مولانا مفتی محمودؒ کا طرز استدلال

   
تاریخ اشاعت: 
۱۴ اکتوبر ۲۰۱۶ء

حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کو ہم سے رخصت ہوئے ۱۴ اکتوبر کو چھتیس برس گزر جائیں گے لیکن ابھی کل کی بات لگتی ہے، ان کا چہرہ نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے، وہ مختلف تقریبات میں آتے جاتے دکھائی دے رہے ہیں، ان کی گفتگو کانوں میں رس گھول رہی ہے، ان کے استدلال اور نکتہ رسی کی ندرت دل و دماغ کو سراپا توجہ کی کیفیت میں رکھے ہوئے ہے اور ان کی فراست و تدبر کے کئی مراحل ذہن کی اسکرین پر قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ مولانا مفتی محمودؒ کے بارے میں بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے اور بہت لکھنے کا ارادہ ہوتا ہے لیکن آج کل سماعت و مطالعہ کا ہاضمہ اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ بعض ارادے

؂     کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

کی دہلیز پر آکر دم توڑ دیتے ہیں۔ آج ان کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے قلم ہاتھ میں لینے سے پہلے کئی گھنٹے سوچتا رہا اور متعدد پہلو باری باری سامنے آنے پر انہیں تولتا رہا بالآخر ذہن کی سوئی حضرت مفتی صاحبؒ کے استدلال کے اسلوب اور ندرت پر آکر رک گئی اور اسی کے حوالہ سے چند معروضات قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا مفتی محمودؒ کو استدلال کی جو قوت و صلاحیت عطا فرمائی تھی اس کا اعتراف سب حلقوں میں کیا جاتا تھا۔ ہمارے ایک مرحوم و مخدوم بزرگ کہا کرتے تھے کہ مفتی صاحبؒ سامنے نظر آنے والے لکڑی کے ستون کو دلائل کے ساتھ سونے کا ستون ثابت کرنا چاہیں تو دیکھنے والا شخص ان کی بات ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔ سیاسی، علمی، اور فکری سب قسم کے معاملات میں مفتی صاحبؒ کی اس خداداد صلاحیت کا ہم نے یکساں اظہار ہوتے دیکھا ہے۔ چنانچہ اس موقع پر خود ان کی زبان سے براہ راست سنی ہوئی بعض باتیں ذکر کرنا چاہ رہا ہوں۔

۱۹۷۳ء کے دستور کی ترتیب و تدوین میں حضرت مفتی صاحبؒ بھی دستور ساز اسمبلی کے ممبر بلکہ جمعیۃ علمائے اسلام کے پارلیمانی لیڈر کے طور پر شریک تھے۔ اس دوران یہ بات زیر بحث آئی کہ کیا عورتوں کو اسمبلی میں نمائندگی دی جا سکتی ہے؟ ہمارے بعض سرکردہ ارباب علم و فضل کو اس میں اشکال تھا۔ مفتی صاحبؒ نے اس سلسلہ میں ایک بڑے بزرگ کے ساتھ اپنی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ حضرت اشکال کس بات میں ہے، کیا عورتوں کو رائے دینے اور مشورہ میں شریک ہونے کا حق حاصل نہیں ہے یا پردہ اور مجلس کے اختلاط کے حوالہ سے اشکال درپیش ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ عورتوں کو رائے دینے کا حق تو ہے اور انہیں مشاورت میں شریک بھی کیا جا سکتا ہے لیکن مشترکہ مجلس میں ان کا بے حجاب شریک ہونا درست دکھائی نہیں دیتا۔ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے عرض کیا کہ قرآن کریم نے آیت مقدسہ والقواعد من النسآء میں عمر رسیدہ عورتوں کے لیے جو گنجائش دی ہے اگر اس کے تحت اسمبلی کی رکنیت کے لیے عورتوں کی عمر کی حد مقرر کر دی جائے، ان کی نشستیں مردوں سے الگ کر دی جائیں، اور لباس کی بھی کوئی مناسب حد بندی کر دی جائے تو پھر آپ کو کیا اشکال ہے؟ اس پر وہ بزرگ خاموش ہوگئے۔

مفتی صاحبؒ نے ایک موقع پر بتایا کہ قومی اسمبلی میں قادیانیت کے حوالہ سے بحث طول پکڑ گئی اور قادیانی امت کے سربراہ مرزا ناصر احمد کی طرف سے قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پیش کیے جانے کے باعث اسمبلی کے وہ ارکان تشویش کا شکار ہونے لگے جو قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ’’خاتم النبیین‘‘ کے مختلف معنوں اور توجیہات نے اس تشویش میں اضافہ کر دیا، حتیٰ کہ خود وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے مفتی صاحبؒ سے کہا کہ دونوں طرف سے آیتیں اور حدیثیں پیش کی جا ری ہیں اور حوالے دیے جا رہے ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آرہے۔ اس لیے ہمیں تو قرآن کریم سے کوئی سیدھی سی بات بتائیں کہ حضرت محمدؐ کے بعد نبی نہیں آئے گا تب بات ہماری سمجھ میں آسکتی ہے۔ مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ بھٹو مرحوم کی یہ بات سن کر ایک بار تو مجھے بھی پریشانی سی ہوئی پھر اللہ تعالیٰ نے ذہن میں بات ڈال دی اور میں نے کہا کہ بھٹو صاحب! یہ بات تو قرآن کریم نے آغاز میں ہی واضح کر دی ہے کہ سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ مومن وہی ہے جو اس وحی پر ایمان لاتا ہے جو آپؐ پر نازل ہوئی ہے اور اس وحی پر بھی ایمان رکھتا ہے جو آپؐ سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ اگر آنحضرتؐ کے بعد وحی نازل ہونا ہوتی تو اس کا بھی یہاں ذکر ہوتا، چونکہ اس کا ذکر نہیں ہے اس لیے حضورؐ کے بعد کسی وحی کا نزول نہیں ہوگا۔ یہ بات سن کر بھٹو مرحوم نے کہا کہ بس بات سمجھ میں آگئی ہے، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔

اسمبلی کا ہی ایک اور واقعہ حضرت مفتی صاحبؒ نے سنایا کہ اسمبلی میں زیربحث کسی مسئلہ پر مفتی صاحبؒ اور کچھ دیگر ارکان نے واک آؤٹ کیا تو اس پر مولانا کوثر نیازی مرحوم نے اعتراض کیا کہ آپ حضرات یہاں قوم کی نمائندگی کے لیے آتے ہیں اور یہاں آنے اور بیٹھنے کی آپ کو تنخواہ اور الاؤنس وغیرہ ملتے ہیں، اس لیے کام چھوڑ کر چلے جانا شرعاً درست نہیں ہے۔ مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ قرآن کریم کا حکم ہے کہ جس مجلس میں غلط باتیں ہو رہی ہوں فلا تقعدوا معھم ان کے ساتھ مت بیٹھو۔ نیازی صاحب مرحوم نے کہا کہ پھر آپ مجلس میں واپس کیوں آگئے ہیں؟ مفتی صاحبؒ نے آیت کا دوسرا جملہ پڑھا حتیٰ یخوضوا فی حدیث غیرہ یہاں تک کہ وہ کسی اور گفتگو میں مصروف ہو جائیں۔ یعنی اگر مجلس کا ایجنڈا بدل جائے تو آپ اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔

مولانا مفتی محمودؒ موقع شناسی اور اس کے مطابق گفتگو کرنے میں مہارت رکھتے تھے اور مخاطب کی بات کا اصل مقصد سمجھ کر اس کا جواب دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں ایک بار مفتی صاحبؒ نے بتایا کہ کسی مالدار شخص نے ان سے دریافت کیا کہ کیا حرام مال پر بھی زکوٰۃ دینا ہوتی ہے؟ مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ میں اس کا مقصد سمجھ گیا کہ میں کہہ دوں گا کہ نہیں تو بات بن جائے گی کہ ہماری کمائی تو اکثر حرام کی ہوتی ہے اس لیے زکوٰۃ نہیں دینا پڑے گی۔ مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ ہاں بھئی! حرام مال میں بھی زکوٰۃ فرض ہوتی ہے البتہ حلال مال کی زکوٰۃ اور حرام مال کی زکوٰۃ میں کچھ باتوں کا فرق ہے۔

  • حلال مال میں زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے نصاب کا ہونا ضروری ہے لیکن حرام مال کا کوئی نصاب نہیں ہے۔
  • حلال مال میں حولان حول (سال کا گزرنا) شرط ہے لیکن حرام مال میں فوری ادائیگی ضروری ہے۔
  • حلال مال میں اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ دینا ہوتی ہے جبکہ حرام مال سارے کا سارا دے دینا ضروری ہے۔
  • حلال مال کی زکوٰۃ دینے پر اجر و ثواب ملے گا مگر حرام مال ثواب کی نیت کے بغیر صحیح جگہ پر خرچ کرنا ہوگا۔

مفتی صاحبؒ نے فرمایا کہ زکوٰۃ کا اصل مقصد تو مال کو پاک کرنا ہوتا ہے جو حلال میں اڑھائی فیصد دینے سے حاصل ہو جاتا ہے۔ مگر حرام مال پورے کا پورا دے دینے سے باقی کا حلال مال پاک ہوتا ہے۔

اس سلسلہ میں اپنا ایک ذاتی واقعہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت مفتی صاحبؒ کا اسلام آباد کے گورنمنٹ ہاسٹل میں عام طور پر ۴ نمبر کمرہ میں قیام ہوتا تھا اور میں وقتاً فوقتاً جماعتی معاملات میں وہاں جایا کرتا تھا۔ ایک روز مغرب کی نماز پڑھ کر ہم بیٹھے تو جماعتی و ملکی معاملات پر گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ خاصی دیر کے بعد مفتی صاحبؒ کے خادم بھائی عبد الحلیم نے آکر پوچھا کہ کھانا تیار ہے لے آؤں؟ مفتی صاحبؒ نے مجھ سے پوچھا کہ مولوی زاہد کیا خیال ہے؟ کھانا پہلے کھالیں یا پہلے نماز پڑھ لیں۔ میں نے عرض کیا کہ پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں پھر اطمینان سے کھانا کھائیں گے۔ مفتی صاحبؒ نے اس پر یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ کیا مطلب! اطمینان کا تعلق کھانے کے ساتھ ہے یا نماز کے ساتھ؟ پہلے کھانا کھاتے ہیں پھر اطمینان کے ساتھ نماز پڑھیں گے۔
ایک موقع پر حضرت مفتی صاحبؒ نے کہا کہ مسلمانوں پر حکمران انہیں میں سے چنے جانے چاہئیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو، اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کی اطاعت کرو وأولی الأمر منکم اور ان حکمرانوں کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں۔ حضرت مفتی صاحبؒ کا استدلال ’’منکم‘‘ سے تھا کہ مسلمان حکمرانوں کا انتخاب خود ان میں سے ہی ہونا چاہیے۔

بہت سی باتیں یاد آرہی ہیں لیکن کالم میں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے اس لیے چند باتوں پر اکتفا کرتے ہوئے دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہمیں ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter