قادیانیت کے سو سال

   
تاریخ : 
۲۶ مئی ۲۰۰۸ء

قادیانی مذہب کے پیروکاروں کے لیے ۲۶ مئی کا دن بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس لیے کہ اس روز قادیانی مذہب کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی نے لاہور میں وفات پائی تھی۔ جبکہ ۲۰۰۸ء کا یہ سال اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ مرزا صاحب کی وفات کو پوری ایک صدی مکمل ہو رہی ہے کیونکہ ان کی وفات اب سے ایک سو برس قبل ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو ہوئی تھی۔ قادیانی مذہب کے پیروکار اس مناسبت سے دنیا کے مختلف حصوں میں صد سالہ تقریبات کا اہتمام کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ ۲۰۰۸ء کے پورے سال کو محیط ہے۔ پاکستان میں یہ سرگرمیاں اس لیے نظر نہیں آرہیں کہ حکومت انہیں ان سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے رہی جو قادیانیوں کے بقول ان کے انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دستور میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جا چکا ہے مگر وہ اس دستوری فیصلے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اپنی مذہبی سرگرمیاں اسلام کے نام پر جاری رکھنا چاہتے ہیں جس پر مسلمانوں کو سخت اعتراض ہے اور ایسی سرگرمیوں سے امن عامہ میں خلل واقع ہو سکتا ہے، اس لیے قادیانیوں کو پاکستان کی حدود میں اسلام کے نام پر اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی علامات و شعائر کے ساتھ مذہبی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

مگر اس تنازعہ و کشمکش سے قطع نظر ہم ایک اور پہلو سے قادیانی مذہب کی ایک سو سالہ تاریخ کا مختصر جائزہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ قادیانی مذہب کے اراکین اور قائدین اپنی صد سالہ تقریبات میں اپنے مذہب کی سو سال کی پیش رفت اور کامیابیوں کا تذکرہ کر رہے ہیں اور اسے اپنی حقانیت اور سچائی کی دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے ایک فاضل دوست مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے اس موقع پر ایک کتابچہ مرتب کیا ہے اور اس میں ایسی ناکامیوں کا باحوالہ ذکر کر کے ان کی تعداد کو سو سے زیادہ تک پہنچا دیا ہے۔ یہ کتابچہ ۲۶ مئی کو صبح دس بجے ایوان اقبالؒ لاہور میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ختم نبوت کانفرنس میں تقسیم کیا جائے گا جس میں مختلف دینی و سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین خطاب کرنے والے ہیں۔ اس کتابچہ میں انہوں نے مرزا صاحب کے مناظر اور مباہلوں کا تذکرہ کیا ہے جو سرکردہ علماء کرام کے مقابلہ میں تھے اور جن میں مرزا غلام احمد قادیانی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کتابچہ میں مرزا صاحب کی الہامی پیشگوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو بڑے طمطراق سے کی گئیں لیکن پوری نہ ہو سکیں اور بہت سے دعوؤں کا ذکر ہے جن پر مرزا صاحب پورے نہ اتر سکے۔

ہم یہاں ان دعوؤں میں سے بطور نمونہ صرف ایک کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور پہلو کی طرف گفتگو کا رخ موڑیں گے جو موجودہ حالات کے تناظر میں ہمارے نزدیک مسلمانوں اور قادیانیوں دونوں کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اور قادیانی قیادت کے لیے لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے قادیانی لٹریچر کی دو اہم کتابوں ’’سیرت المہدی‘‘ اور ’’براہین احمدیہ‘‘ کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک اعلان کیا کہ وہ اسلام کی حقانیت پر پچاس جلدوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب لکھیں گے جس میں اسلام پر کیے جانے والے تمام اعتراضات کا جواب دیں گے۔ اس کتاب کے لیے انہوں نے اپنے عقیدت مندوں سے کتاب کی اشاعت کے لیے پیشگی قیمت اور چندہ بھی وصول کیا اور بار بار اعلان کرتے رہے کہ ’’براہین احمدیہ‘‘ کی پچاس جلدیں وعدہ کے مطابق شائع ہوں گی لیکن بات چار جلدوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اور چوتھی جلد کی اشاعت کو جب بیس سال گزر گئے اور کوئی نئی جلد نہ آئی تو لوگوں نے تقاضہ کیا اور پیشگی قیمت و چندہ دینے والوں نے اعتراض کیا، اس پر انہوں نے چوتھی جلد کی اشاعت کے اکیس سال بعد ’’براہین احمدیہ‘‘ کی پانچویں جلد شائع کی تو اس کے دیباچے میں یہ لکھ کر معاملہ نمٹا دیا کہ

