حلال و حرام کی بنیاد ۔ سوسائٹی یا وحیٔ الٰہی

   
تاریخ : 
۲۹ جولائی ۱۹۹۶ء

ربیع الاول جناب رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے اور مسلمان دنیا بھر میں اس ماہ کے دوران اپنے اپنے ذوق کے مطابق جناب رسول اللہؐ کے حالات مبارکہ اور سیرت و سنت کے تذکرہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ اگرچہ جناب نبی اکرمؐ کی یاد منانے اور ان کی ولادت باسعادت کے ذکر کا کوئی طریقہ شرعاً متعین نہیں ہے اور قرآن کریم میں آنحضرتؐ کو قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دے کر گویا یہ اشارہ دے دیا گیا ہے کہ آپؐ کی یاد کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ مسلمان کی زندگی کا ہر سانس اور ہر عمل رسول اکرمؐ کو یاد کرنے اور ان کی سنت و سیرت کو سامنے رکھنے کا پابند ہے۔ تاہم یہ مسلمانوں کی محبت و عقیدت ہے کہ وہ اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرنے اور انہیں خراج محبت و عقیدت پیش کرنے کا کوئی نہ کوئی نیا راستہ اور طریقہ ضرور نکال لیتے ہیں۔

اسی مناسبت سے ہم ربیع الاول کے دوران اپنے کالم میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ کی سعادت حاصل کر رہے ہیں جس میں ہم سیرتِ طیبہؐ کے ان پہلوؤں کو سامنے لانے کی کوشش کریں گے جو آج کی بے چین، مضطرب اور دکھی انسانیت کے زخموں کا مرہم ہیں۔ اور جن سے انحراف کر کے نسل انسانی اور خود ملت اسلامیہ دکھ، تکلیف اور اضطراب کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پائی۔

جناب رسول اللہؐ کی ذات گرامی سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہے اور آپؐ کی تعلیمات تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کا خلاصہ اور ان کی مکمل ترین صورت ہیں۔ حضرات انبیاء کرامؑ کی تمام نسلِ انسانی کے لیے مشترکہ تعلیم یہ رہی ہے کہ انسان اپنی عقل اور خواہش کا بندہ بننے کی بجائے وحی الٰہی کی تابعداری قبول کرے اور اپنے پیدا کرنے والے کے احکام کی پیروی کرے کیونکہ اس کے لیے سلامتی کا راستہ یہی ہے۔ لیکن انسانی معاشرہ نے گزشتہ چند صدیوں سے وحی الٰہی اور پیغمبروں کی تعلیمات کو ایک طرف رکھ کر خواہش اور عقل کو اپنا خدا بنا رکھا ہے اور نسلِ انسانی کے تمام تر فیصلے انہی دو خودساختہ خداؤں کے حوالہ سے طے پاتے ہیں۔

آج فیصلوں کا معیار یہ ہے کہ انسان جو کچھ چاہتا ہے وہ اس کا حق ہے، مختلف انسانوں کی خواہشات میں ٹکراؤ کی صورت میں سوسائٹی کی اکثریت جس خواہش کی توثیق کر دے وہ حق ہے، اور جس خواہش کو سوسائٹی کی اکثریت کی تائید حاصل نہ ہو پائے وہ ناجائز اور غلط ہے۔ اس خود ساختہ اصول نے اخلاقی قدروں، مذہبی روایات، اور انسانی فطرت کو جس بری طرح پامال کیا ہے اس کی ایک جھلک یورپ کے ایک بڑے مذہبی ادارے ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ کی ان ہدایات کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے جو بغیر شادی کے اکٹھے رہنے والے جوڑوں کے بارے میں ہیں۔ ان ہدایات کی بنیاد برطانوی محکمہ مردم شماری کی ایک رپورٹ پر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بغیر شادی کے اکٹھے رہنے والے جوڑوں کا تناسب پچاس فیصد سے بڑھ گیا ہے اور چرچ آف انگلینڈ نے اس حوالہ سے اپنی ہدایات میں کہا ہے کہ اب آئندہ اس عمل کو گناہ نہ کہا جائے اور اس کی حوصلہ شکنی نہ کی جائے۔ گویا گناہ و ثواب اور جائز اور ناجائز ہونے کے مذہبی فیصلوں کی بنیاد بھی سوسائٹی بن گئی ہے کہ جس عمل کو سوسائٹی کی اکثریت قبول کر لے وہ گناہ کے دائرے سے نکل جاتا ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصول کی نفی فرماتے ہوئے یہ تعلیم دی ہے کہ عقل اور خواہش دونوں وحی الٰہی کے تابع ہیں۔ اور حلال و حرام کا فیصلہ صرف خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے، کسی اور کو اس میں رائے اور دخل دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس اصول کے حتمی اور ناقابل تغیر ہونے کا اس سے زیادہ اظہار کیا ہوگا کہ خود جناب نبی اکرمؐ نے ایک موقع پر شہد استعمال نہ کرنے کی قسم کھائی تو وحی الٰہی پکار اٹھی کہ

’’اے نبی! جو چیز اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کی ہے، آپ کیسے اسے حرام کر رہے ہیں؟‘‘ (سورۃ التحریم)

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم خداوندی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا، قسم توڑی، کفارہ ادا کیا، اور شہد استعمال کر کے دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے فیصلے خدائی اختیارات کے دائرے میں آتے ہیں اور ان میں عقل اور خواہش کا کوئی دخل نہیں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter