دہشت گردی یا حریت پسندی؟

   
تاریخ : 
۲۵ نومبر ۲۰۰۱ء

امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے یہ کہہ کر ایک بار پھر امریکی اتحاد کی حالیہ جنگ کے اصل مقصد کو واضح کر دیا ہے کہ ’’جب تک تہذیب مکمل طور پر محفوظ نہیں ہو جاتی، دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی‘‘۔ اس سے قبل جنگ کے آغاز میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اس جنگ کے لیے ’’صلیبی جنگ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی اور اس کے بعد ایک موقع پر کہا تھا کہ ہم تہذیب کے تحفظ کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اور اٹلی کے وزیر اعظم نے مغربی تہذیب کی برتری کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ اس تہذیب کی حفاظت کی جائے گی۔ اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اپنے مضمون میں، جو روزنامہ جنگ لندن میں ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۱ء کو شائع ہوا تھا، طالبان حکومت کو چارج شیٹ کرتے ہوئے صاف طور پر کہا تھا کہ ’’وہ ایک دقیانوسی اور غیر روادار نظام پوری مسلمان دنیا کو برآمد کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

صورتحال یہ ہے کہ جس ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف مغرب نے جنگ شروع کی ہے اس کی کوئی تعریف متعین نہیں ہے جبکہ عالمی رائے عامہ کے بہت سے لیڈر بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ دہشت گردی کی واضح تعریف متعین کی جائے اور اس کی حدود واضح کی جائیں تاکہ آزادی کی تحریکات اور جبر و تشدد کے خلاف دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانے والے مظلوموں کو دہشت گردی کے الزام سے الگ کیا جا سکے۔ مگر نہ اقوام متحدہ اور نہ ہی حملہ آور اقوام اس کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کا کوئی متعین مفہوم طے کیے بغیر جنگ کا بگل بجا دیا ہے جس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انہیں دہشت گردی یا اس کے خاتمہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ صرف دہشت گردی کے الزام کا بے نام وارنٹ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہیں تاکہ جس کا نام وہ چاہیں اس پر لکھ کر اس کے خلاف کارروائی کر سکیں۔

چند سال قبل سے واقعات کے تسلسل کو اس کے اصل تناظر میں دیکھیں تو بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ جب افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف جہاد آزادی جاری تھا اور ابھی روسی افواج نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا، البتہ یہ بات واضح ہوتی جا رہی تھی کہ افغان مجاہدین کا راستہ روکنا اب زیادہ دیر تک ممکن نہیں ہوگا اور روسی افواج کو بالآخر افغانستان سے نکلنا ہوگا، اس وقت امریکہ کے ایک سابق صدر جناب نکسن تمام تر اختلافات اور محاذ آرائی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے روس پہنچ گئے تھے اور انہوں نے روسی دانشوروں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ہماری جنگ کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں جو دینی بیداری ابھر رہی ہے اور جہادی تحریکات جس طرح منظم ہو رہی ہیں وہ ہم دونوں کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں، اس لیے ہمیں باہمی محاذ آرائی ترک کر کے اس مشترک دشمن سے نبرد آزما ہونے کی تیاری کرنی چاہیے۔

سابق امریکی صدر نکسن کے اس دورۂ روس کے بعد امریکہ اور روس میں گفتگو کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے حالات سامنے آئے تھے۔ اس موقع پر روسی فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں حکومت کے معاملات کو جان بوجھ کر مبہم چھوڑ دیا گیا تھا اور پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم اور وزیراعظم جناب محمد خان جونیجو مرحوم کے درمیان رونما ہونے والے اختلافات کا پس منظر بھی یہی تھا۔ صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم روسی فوجوں کی واپسی سے قبل کابل کی حکومت کا معاملہ طے کرنا چاہتے تھے تاکہ مجاہدین روسی فوجوں کے جانے کے بعد افغانستان کی حکومت سنبھال سکیں، جبکہ جونیجو مرحوم کابل کی حکومت کا معاملہ طے کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے اور روسی افواج کی واپسی کے معاہدے پر جلد از جلد دستخط کرنا چاہتے تھے۔ روسی افواج کی واپسی کے بعد کابل کی حکومت کا معاملہ مبہم چھوڑ دینے کی بات اتفاقی نہیں بلکہ امریکہ اور روس دونوں کی طے شدہ تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ روس کی واپسی کے بعد مختلف افغان گروپوں میں اقتدار کے لیے کشمکش کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، اسے باہر سے ایندھن فراہم کیا جاتا رہے گا، اور مجاہدین کی وہ اسلامی نظریاتی ریاست وجود میں نہیں آسکے گی جسے امریکہ اور روس دونوں اپنے لیے مشترکہ خطرہ سمجھ رہے تھے۔

آج مغربی لیڈر بار بار یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے افغانستان کو روس کے خلاف جنگ کے بعد اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا اور اب وہ ایسا نہیں کریں گے۔ حالانکہ یہ سرسری بات نہیں بلکہ طے شدہ منصوبے کا حصہ تھی جس کا مقصد واضح تھا کہ جہاد افغانستان میں حصہ لینے والے مختلف گروپ کابل کی حکومت کے لیے ایک دوسرے کے خلاف مستقل طور پر صف آراء ہوں اور جب وہ تھک ہار کر باہر سے تعاون اور امداد کے لیے رجوع کریں تو امریکہ اور روس باہمی مشورہ سے وہاں کوئی ایسی حکومت بنوا دیں جو ان کے عالمی نظام میں تو شریک ہو لیکن افغانستان میں ایک نظریاتی اسلامی ریاست کے قیام کا ذریعہ نہ بن سکے۔ مگر مجاہدین کے مختلف گروپوں میں طویل خانہ جنگی کے ردعمل میں سامنے آنے والے طالبان نے افغانستان کے ایک بڑے حصے کو خانہ جنگی سے نجات دلا کر اور ایک نظریاتی اسلامی حکومت قائم کر کے اس منصوبے میں رخنہ ڈال دیا۔ انہوں نے نہ صرف امن و امان کی صورتحال کو تسلی بخش بنایا بلکہ افغان معاشرے کو ہتھیاروں سے پاک کرنے اور ہیروئن کے کاروبار کو مکمل طور پر بند کرنے کا محیر العقول کارنامہ بھی سر انجام دے ڈالا۔ اگر وہ اپنے اس عمل کے ساتھ اسلام کا نام نہ لیتے اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے نفاذ کی بات نہ کرتے تو آج وہ دنیا میں ایک ’’آئیڈیل گورنمنٹ‘‘ اور ایک ’’ہیرو پارٹی‘‘ کے طور پر متعارف ہوتے اور انہیں پوری دنیا میں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا۔ طالبان کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے صاف طور پر اعلان کیا کہ وہ سب کچھ اسلام کے لیے کر رہے ہیں اور اسلامی احکام کے تحت کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہیں مغرب کے نظام، فلسفہ، اور تہذیب کے لیے خطرہ سمجھ لیا گیا اور ایسا سمجھنے والوں نے کوئی ٰغلطی نہیں کی کیونکہ

  1. خانہ جنگی سے نجات،
  2. اسلامی قوانین کے ذریعے معاشرتی جرائم پر کنٹرول،
  3. لاء اینڈ آرڈر کی مثالی صورت حال،
  4. منشیات کا مکمل خاتمہ، اور
  5. بیرونی قرضوں سے بے نیازی اختیار کر کے سادگی اور قناعت کے ساتھ نظام حکومت چلانے کی

جو روش انہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنا لی تھی اگر انہیں اس پر آٹھ دس سال تک چلنے کا موقع دیا جاتا تو دنیا کے سامنے فی الواقع ایک ایسی ریاست اور معاشرے کا نقشہ عملی طور پر آجاتا جس کے سامنے مغربی فلسفہ و نظام اور تہذیب و ثقافت کا چراغ زیادہ دیر تک نہ جل سکتا۔ اور کم از کم عالم اسلام کے متعدد ممالک میں اس طرز کے نظام حکومت اور فلسفہ حیات کی علمبردار دینی قوتوں کو تقویت حاصل ہوتی اور اسلامی نظام کی طرف مسلم ممالک کی واپسی کی راہ کھل جاتی۔

اس کے علاوہ تاریخ کے ریکارڈ پر ایک اور شہادت بھی موجود ہے کہ جب سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد نیٹو کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل سے پوچھا گیا کہ نیٹو کا قیام ہی سوویت یونین کے خلاف عمل میں لایا گیا تھا تو اب سوویت یونین کے عالمی منظر سے ہٹ جانے کے بعد نیٹو کو باقی رکھنے کا کیا جواز رہ گیا ہے؟ تو انہوں نے بے ساختہ کہہ دیا تھا کہ ’’ابھی اسلام باقی ہے‘‘۔ چنانچہ یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مغربی لیڈروں نے جس نئی جنگ بلکہ عالمی دہشت گردی کا آغاز کیا ہے وہ دراصل عالم اسلام میں دینی بیداری کی ابھرتی ہوئی لہر کو دبانے اور مسلم ممالک پر استعماری قوتوں کے غاصبانہ تسلط کے خلاف منظم ہونے والی مسلح جہادی تحریکات کو کچلنے کے لیے ہے۔ تاکہ دنیا میں کوئی ایسی نظریاتی اسلامی ریاست قائم نہ ہو پائے جو اس وقت دنیا میں موجود استحصالی نظام، مغرب کی مادر پدر آزاد ثقافت، ، اور لا دینی فلسفہ کے لیے خطرہ بن سکے۔ اور اس جنگ میں مسلم ممالک کے وہ تمام حکمران گروہ اور طبقات مغرب کے ساتھ شریک اور اس کے فطری حلیف ہیں جو مغرب کے پروردہ ہیں اور مغرب کی نمائندگی کرتے ہوئے عالم اسلام کی سیاست و معیشت اور فکر و دانش کو مغرب کے ہاتھوں گروی رکھ کر اپنے اقتدار اور عیاشیوں کو طول دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس سب کچھ سے قطع نظر مغربی لیڈروں بالخصوص جارج ڈبلیو بش، ٹونی بلیئر، اور کولن پاول سے یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ جناب! تہذیب و ثقافت کی جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ اخلاقی اقدار کے سہارے لڑی جاتی ہے اور جن تہذیبوں کی اخلاقی اقدار و روایات بے حوصلہ ہو جائیں، ہتھیاروں کی جھنکار ان کو کبھی سہارا نہیں دیا کرتی۔ کیا یہ مغربی لیڈر تاریخ کے اس نوشتہ پر نظر ڈالنے کی زحمت گوارا کریں گے؟

   
2016ء سے
Flag Counter