’’پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاس سے پانچ پر اکتفاء کیا گیا ہے اور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے اس لیے پانچویں حصوں سے وہ وعدہ پورا ہوگیا ہے‘‘۔

خود جماعت احمدیہ کی شائع کردہ ’’براہین احمدیہ‘‘ کے پانچویں حصے کے دیباچے میں یہ اعتراف انہی الفاظ کے ساتھ آج بھی موجود ہے۔ مگر ہم اس سے صرف نظر کرتے ہوئے قادیانی مذہب کی سو سالہ تاریخ کی دوسری ناکامیوں کا تذکرہ کرنا چاہیں گے جن میں سے ایک کا ذکر مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے کیا ہے جبکہ دوسری کا حوالہ پاکستان کے سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں دیا تھا۔

علامہ اقبالؒ کے خوشہ چین سید نذیر نیازی مرحوم اپنی کتاب ’’اقبالؒ کے حضور‘‘ میں علامہ اقبالؒ کے ساتھ ایک مجلس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شاعر مشرق کے سامنے کسی نے ذکر کیا کہ قادیانی حضرات اگرچہ ہم مسلمانوں کو عقیدتاً کافر سمجھتے ہیں مگر اس کے باوجود اتحاد کے بھی خواہش مند ہیں اس لیے کہ ہندو بہرحال ہم سب کو ایک سمجھتے ہیں۔ اس پر علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ

’’یہ خوب منطق ہے، اسلام کی بنا پر تو ہم ایک ہیں نہ ایک ہو سکتے ہیں، البتہ ایک ہیں اور ہو سکتے ہیں تو ہندؤں کے اس کہنے پر کہ ہم سب مسلمان ہیں‘‘۔

اور پھر فرمایا کہ

’’دراصل ان کا مطلب یہ ہے کہ ہم تو قادیانیوں کا مسلمان ہونا تسلیم کرلیں البتہ وہ ہمیں برابر کافر سمجھتے ہیں۔ یہ کیا خوب بنائے اتحاد ہے‘‘۔

اس کے ساتھ ہی علامہ اقبال کا ایک اور ارشاد بھی شامل کرلیں جو انہوں نے سید نذیر نیازی مرحوم کے نام ایک خط میں فرمایا ہے کہ

’’ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں، یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے‘‘۔

علامہ اقبالؒ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ قادیانی حضرات مرزا غلام احمد قادیانی کے الہامات اور وحی پر ایمان بھی رکھنا چاہتے ہیں اور اس پر ایمان نہ لانے والوں کو کافر قرار دینے پر بھی مصر ہیں، مگر اس کے باوجود مسلمانوں میں شامل بھی رہنا چاہتے ہیں اور مسلمان کہلانے پر ان کا اصرار بھی جاری ہے۔ جبکہ علامہ اقبالؒ کے بقول اسلام کی بنا پر ہم اور قادیانی نہ ایک ہیں اور نہ ہی ایک ہو سکتے ہیں۔

چنانچہ گزشتہ ایک سو برس سے قادیانیوں کی یہ پالیسی چلی آرہی ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت اور تمام دعاویٰ پر یقین رکھتے ہوئے بھی خود کو ملت اسلامیہ میں شامل رکھنے اور مسلمان کہلانے کی مسلسل ناکام کوشش کر رہے ہیں لیکن دنیائے اسلام میں کسی جگہ بھی ان کے اس موقف کو پذیرائی نہیں ملی۔ مسلمانوں کا کوئی طبقہ انہیں مسلمانوں کا حصہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور قادیانیوں کی ایک سو سال کی پیہم جدوجہد کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں صورتحال یہی ہے کہ قادیانی حضرات اگر مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت و دعاویٰ سے براءت کا اعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کے اجتماعی عقائد کی طرف واپس آجائیں تو دنیا کا ہر مسلمان انہیں سینے سے لگانے کے لیے تیار ہے۔ لیکن اپنے جداگانہ عقائد پر قائم رہتے ہوئے مسلمان کہلانے کی کوشش میں انہیں دنیا کے کسی حصے کے کسی مسلمان طبقے کی حمایت حاصل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے اور اس سلسلہ میں قادیانی مذہب کے افراد جو کچھ بھی کر رہے ہیں، وقت اور صلاحیتوں کے ضیاع کے سوا اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔

دوسری بات کا ذکر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی یادداشتوں میں ملتا ہے کہ ان کی شہادت سے قبل ان کے آخری ایام میں اڈیالہ جیل میں ان کی نگرانی کرنے والے فوجی آفیسر کرنل رفیع الدین نے ’’بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن‘‘ کے نام سے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ بھٹو صاحب مرحوم اس دوران ان سے ملاقاتوں میں قادیانیوں کا اور ان کے بارے میں اپنے فیصلے کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے اسی موقع پر جہاں ایک بات یہ کہی کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے بارے میں ان کا فیصلہ آخرت میں ان کی نجات اور گناہوں کی معافی کا باعث ہوگا، وہاں یہ بھی کہا کہ رفیع! یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے، یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے۔

بھٹو صاحب مرحوم انتہائی ذہین اور معاملہ فہم سیاسی راہنما تھے اور میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ اگر بعض ذاتی قسم کی کمزوریاں ان پر غالب نہ آجاتیں تو قائد اعظمؒ کے بعد ان سے زیادہ باشعور، حوصلہ مند، قومی حمیت سے بہرہ ور لیڈر قوم کو میسر نہیں آیا۔ انہوں نے قادیانیوں کی نفسیات کا بالکل صحیح اندازہ کر لیا تھا کہ یہ مختصر سا مذہبی گروہ پاکستان میں وہی حیثیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو امریکہ میں یہودیوں نے حاصل کر رکھی ہے کہ تمام فیصلہ ساز اداروں میں یہودی کلیدی مقام پر فائز ہیں اور امریکہ کی تمام پالیسیوں کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہے۔ قادیانیوں نے پاکستان بننے کے بعد مسلسل اس بات کی کوشش کی ہے کہ قومی اداروں اور پالیسی ساز حلقوں میں وہ کلیدی پوزیشن حاصل کر لیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ’’کی پوسٹوں‘‘ پر ہر طرف قادیانی ہی قادیانی نظر آتے تھے۔ اس کے لیے سابق وزیرخارجہ چودھری ظفر اللہ خان اور یحییٰ خان کے دست راست ایم ایم احمد نے اپنے اپنے دور میں انتہائی متحرک کردار ادا کیا۔ لیکن ملک کے دینی اور سیاسی حلقوں کی بیداری اور بروقت اقدامات کے باعث قادیانیوں کو اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

قادیانی گروہ اس ناکامی پر مسلسل پیچ و تاب کھا رہا ہے اور اسے ایک بار پھر کامیابی میں بدلنے کے لیے متحرک ہے۔ ان کے استعماری سرپرست مسلسل ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے دستوری فیصلے کو غیر مؤثر بنانے کے لیے بین الاقوامی طاقتیں پاکستان کی نئی حکومت پر دباؤ بڑھاتی چلی جا رہی ہیں۔ لیکن کیا ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے پیروکاروں کی حکومت میں ایسا ہو سکے گا؟ میرا خیال ہے کہ اس محاذ پر ایک اور ناکامی قادیانیوں کا بڑی شدت کے ساتھ انتظار کر رہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter