شریعت بل کی دفعہ ۳ کے بارے میں علماء کرام کے ارشادات

   
تاریخ : 
اپریل ۱۹۹۶ء


استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے ’’شریعت بل‘‘ کے عنوان سے حال ہی میں ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کی دفعہ ۳ میں شریعت اسلامیہ کی بالادستی کو ان الفاظ کے ساتھ تسلیم کیا گیا ہے۔

’’شریعت یعنی اسلام کے احکام جو قرآن و سنت میں بیان کیے گئے ہیں، پاکستان کا بالادست قانون (سپریم لاء) ہوں گے بشرطیکہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل متاثر نہ ہو۔‘‘ (بحوالہ جنگ لاہور ۱۹ مئی ۱۹۹۱ء)

وضاحت طلب امر یہ ہے کہ کیا کسی مسلم شخص یا ادارہ کے لیے شرعی احکام کی بالادستی کو مشروط طور پر قبول کرنے کی گنجائش ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو مذکورہ بالا کارروائی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ امید ہے کہ آنجناب خالصتاً شرعی نقطۂ نظر سے اس امر کی وضاحت فرما کر اپنی دینی و قومی ذمہ داری سے عند اللہ و عند الناس سبکدوش ہوں گے۔

المستفتی: ابوعمار زاہد الراشدی

ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ


جوابات

جامعہ اشرفیہ لاہور

گنجائش نہیں، یہ تو بالادستی نہیں توہین ہو رہی ہے جو گناہ ہے۔ شرعی حیثیت حرام ہونے کی ہے۔ (منجانب دارالافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور)

جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور

’’بشرطیکہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل متاثر نہ ہو‘‘ کی قید بالکل غلط اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کے مترادف ہے۔ اس قید کو لازماً حذف ہونا چاہیے۔ (از مولانا مفتی عبد اللطیف، جامعہ نظامیہ رضویہ اندرون لوہاری گیٹ لاہور)

دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی

قرآن و سنت کے مبینہ احکام کی بالادستی کو کسی شرط سے معلق کرنا غلط ہے اور گمراہی کی علامت ہے۔ (از مولانا قاضی حبیب الرحمان، مفتی تعلیم القرآن)

ہفت روزہ الاعتصام لاہور

اس دفعہ کے آخری الفاظ نے یقیناً قرآن و حدیث کی بالادستی کو ختم کر کے عملاً پارلیمنٹ کی بالادستی کو قائم کر دیا ہے۔ کہنے کو یہ ایک سطری عبارت ہے لیکن اپنے مفہوم و نتائج کے اعتبار سے نفاذ شریعت کی راہ میں سد سکندری اور کوہ ہمالیہ سے بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ (از مولانا حافظ صلاح الدین یوسف)

سیال شریف

یہ شرط غلط ہے، اگر اس شرط کو قائم رکھا گیا تو فیصلہ جات بجائے شریعت اقدس کی اتباع میں دیے جانے کے سیاسی، حکومتی اور غیر شرعی صورتوں میں ہو کر نہ صرف اسلامی معاشرہ کو تباہ کیا جائے گا بلکہ شریعت اسلامیہ سے مذاق ہوگا۔ (از مولانا غلام اللہ)

مدرسہ انوار العلوم ملتان

قرآن و سنت کی بالادستی کو مشروط طور پر تسلیم کرنا کتاب و سنت کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے۔ (از مولانا مفتی غلام مصطفیٰ رضوی)

جامعہ رحمانیہ لاہور

یہ شرط سیکولر ذہن کی عکاسی کرتی ہے جو قرآن و سنت کی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے لیکن اس سے انکار کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا۔ کوئی مسلمان ایسی بات نہیں کر سکتا۔ (از مولانا محمد اجمل خان)

مدرسہ نجم المدارس کلاچی

وہ لوگ جنہوں نے اکثریت کے بل بوتے پر یہ شرط لگا دی ہے کہ موجودہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل بہرصورت متاثر نہیں ہوگی، ان میں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام اور اسلامی حکومت کی موجودہ شکل اسلام کے خلاف ہے اور اس کے باوجود یہ اسلام کے سیاسی نظام اور اسلامی حکومت کی تشکیلات سے بہتر ہے معاذ اللہ تو یہ عقیدہ اسلام کی نفی ہے اور اس عقیدے کے باوجود ان کا مسلمان ہونے کا دعویٰ الحاد اور زندقہ ہے۔ اور اگر یہ سمجھتے ہوں کہ اسلام کے خلاف تو ہے مگر ہم اسے اپنانے پر دنیوی مفادات وغیرہ کی بنا پر مجبور ہیں تو یہ فسق و فجور ہے اور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں بہ اختیار خود زمام اقتدار دینا بالکل ناجائز ہے بشرطیکہ دوسرا ان سے نسبتاً کم درجہ کا فاسق ہو۔ (از مولانا قاضی عبد الکریم)

بیر شریف لاڑکانہ

اس سے ایمان ضائع ہوگا۔ (از مولانا عبد الکریم قریشی)

جامعہ مدنیہ لاہور

اس (شرط) کے یہ معنی ہیں کہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل اصل الاصول ہے اور اسلام کے احکام ثابتہ من القرآن والحدیث اس کے تابع ہیں۔ جو احکام اسلام اس اصل الاصول سے متصادم ہوں گے وہ اس اصل الاصول سے منسوخ سمجھے جائیں گے۔ یہ صریح کفر ہے۔ ایک تو یہ کہ اسلام کو اپنے خود ساختہ قوانین کے تابع کیا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بجمیع احکامہ اصل الاصول اور حکومت و سیاسی نظام کے جمیع خود ساختہ قوانین اس کے تابع ہیں۔ اس کے جو قوانین اسلام سے متصادم ہوں وہ کالعدم ہوں کیونکہ متصادم خود بڑی معصیت ہیں۔ اسلامی احکام پر کسی بھی دوسری چیز کو ترجیح دینا اور اسلام کے مقابلہ میں ان کو تسلیم کرنا عین کفر ہے۔ الاسلام یعلو ولا یعلی۔ (از مولانا مفتی عبد الحمید)

دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک

اس تسلیم کی لپیٹ میں جو دجل ہے اس کا سمجھنا سیاست دان لوگوں کا منصب ہے۔ میرے خیال میں یہ الفاظ معھودہ استثناء الکل من الکل کی طرح بہ ظاہر تسلیم اور اقرار ہے اور درحقیقت انکار اور فرار ہے۔ (از مولانا مفتی محمد فرید)

دارالعلوم تعلیم القرآن پلندری

ایک مسلمان کے لیے بطور عقیدہ کے تو شریعت کو سپریم لاء تسلیم کرنا لازمی ہے۔ اگر عملی طور پر اس سے کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو وہ بھی سہوًا یا اضطرارًا صرف نظر کے لائق ہو سکتی ہے مگر عمدًا یہ بھی قابل مواخذہ ہوگی۔ (از مولانا محمد یوسف خان)

جامعہ محمدی شریف جھنگ

اسلامی احکام کو قبول کرنے کے لیے یہ شرط لگانا بالکل غلط ہے۔ احکام اسلام جو قرآن و سنت پر مبنی ہیں ان تمام کا تسلیم کرنا مسلمان پر علی اطلاق واجب ہے۔ اسلامی احکام کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں۔ (از مولانا محمد نافع)

مرکزی جامع مسجد گجرات

صورت مسئولہ صریح منافقت ہے اور قرآن و سنت کے آئین و قانون سے کھلی بغاوت ہے۔ (از مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری)

مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

شرعی احکام کی بالادستی کو مشروط طور پر قبول کرنا دراصل شریعت کی بالادستی سے انکار کے مترادف ہے اور الحاد و زندقہ اسی کو کہتے ہیں۔ (از مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان)

مرکزی جامع مسجد چکوال

مندرجہ دفعہ میں شریعت کی بالادستی کو مشروط کر کے اس کی بالادستی کی نفی کر دی گئی ہے اور معاملہ برعکس ہوگیا ہے۔ گویا کہ اصل بالادستی مروجہ سیاسی نظام اور حکومت کی موجودہ شکل کو حاصل ہے، العیاذ باللہ۔ (از مولانا قاضی مظہر حسین)

خدام الدین لاہور

حکومت نے دفعہ ۳ میں شرط عائد کر کے پورے شریعت بل پر بلڈوزر پھیر دیا ہے اور قرآن کریم کی واضح آیات کی روشنی میں ایسی شرط کفر کے مترادف ہے۔ (از مولانا حمید الرحمٰن عباسی)

جامع مسجد گلبرگ پشاور

اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت مغربی نظام سے متصادم ہونے کی صورت میں ملک کے لیے سپریم لاء نہیں۔ اس میں مغربی نظام کو قرآن و سنت پر فوقیت دی گئی ہے جو ظلم اور کفر کے مترادف ہے۔ (از پروفیسر محمد امین درانی)

   
2016ء سے
Flag Counter