افغانستان کی صورتحال پر ایک پینل انٹرویو

   
تاریخ اشاعت: 
۱۶ نومبر ۲۰۰۱ء

گزشتہ روز لندن کے ٹی وی چینل اے آر وائی ڈیجیٹل کے پینل انٹرویو کے ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ موضوع ’’افغانستان کی صورتحال‘‘ تھا اور شرکائے گفتگو میں دیگر حضرات کے علاوہ برطانوی دارالامراء کے رکن لارڈ نذیر احمد بھی شامل تھے۔ اردو اور انگلش کے ایک گھنٹے کے اس ملے جلے پروگرام میں ٹیلی فون پر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کے ترجمان جنرل راشد قریشی سے بھی رابطہ کیا گیا اور پینل کے شرکاء نے ان سے سوالات کیے۔ ان کے علاوہ سیالکوٹ اور کراچی کے کچھ ناظرین نے بھی فون پر سوالات کیے اور اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

اے آر وائی ڈیجیٹل کے پی جے میر صاحب نے پروگرام کنڈکٹ کیا، ان کا پہلا سوال مجھ سے تھا کہ کیا آپ طالبان کی حمایت کرتے ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو دوسرا سوال ہوا کہ طالبان کی حمایت کس وجہ سے کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا اس لیے کہ طالبان ایک جائز موقف کے لیے لڑ رہے ہیں، وہ جہاد افغانستان کے منطقی اور نظریاتی نتائج کا تحفظ کر رہے ہیں۔ ان پر یہ جنگ ٹھونسی گئی ہے اور وہ مظلوم ہیں اس لیے میں ان کی حمایت کرتا ہوں۔ اس پر لارڈ نذیر احمد صاحب نے کہا کہ وہ اسامہ بن لادن کے حوالہ سے طالبان کے موقف سے اختلاف رکھتے ہیں کیونکہ جب امریکہ اور عالمی برادری نے ان سے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کا مجرم ہے اس لیے اسے امریکہ کے حوالہ کر دیا جائے تو انہیں یہ مطالبہ مان لینا چاہیے تھا۔ آخر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابیٔ رسول حضرت ابو جندلؓ کو کفار مکہ کے مطالبہ پر ان کے حوالے کر دیا تھا۔ میں نے گزارش کی کہ یہ بات دو وجہ سے درست نہیں ہے۔

  1. ایک اس وجہ سے کہ جناب رسول اللہؐ نے صلح حدیبیہ میں قریش کے مطالبہ پر حضرت ابوجندلؓ کو ان کے حوالہ کر دیا تھا لیکن یہ ایک معاہدہ کا نتیجہ میں تھا۔ کفار مکہ کے ساتھ آنحضرتؐ کا باقاعدہ معاہدہ ہوا تھا جس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ قریش مکہ کا کوئی شخص انہیں چھوڑ کر حضورؐ کے پاس جائے گا تو آپؐ اسے واپس کر دیں گے۔ یہ معاہدہ طے پانے کے بعد حضرت ابوجندلؓ پایہ زنجیر حضورؐ کی خدمت میں آئے اور درخواست کی کہ میں مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے آپ کے ساتھ مدینہ منورہ جانا چاہتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میں معاہدہ کر چکا ہوں اس لیے ساتھ نہیں لے جا سکتا چنانچہ ابوجندلؓ کو قریش مکہ اپنے ساتھ واپس لے گئے۔ لیکن امریکہ اور طالبان کے درمیان تو کوئی معاہدہ نہیں ہے، نہ مجرموں کے باہمی تبادلہ کا کوئی معاہدہ موجود ہے اور نہ ہی امریکہ نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا ہے۔ اس لیے اسامہ بن لادن کے حوالہ کرنے کا مطالبہ کا ہی سرے سے کوئی جواز نہیں بنتا۔
  2. دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ نے اسامہ بن لادن کو مجرم قرار دے دیا ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ اس کیس میں امریکہ کی حیثیت مدعی کی ہے یا مجسٹریٹ کی؟ اگر امریکہ مدعی ہے تو وہ کونسی غیر جانبدار عدالت ہے جس نے امریکہ کے اس موقف کو تسلیم کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو مجرم قرار دیا ہے؟ طالبان نے اسامہ کی حوالگی سے انکار نہیں کیا، صرف ثبوت مانگے ہیں اور غیر جانبدار عدالتی فورم کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے اور ان کا یہ موقف جائز ہے۔

گفتگو میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ طالبان پاکستان کے مخالف ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ بالکل نہیں، طالبان نے کبھی پاکستان کی مخالفت نہیں کی اور نہ اب کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کے موقف سے اختلاف اور چیز ہے اور پاکستان کی مخالفت اس سے بالکل مختلف معاملہ ہے۔ ہمیں ان دو باتوں میں فرق کرنا چاہیے۔

پھر یہ کہا گیا کہ پاکستان سے جو لوگ افغانستان میں لڑنے کے لیے جا رہے ہیں وہ پاکستان کے خلاف لڑیں گے۔ اس کا جواب قاضی حسین احمد صاحب نے دیا کہ طالبان نے کسی کو اپنے ملک میں لڑنے کے لیے بلایا ہے اور نہ کوئی جا رہا ہے یہ محض پروپیگنڈا ہے۔ جبکہ میں نے عرض کیا کہ جو لوگ افغانستان میں جا کر جہاد میں شریک ہونے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں وہ پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ امریکہ کے خلاف لڑنے کا عزم رکھتے ہیں اور امریکہ کے خلاف جنگ کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان تو اس جنگ میں خود کو فریق ہی تسلیم نہیں کر رہا تو اس کے خلاف جنگ کیسی؟

پینل گفتگو میں ایک اور سوال اٹھ کھڑا ہوا۔ قاضی حسین احمد نے اپنی ٹیلی فونک گفتگو میں کہا کہ جنرل پرویز مشرف اپنے موقف میں تنہا ہیں اور ان کے ساتھ ایک محدود ٹولہ ہے جبکہ پوری قوم ان کے اس موقف کے خلاف ہے۔ اس پر کہا گیا کہ دینی جماعتوں کو تو پارلیمنٹ میں کبھی ایسی نمائندگی حاصل نہیں رہی کہ وہ پوری قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کر سکتیں اس لیے یہ کہنا کہ قوم ان کے ساتھ ہے مشکل بات ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس مسئلہ کا حل مشکل نہیں ہے، میری تجویز یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ قوم کا اجتماعی موقف کیا ہے، یا تو معطل پارلیمنٹ کا صرف اس مسئلہ پر دو گھنٹے کا اجلاس طلب کر لیا جائے اور اس سے استفسار کیا جائے کہ موجودہ حالات میں جنرل پرویز مشرف اور دینی جماعتوں میں سے کس کا موقف درست ہے اور قومی جذبات سے مطابقت رکھتا ہے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس مسئلہ پر عوامی ریفرنڈم کرا لیا جائے، خود بخود فیصلہ ہو جائے گا کہ قوم اس مسئلہ میں کس کے ساتھ ہے۔

میں نے ریفرنڈم کا نام لیا تو گفتگو میں شریک ایک خاتون جرنلسٹ شیری رحمان نے صدر ضیاء الحق مرحوم کے ریفرنڈم کا ذکر چھیڑ دیا کہ انہوں نے ریفرنڈم کرایا تھا لیکن اس کے لیے جو الفاظ ڈیزائن کیے گئے تھے وہ مضحکہ خیز تھے۔ میں نے گزارش کی کہ الفاظ باہمی مشورہ سے ڈیزائن کر لیے جائیں اور عوام سے ان کے مطابق پوچھا جائے، آخر عوام سے پوچھیں تو سہی!

میں نے عرض کیا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ حالات کے جبر کا نتیجہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ اگر حالات کا یہ جبر نہ ہوتا اور جنرل پرویز مشرف آزاد فضا میں فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے تو ان کا فیصلہ یہ نہ ہوتا۔ البتہ انہوں نے فیصلہ کرنے میں جلدی سے کام لیا ہے اور اپنی قوم اور بین الاقوامی مسلم برادری کو اعتماد میں لینے سے پہلے ہی فیصلہ کر لیا اور اس کا اعلان کرنے کے بعد صلاح مشورے شروع کیے۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور صدر پرویز مشرف فیصلہ کرنے سے قبل ملک کی دینی و سیاسی جماعتوں کو مشورہ میں شریک کر لیتے اور عالم اسلام کے راہنماؤں سےمشاورت کے ساتھ ساتھ او آئی سی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیتے تو کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آتا اور حالات اس مقام تک نہ پہنچتے جس کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں۔

سیالکوٹ سے ایک صاحب نے فون پر سوال کیا کہ جس طرح نیٹو کے ممالک نے یہ طے کر رکھا ہے کہ ان میں سے کسی ایک پر حملہ نیٹو کے سب ارکان پر حملہ متصور ہوگا اس طرح کا کوئی معاہدہ مسلم ممالک آپس میں کیوں نہیں کر لیتے؟ اس پر گفتگو میں شریک مصری صحافی عبد اللہ حمودہ نے کہا کہ یہ بات نظریاتی لحاظ سے تو ٹھیک ہے مگر عملاً مشکل ہے۔ میں نے عرض کیا کہ بے شک اس میں عملی مشکلات ہیں لیکن عالم اسلام کے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ مسلم دنیا کو بالآخر اس نکتے پر آنا ہوگا اور مشکلات کا حل نکالتے ہوئے نیٹو کی طرز کے مسلم بلاک کی تشکیل کرنا ہوگی۔

پینل گفتگو میں ننکانہ صاحب کے ناظم رائے محمد نواز کھرل بھی شریک تھے، انہوں نے صدر جنرل پرویز مشرف کے موقف کی تائید کی اور کہا کہ ان کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے طالبان کی بھی حمایت کی اور کہا کہ مسلمان کی حیثیت سے ہمارے دل طالبان کے ساتھ ہیں اور ہم ان کے لیے دعاگو ہیں۔

پینل کے سب شرکاء کا اس بات پر اتفاق تھا کہ سب کچھ کے باوجود افغانستان کی شہری آبادی اور متعین اہداف سے ہٹ کر امریکی اور برطانوی طیاروں کی بمباری قطعی طور پر غلط اور افسوسناک ہے اور موجودہ صورتحال میں صحیح بات یہی ہے کہ افغانستان پر فضائی حملے فوری طور پر بند کیے جائیں اور جنگی کارروائی روک کر مذاکرات اور سیاسی ذرائع سے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter