے بعد سے یہ پاکستان کے ہر دستور کا حصہ چلی آرہی ہے۔)

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔ اس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ مجلس دستور ساز نے جو جمہور پاکستان کی نمائندہ ہے، آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے ایک دستور مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

  • جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
  • جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت، حریت، مساوات، روا داری اور عدل عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔
  • جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
  • جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں، اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔
  • جس کی رو سے وہ علاقے جو اب تک پاکستان میں داخل ہیں یا شامل ہو جائیں، ایک وفاق بنائیں گے جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات و اقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہو گی۔
  • جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں، مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہار خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت سازی کی آزادی شامل ہو گی۔
  • جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
  • جس کی رو سے نظام عدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہو گی۔
  • جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت، آزادی اور جملہ حقوق، بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔

تاکہ اہل پاکستان فلاح و بہبود کی منزل پا سکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔‘‘

علماء کرام کے متفقہ ۲۲ دستوری نکات ۱۹۵۱ء

ایک اجتماع بتاریخ ۱۲، ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ مطابق ۲۱، ۲۲، ۲۳ اور ۲۴ جنوری ۱۹۵۱ء بصدارت مولانا سید سلیمان ندوی، کراچی میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں اسلامی دستور کے مندرجہ ذیل بنیادی اصول بالاتفاق طے ہوئے۔

اسلامی مملکت کے دستور میں حسب ذیل اصول کی تصریح لازمی ہے:

  1. اصل حاکم تشریعی وتکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔
  2. ملک کا قانون کتاب وسنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جا سکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جا سکے گا جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔
    (تشریحی نوٹ): اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دیے جائیں گے۔
  3. مملکت کسی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصول ومقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطہ حیات ہے۔
  4. اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن وسنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے، منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیا واعلا اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔
  5. اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد واخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی ولسانی، علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کر کے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ واستحکام کا انتظام کرے۔
  6. مملکت بلا امتیاز مذہب ونسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں یا نہ رہے ہوں یا عارضی طو رپر بے روزگاری، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعی اکتساب پر قادر نہ ہوں۔
  7. باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں، یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان ومال وآبرو، آزادیٔ مذہب ومسلک، آزادیٔ عبادت، آزادیٔ ذات، آزادیٔ اظہار رائے، آزادیٔ نقل وحرکت، آزادیٔ اجتماع، آزادیٔ اکتساب رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
  8. مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقع صفائی وفیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔
  9. مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون کے اندرپوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انھیں اپنے پیرووں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انھی کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔
  10. غیر مسلم باشندگان مملکت کو حدود قانون کے اندر مذہب وعبادت، تہذیب وثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہوگی اور انھیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم ورواج کے مطابق کرانے کاحق حاصل ہوگا۔
  11. غیر مسلم باشندگان مملکت سے حدود شرعیہ کے اندر جو معاہدات کیے گئے ہوں، ان کی پابندی لازمی ہوگی اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر ۷ میں کیا گیا ہے، ان میں غیر مسلم باشندگان ملک اور مسلم باشندگان ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔
  12. رئیس مملکت کامسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت رائے پر جمہور اور ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔
  13. رئیس مملکت ہی نظم مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا، البتہ وہ اپنے اختیارات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کر سکتا ہے۔
  14. رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی، یعنی وہ ارکان حکومت اور منتخب نمائندگان جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔
  15. رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کوکلاً یا جزواً معطل کر کے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔
  16. جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی، وہی کثرت آرا سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
  17. رئیس مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا۔
  18. ارکان وعمال حکومت اور عام شہریوں کے لیے ایک ہی قانون وضابطہ ہوگا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔
  19. محکمہ عدلیہ، محکمہ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہوگا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
  20. ایسے افکار ونظریات کی تبلیغ واشاعت ممنوع ہوگی جو مملکت اسلامی کے اساسی اصول ومبادی کے انہدام کا باعث ہوں۔
  21. ملک کے مختلف ولایات واقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے۔ ان کی حیثیت نسلی، لسانی یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں، محض انتظامی علاقوں کی ہوگی جنھیں انتظامی سہولتوں کے پیش نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا، مگر انھیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہوگا۔
  22. دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔

(نوٹ: بزرگ عالم دین مولانا مجاہد الحسینی آف فیصل آباد کی روایت کے مطابق مجلس احرار اسلام پاکستان کی تجویز پر اکابر علماء کرام نے ان دستوری نکات میں قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے ۲۳ ویں نکتے پر بھی اتفاق کر لیا تھا۔)

اسمائے گرامی حضرات شرکائے مجلس

تمام مسالک کے اکابر علماء کرام جنہوں نے ۱۹۵۱ء میں ۲۲ نکات پر مبنی متفقہ دستوری خاکہ بنا کرمنظور کیا۔

  1. (علامہ) سلیمان ندوی (صدر مجلس ہذا)
  2. (مولانا) سید ابو الاعلیٰ مودودی (امیر جماعت اسلامی پاکستان)
  3. (مولانا) شمس الحق افغانی (وزیر معارف، ریاست قلات)
  4. (مولانا) محمد بدر عالم (استاذ الحدیث، دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد، ٹنڈو الٰہ یار، سندھ)
  5. (مولانا) احتشام الحق تھانوی (مہتمم دار العلوم الاسلامیہ اشرف آباد، سندھ)
  6. (مولانا) محمد عبد الحامد قادری بدایونی (صدر جمعیۃ علمائے پاکستان، سندھ)
  7. (مفتی) محمد شفیع (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
  8. (مولانا) محمد ادریس (شیخ الجامعہ، جامعہ عباسیہ بہاولپور)
  9. (مولانا) خیر محمد (مہتمم خیر المدارس، ملتان)
  10. (مولانا مفتی) محمد حسن (مہتمم جامعہ اشرفیہ، نیلا گنبد لاہور)
  11. (پیر صاحب) محمد امین الحسنات (مانکی شریف، سرحد)
  12. (مولانا) محمد یوسف بنوری (شیخ التفسیر، دار الاسلامیہ اشرف آباد، سندھ)
  13. (حاجی) خادم الاسلام محمد امین (خلیفہ حاجی ترنگ زئی، المجاہد آباد، پشاور صوبہ سرحد)
  14. (قاضی) عبد الصمد سربازی (قاضی قلات، بلوچستان)
  15. (مولانا) اطہر علی (صدر عامل جمعیۃ علماے اسلام، مشرقی پاکستان)
  16. (مولانا) ابو جعفر محمد صالح (امیر جمعیت حزب اللہ، مشرقی پاکستان)
  17. (مولانا) راغب احسن (نائب صدر جمعیت علمائے اسلام، مشرقی پاکستان)
  18. (مولانا) محمد حبیب الرحمن (نائب صدر جمعیۃ المدرسین، سرسینہ شریف، مشرقی پاکستان)
  19. (مولانا) محمد علی جالندھری (مجلس احرار اسلام پاکستان)
  20. (مولانا) داؤد غزنوی (صدر جمعیۃ اہل حدیث پاکستان)
  21. (مفتی) جعفر حسین مجتہد (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
  22. (مفتی حافظ) کفایت حسین مجتہد (ادارۂ عالیہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان، لاہور)
  23. (مولانا) محمد اسماعیل (ناظم جمعیت اہل حدیث پاکستان، گوجرانوالہ)
  24. (مولانا) حبیب اللہ (جامعہ دینیہ دار الہدیٰ، ٹھیڑی، خیر پور میرس)
  25. (مولانا) احمد علی (امیر انجمن خدام الدین شیرانوالہ دروازہ، لاہور)
  26. (مولانا) محمد صادق (مہتمم مدرسہ مظہر العلوم، کھڈہ، کراچی)
  27. (پروفیسر) عبد الخالق (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
  28. (مولانا) شمس الحق فرید پوری (صدر مہتمم مدرسہ اشرف العلوم ڈھاکہ)
  29. (مفتی) محمد صاحب داد عفی عنہ (سندھ مدرسۃ الاسلام، کراچی)
  30. (مولانا) محمد ظفر احمد انصاری (سیکرٹری بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
  31. (پیر صاحب) محمد ہاشم مجددی (ٹنڈو سائیں داد، سندھ)

نفاذ شریعت کے لیے متفقہ رہنما اصول ۲۰۱۱ء

اسلامی تعلیمات کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزاریں اور پاکستان اسی لیے بنایا گیا تھا کہ یہ اسلام کا قلعہ اور تجربہ گاہ بنے۔ لہٰذا ۱۹۴۹ء میں قرارداد مقاصد اور ۱۹۵۱ء میں سارے دینی مکاتب فکر کے معتمد علیہ ۳۱ علماء کرام نے عصر حاضر میں ریاست و حکومت کے اسلامی کردار کے حوالے سے جو ۲۲ نکات تیار کیے تھے ان نکات نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو ٹھوس بنیادیں فراہم کیں۔ اور ان کی روشنی میں پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے حوالے سے کئی دستوری انتظامات بھی کر دیے گئے لیکن ان میں سے اکثر زینت قرطاس بنے ہوئے ہیں اور ان پر کوئی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ مزید برآں کچھ اور دستوری خلا بھی سامنے آئے ہیں جو پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ نفاذ شریعت کے حوالے سے حکومتی تساہل پسندی کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی قبائلی علاقوں کے بعض عناصر نے بزور قوت شریعت کی من مانی تعبیرات کو نافذ کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس مسلح جدوجہد کے شرکاء نے ایک طرح سے حکومت رٹ کو چیلنج کر دیا جبکہ اس صورتحال کو بیرونی قوتوں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ حالات نے افواج پاکستان کو اس مسلح جدوجہد کے شرکاء کے سامنے لاکھڑا کیا اور یوں دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ہاتھوں مسلمانوں کا ہی خون بہہ رہا ہے۔ پاکستان کے دیگر پر امن علاقے بھی اس جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ تقریباً تمام بڑے شہروں میں آئے دن دہشت گردی اور خودکش حملوں کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں جن میں اب تک ہزاروں معصوم شہری اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔

یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام ایک مرتبہ پھر مل بیٹھیں اور باہمی غور و فکر اور اتفاق رائے سے ان امور کی نشاندہی کردیں جن کی وجہ سے پاکستان ابھی تک ایک مکمل اسلامی ریاست نہیں بن سکا اور نہ ہی یہاں نفاذ شریعت کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچ سکا ہے۔ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام کی یہ کوشش اس مرحلہ پر اس لیے ناگزیر ہے کہ ان کی اس کوشش سے نہ صرف ان اسباب کی نشاندہی ہوگی جو نفاذ شریعت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں بلکہ نفاذ شریعت کے لیے متفقہ اصولوں کے ذریعے وہ سمت اور راستہ بھی متعین ہو جائے گا جس پر چل کر یہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ دراصل نفاذ شریعت کی منزل کا حصول ہی اس بات کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے کہ آئندہ پاکستان کے کسی علاقے سے نفاذ شریعت کے نام پر مسلح جارحیت کا ارتکاب اور حکومتی رٹ کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔

چنانچہ اس حوالے سے تجویز کیے گئے اقدامات پیش خدمت ہیں:

  1. ہمارے حکمرانوں کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ فرد کو بھی شریعت پر عمل کے قابل بنائیں اور معاشرے اور ریاست کو بھی شریعت کے مطابق چلائیں۔ دینی عناصر کا فرض ہے کہ وہ دعوت و اصلاح اور تبلیغ و تذکیر کے ذریعے فرد کی بھی تربیت کریں، حکمرانوں پر بھی دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، اور جہاں تک قانون اجازت دے خود بھی نفاذ شریعت کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ اسی طرح ہر مسلمان کی یہ ذاتی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرے۔
  2. یہ کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی بنیاد ۱۹۵۱ء میں سارے مکاتب فکر کے علمائے کرام کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کردہ ۲۲ نکات ہیں۔ اور موجودہ دستاویز کے ۱۵ نکات کی حیثیت ان (بائیس نکات) کی تفریع اور تشریح کی ہے۔
  3. یہ کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ پر امن جدوجہد کے ذریعے ہونا چاہیے کیونکہ یہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کا مشترکہ تقاضا ہے اور عملاً بھی اس کے امکانات موجود ہیں۔ نیز شریعت کا نفاذ سارے دینی مکاتب فکر کی طرف سے منظور شدہ متفقہ راہنما اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے (یہ ۱۵ نکات اس قرارداد کا حصہ ہیں)۔ اور کسی گروہ یا جماعت کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنا نظریہ سارے معاشرے پر قوت سے ٹھونس دے۔
  4. دستور پاکستان کے قابل نفاذ حصے میں بصراحت یہ لکھا جائے کہ قرآن و سنت مسلمانوں کا سپریم لاء ہے اور اس تصریح سے متصادم قوانین کو منسوخ کر دیا جائے۔ یہ دستوری انتظام بھی کیا جائے کہ عدلیہ کی طرف سے دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔ اور دستور کی کسی بھی شق اور مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے کسی بھی فیصلے کو کتاب و سنت کے خلاف ہونے کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکے۔ نیز ان دستوری دفعات کو دستور میں بنیادی اور ناقابل تنسیخ دفعات قرار دیا جائے۔ آئین توڑنے سے متعلق دفعہ ۶A اور عوامی نمائندوں کی اہلیت سے متعلق دفعات ۶۲و ۶۳ کو موثر بنانے اور ان پر عملدرآمد کو یقنی بنایا جائے۔ کسی بھی ریاستی یا حکومتی عہدیدار کی قانون سے بالاتر حیثیت اور استثنیٰ پر مبنی دستوری شقوں کا خاتمہ کیا جائے۔
    وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بنچ کے جج صاحبان کو دیگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی طرح باقاعدہ جج کی حیثیت دی جائے اور ان کے اسٹیٹس اور شرائط تقرری و ملازمت کو دوسری اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کے اسٹیٹس اور شرائط تقرری و ملازمت کے برابر لایا جائے۔ بعض قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے مستثنیٰ قرار دینے کے فیصلوں پر نظر ثانی کی جائے اور وفاقی شرعی عدالت کو ملک کے کسی بھی قانون پر نظر ثانی کا اختیار دیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت ایپلیٹ بنچ کو آئینی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ مناسب وقت (time frame) کے اندر شریعت پٹیشنوں اور شریعت اپیلوں کا فیصلہ کر دیں۔ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی طرح صوبائی، ضلعی اور تحصیل سطح کی عدالتوں میں بھی علماء ججوں کا تقرر کیا جائے۔ آئین میں جہاں قرآن و سنت کے بالاتر قانون ہونے کا ذکر ہے وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شارع ہونے کا ذکر بھی کیا جائے۔ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کو بطور رکن نامزد کرے۔ ہر مکتبہ فکر اپنا نمائندہ اپنے حلقوں سے مشاورت کے بعد تجویز کرے۔ نفاذ شریعت کے حوالے سے جن نکات پر ارکان کی اکثریت کا اتفاق ہو جائے حکومت چھ ماہ کے اندر اسے قانون بنا کر پاس کرنے کی پابند ہو۔
  5. پاکستان کے قانونی ڈھانچے میں پہلے سے موجود اسلامی قوانین پر موثر طریقے سے عملدرآمد کیا جائے اور اسلامی عقوبات کے نفاذ کے ساتھ ساتھ موثر اصلاحی کوششیں بھی کی جائیں۔
  6. اسلامی اصول و اقدار کے مطابق عوام کو بنیادی ضروریات و سہولیات زندگی مثلاً روٹی، کپڑا، مکان، علاج معالجہ، اور تعلیم فراہم کرنے، غربت و جہالت کے خاتمے، عوامی مشکلات و مصائب دور کرنے، اور عوام کو دنیا میں عزت اور وقار کی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کو اولین ریاستی ترجیح بنایا جائے۔
  7. موجودہ سیاسی نظام کی اسلامی تعلیمات کے مطابق اصلاح کی جائے۔ مثلاً عوامی نمائندگی میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی حوصلہ شکنی اور غریب و متوسط طبقے کی نمائندگی کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں۔ نمائندگی کے لیے شرعی شہادت کی اہلیت کو لازمی شرط قرار دیا جائے۔ متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنایا جائے۔ علاقائی، نسلی، لسانی اور مسلکی تعصبات کی بنیاد پر قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے ۔ اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے مناسب پالیسیاں اور ادارے بنائے جائیں۔
  8. تعلیمی نظام کی اسلامی تناظر میں اصلاح کے لیے قومی تعلیمی پالیسی اور نصابات کو اسلامی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے تشکیل دیا جائے جس سے یکساں نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو۔ اساتذہ کی نظریاتی تربیت کی جائے اور تعلیمی اداروں کا ماحول بہتر بنایا جائے۔ مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور مغربی لباس کی پابندی اور امور تعلیم میں مغرب کی اندھی نقالی کی روش ختم کی جائے۔ تعلیم کا معیار بلند کیا جائے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی نصاب اپنانے کا پابند بنانے اور ان کی نگرانی کا موثر نظام وضع کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ تعمیر سیرت اور کردار سازی کو بنیادی اہمیت دی جائے۔ تعلیم سے ثنویت کا خاتمہ کیا جائے۔ دینی مدارس کے نظام کو مزید موثر و مفید بنانے اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں تاکہ بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ ملے اور فرقہ واریت میں کمی واقع ہو۔ دینی مدارس کی ڈگریوں کو تسلیم کیا جائے۔ تعلیم کے لیے وافر فنڈز مہیا کیے جائیں۔ ملک میں کم از کم میٹرک تک لازمی مفت تعلیم رائج کی جائے اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔
  9. ذرائع ابلاغ کی اصلاح کی جائے۔ اسلامی تناظر میں نئی ثقافتی پالیسی وضع کی جائے جس میں فحاشی و عریانی کو فروغ دینے والے مغربی و بھارتی ملحدانہ فکر و تہذیب کے اثرات و رجحانات کو رد کر دیا جائے۔ صحافیوں کے لیے ضابطۂ اخلاق تیار کیا جائے اور ان کی نظریاتی تربیت کی جائے۔ پرائیویٹ چینلز اور کیبل آپریٹرز کی موثر نگرانی کی جائے۔ اسلام اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کے خلاف پروگراموں پر پابندی ہونی چاہیے، بلکہ تعمیری انداز میں عوام کے اخلاق سدھارنے اور انہیں اسلامی تعلیمات پر عمل کی ترغیب دینے والے پروگرام پیش کیے جائیں۔ اور صاف ستھری تفریح مہیا کی جائے۔
  10. پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے اور افلاس و مہنگائی کے خاتمے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں۔ جیسے جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنا، شعبہ زراعت میں ضروری اصلاحات کو اولین حکومتی ترجیح بنانا، تقسیم دولت کے نظام کو منصفانہ بنانا اور اس کا بہاؤ امیروں سے غریبوں کی طرف موڑنا۔ بیرونی قرضوں اور درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے موثر منصوبہ بندی کرنا۔ معاشی خودکفالت کے لیے جدوجہد کرنا اور عالمی معاشی اداروں کی گرفت سے معیشت کو نکالنا۔ سود اور اسراف پر پابندی اور سادگی کو رواج دینا۔ ٹیکسز اور محاصل کے نظام کو موثر بنایا جائے اور بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ بڑے قرضوں کے اجراء کے ساتھ ساتھ مائیکرو کریڈٹ کا بھی اجراء کریں تاکہ غریب اور ضرورت مند لوگ ان بلاسود قرضوں کے ذریعے اپنی معاشی حالت بہتر کر سکیں۔ نیز قرضوں کو بطور سیاسی رشوت دینے پر قانونی پابندی عائد کی جائے۔ زکوٰۃ اور عشر کی وصولی اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل ۳۸ میں درج عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کے متعلقہ امور کی تکمیل کے لیے حکومت خود اور نجی شعبے کے اشتراک سے فوری طور پر ٹھوس اقدامات کرے۔ لوٹ مار سے حاصل کردہ اور بیرون ملک بینکوں میں جمع خطیر رقوم کی وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے۔
  11. عدلیہ کی بالفعل آزادی کو یقینی بنایا جائے اور اسے انتظامیہ سے عملاً الگ کیا جائے۔ اسلامی تناظر میں نظام عدل کی اصلاح کے لیے قانون کی تعلیم، ججوں، وکیلوں، پولیس اور ذیل اسٹاف کے کردار کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ انصاف سستا اور فوری ہونا چاہیے۔
  12. امن و امان کی بحالی اور لوگوں کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو ان مقاصد کے حصول کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہیے۔
  13. خارجہ پالیسی کو متوازن بنایا جائے۔ تمام عالمی طاقتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے جائیں اور اپنی قومی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے۔ اپنے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ مسلمانان عالم کے رشتہ اخوت و اتحاد کو قوی تر کرنے کے لیے او آئی سی کو فعال بنانے میں پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔
  14. افواج میں روح جہاد پیدا کرنے کے لیے سپاہیوں اور افسروں کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ بنیادی فوجی تربیت ہر مسلم نوجوان کے لیے لازمی ہونی چاہیے۔ فوجی افسروں کی اس غرض سے خصوصی تربیت کی جائے کہ ان کا فرض ملک کا دفاع ہے نہ کہ حکومت چلانا۔ بیوروکریٹس کی تربیت بھی اسلامی تناظر میں ہونی چاہیے تاکہ ان کے ذہنوں میں راسخ ہو جائے کہ وہ عوام کے خادم ہیں، حکمران نہیں۔
  15. امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے ایک آزاد اور طاقتور ریاستی ادارہ قائم کیا جائے جو ملک میں اسلامی معروفات اور نیکیوں کے فروغ، اور منکرات و برائیوں کے خاتمے کے لیے کام کرے۔ اور معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کرے جس میں نیکی پر عمل آسان اور برائی پر عمل مشکل ہو جائے اور شعائر اسلامی کا احیاء و اعلاء ہو۔ اور دستور کے آرٹیکل ۳۱ میں جن امور کا ذکر کیا گیا ہے ان پر موثر عمل درآمد ہو سکے۔ دفاع اسلام خصوصاً اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کے ازالے اور مسلمانوں و غیر مسلموں تک موثر انداز میں دین پہنچانے کے لیے بھی حکومت پاکستان کو فنڈز مختص کرنے چاہئیں اور وسیع الاطراف کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں۔

ملی مجلس شرعی کے تحت آل پارٹیز کانفرنس کی دو اہم قراردادیں

قرارداد نمبر ۱ ۔ اتحاد بین العلماء

ہم پاکستان کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اور دینی جماعتوں کے سربراہان اس امر کا اعلان اور اظہار کرتے ہیں کہ ہم سب ایک امت ہیں اور بھائی بھائی ہیں۔ ہم ایسے سب اقدامات کی تائید اور حمایت کرتے ہیں جن سے امت اور علماء میں اتحاد و اتفاق بڑھے۔ اور ایسے سب اقدامات اور عوامل سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں جن سے امت اور علماء میں انتشار و افتراق پیدا ہو اور خلفشار بڑھے۔

بلاشبہ ہمارے درمیان فقہی و کلامی اختلافات موجود ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے درمیان مشترکات بہت زیادہ ہیں اور اختلافات کم ہیں۔ اور جو ہیں انہیں گفت و شنید اور سنجیدہ پر امن علمی ماحول میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے اور انہیں قاطع اخوت اسلامی اور موجب فساد نہیں بننے دینا چاہیے۔ نیز ہم اتحاد بین العلماء کی پرزور حمایت کرتے ہیں تاکہ اس اتحاد کے مثبت اثرات عوام الناس تک بھی پہنچیں۔

لہٰذا آج ہم سب اعلان کرتے ہیں کہ ہم بحیثیت مسلمان متحد ہیں، آپس میں بھائی بھائی ہیں اور کسی خاص فقہی یا کلامی مسلک سے ہماری وابستگی اسلامی اخوت اور بھائی چارے کی نفی نہیں کرتی۔ لہٰذا ہم مسلکی تشخصات کو قائم رکھتے ہوئے ہر قسم کی فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ عصبیت کو مسترد کرتے ہیں اور آئندہ مل کر دین حنیف کی عظمت و سربلندی، پاکستان میں نفاذ شریعت، اور مسلمانوں کے انفرادی و اجتماعی زندگی میں احکام شریعت پر عمل کے لیے کوشاں رہیں گے۔ اور علماء میں انتشار پیدا کرنے والوں کی کوششوں کو باہم مل کر اخلاص اور فراست سے ناکام بنائیں گے، ان شاء اللہ۔

ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کا احترام کریں گے، اشتعال انگیز اور توہین آمیز تقریر و تحریر سے اجتناب کریں گے، اور ایسے اقدامات سے گریز کریں گے جن سے باہمی اتحاد و اتفاق کو ٹھیس پہنچے۔ اور اپنی تمام علمی و فکری صلاحیتیں اصلاح معاشرہ، اعلاء کلمۃ اللہ اور اتحاد امت کے لیے صرف کریں گے۔ ہم تمام علماء کرام سے بھی یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھی امت کے وسیع تر مفاد میں یہی روش اختیار فرمائیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس عزم و ارادے میں کامیاب فرمائے اور اپنے اس فرمان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرقوا (سورہ آل عمران ۔ آیت ۱۰۳) (اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔)

قرارداد نمبر ۲ ۔ قومی خودمختاری کا تحفظ

ہم پاکستان کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اور دینی جماعتوں کے سربراہان اس امر پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان اس وقت بحرانی کیفیت میں ہے۔ یہاں کے عوام قتل و غارت گری، دہشت گردی اور مصائب و مشکلات کا شکار ہیں۔ بالخصوص کراچی اور بلوچستان میں بے گناہوں کا قتل عام اور بیرونی سازشیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔ پاکستان کی قومی سلامتی خطرے میں ہے جس کا بڑا سبب افغانستان میں بیرونی مسلح مداخلت ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے حکمران بھی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے اپنے اقتدار اور مفادات کے لیے قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

چنانچہ آج کا یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں کے مطابق ڈرون حملے فوری طور پر بند کرائے۔ بلیک واٹر اور صیہونی اور بھارتی ایجنسیوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا نیٹ ورک توڑ دیا جائے۔ بیرونی دباؤ پر پاکستان کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشنوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اور اندرون ملک ناراض عناصر سے باہمی مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ پاکستان سے نیٹو فورسز کی سپلائی بند کی جائے، ہمارے حکمران دہشت گردی کے خلاف جنگ سے فی الفور الگ ہو جائیں اور ملکی دفاع کو ہر صورت میں مقدم رکھیں۔

اجلاس کے شرکاء کے اسمائے گرامی

  1. مولانا مفتی محمد خان قادری (مہتمم جامعہ اسلامیہ، لاہور)
  2. پیر عبد الخالق قادری (صدر مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان)
  3. علامہ احمد علی قصوری (امیر مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان)
  4. صاحبزادہ علامہ محب اللہ نوری (مہتمم جامعہ حنفیہ فریدیہ، بصیر پور، اوکاڑہ)
  5. علامہ قاری محمد زوار بہادر (ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء پاکستان، لاہور)
  6. مولانا حافظ غلام حیدر خادمی (مہتمم جامعہ رحمانیہ رضویہ، سیالکوٹ)
  7. مولانا مفتی شیر محمد خان (صدر دارالافتاء، ملتان۔ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ، بھیرہ، ضلع سرگودھا)
  8. علامہ حسان الحیدری (حیدر آباد، سندھ)
  9. مولانا راغب حسین نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمیہ، لاہور)
  10. مولانا خان محمد قادری (مہتمم جامعہ محمدیہ غوثیہ، داتا نگر، لاہور)
  11. مولانا محمد خلیل الرحمن قادری (ناظم اعلیٰ، جامعہ اسلامیہ، لاہور)
  12. علامہ محمد شہزاد مجددی (سربراہ دارالاخلاص، مرکز تحقیق، لاہور)
  13. علامہ محمد بوستان قادری (شیخ الحدیث دارالعلوم محمدیہ غوثیہ، بھیرہ، ضلع سرگودھا)
  14. سید منور حسن (امیر جماعت اسلامی پاکستان، منصورہ، لاہور)
  15. مولانا عبد المالک (صدر رابطہ المدارس الاسلامیہ، منصورہ، لاہور)
  16. ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی، منصورہ، لاہور)
  17. ڈاکٹر سید وسیم اختر (امیر جماعت اسلامی پنجاب، لاہور)
  18. مولانا سید محمود الفاروقی (ناظم تعلیمات رابطہ المدارس الاسلامیہ، منصورہ، لاہور)
  19. مولانا محمد ایوب بیگ (ناظم نشر و اشاعت تنظیم اسلامی پاکستان، لاہور)
  20. مولانا ڈاکٹر محمد امین (ڈین صفاء اسلاک سنٹر، لاہور)
  21. مولانا محمد حنیف جالندھری (ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ، ملتان)
  22. مولانا مفتی رفیق احمد (دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی)
  23. مولانا حافظ فضل الرحیم (نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ، لاہور)
  24. مولانا زاہد الراشدی (ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)
  25. مولانا عبد الرؤف فاروقی (ناظم اعلیٰ جمعیۃ علمائے اسلام، لاہور)
  26. مولانا محمد امجد خان (ناظم اطلاعات جمعیۃ علمائے اسلام، لاہور)
  27. مولانا مفتی محمد طاہر مسعود (مہتمم جامعہ مفتاح العلوم، سرگودھا)
  28. مولانا مفتی محمد طیب (مہتمم جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد)
  29. مولانا ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی (نائب مہتمم دارالعلوم الاسلامیہ، لاہور)
  30. مولانا اللہ وسایا (عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان)
  31. مولانا مفتی محمد گلزار احمد قاسمی (مہتمم جامعہ قاسمیہ، گوجرانوالہ)
  32. مولانا قاری محمد طیب (مہتمم جامعہ حنفیہ بورے والا، وہاڑی)
  33. مولانا رشید میاں (مہتمم جامعہ مدنیہ، کریم پارک، لاہور)
  34. مولانا محمد یوسف خان (مہتمم مدرسۃ الفیصل للبنات، ماڈل ٹاؤن، لاہور)
  35. مولانا عزیز الرحمن ثانی (مبلغ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، لاہور)
  36. مولانا رضوان نفیس (خانقاہ سید احمد شہید، لاہور)
  37. مولانا قاری جمیل الرحمن اختر (مہتمم جامعہ حنفیہ قادریہ، لاہور)
  38. مولانا حافظ محمد نعمان (مہتمم جامعہ الخیر، جوہر ٹاؤن، لاہور)
  39. مولانا قاری ثناء اللہ (امیر جمعیۃ علمائے اسلام لاہور، لاہور)
  40. پروفیسر مولانا ساجد میر (امیر مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پاکستان، لاہور)
  41. پروفیسر حافظ محمد سعید (امیر جماعۃ الدعوۃ پاکستان، لاہور)
  42. مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی (امیر جماعت اہل حدیث پاکستان، لاہور)
  43. مولانا عبید اللہ عفیف (امیر جمعیۃ اہل حدیث لاہور، لاہور)
  44. مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری (ناظم اعلیٰ متحدہ جمعیۃ اہل حدیث پاکستان)
  45. مولانا حافظ عبد الوہاب روپڑی (نائب امیر جماعت اہل حدیث پاکستان)
  46. مولانا محمد شریف خان چنگوانی (نائب امیر مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پاکستان)
  47. پروفیسر محمد حماد لکھوی (خطیب جامع مسجد مبارک اہل حدیث، اسلامیہ کالج، لاہور)
  48. مولانا ڈاکٹر حسن مدنی (نائب مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ)، لاہور)
  49. مولانا امیر حمزہ (کنوینر تحریک حرمت رسول (جماعۃ الدعوۃ)، لاہور)
  50. مولانا قاری شیخ محمد یعقوب (جماعۃ الدعوۃ، لاہور)
  51. مولانا رانا نصر اللہ (امیر مرکزی جمعیۃ اہل حدیث لاہور، لاہور)
  52. محمد زاہد ہاشمی الازہری (ناظم اعلیٰ جماعت غرباء اہل حدیث پنجاب)
  53. علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر (مہتمم ادارہ منہاج الحسین، لاہور)
  54. علامہ حافظ کاظم رضا نقوی (تحریک اسلامی، اسلام آباد)
  55. مولانا سید محمد مہدی (جامعہ المنتظر، لاہور)
   
2016ء سے
Flag Counter