فضا کے چند گھنٹے ’’الاہرام‘‘ کی پناہ میں

   
۲۹ دسمبر ۱۹۹۶ء

۲۵ نومبر ۱۹۹۶ء کی شام کو لندن سے سعودیہ جاتے ہوئے ’’مصر للطیران‘‘ کے ذریعے ہیتھرو ایئر پورٹ سے قاہرہ کے لیے روانگی ہوئی تو حسب معمول پرواز کی روانگی کے چند لمحے بعد فضائی میزبان اخبارات کی ٹرالی دھکیلتے ہوئے آگے بڑھی، میں نے اخبارات پر نظر ڈالی اور ایک معروف عربی اخبار ’’الاہرام‘‘ اٹھا لیا، اس کی سرخیاں اور دو چار صفحات سرسری طور پر دیکھے اور لپیٹ کر سامنے والی سیٹ کی پشت کی جیب میں رکھ دیا، مگر اردگرد کا ماحول ناسازگار پا کر تھوڑی دیر میں ہی دوبارہ الاہرام کی طرف ہاتھ بڑھانا پڑا۔ مصری ایئر لائن کی اس ایئربس میں میری سیٹ کھڑکی کے ساتھ دوسری تھی، جبکہ ہماری قطار میں درمیان والی چار سیٹوں میں سے دو خالی تھیں، اور دو پر ایک نوجوان پاکستانی جوڑا اٹکھیلیاں کر رہا تھا، انداز سے محسوس ہو رہا تھا کہ شاید نئی نئی شادی ہوئی ہے اور ہنی مون منانے جا رہے ہیں لیکن ریہرسل کے مراحل طیارے میں ہی لے کر لینا چاہتے ہیں، چار اکٹھی سیٹوں کی جولانگاہ موجود تھی اور وہ ’’ہردوئی‘‘ مٹانے کی فکر میں اردگرد سے بے نیاز ہو چکے تھے۔ یہ میرے دائیں طرف کا منظر تھا، جب کہ بائیں جانب ونڈو سیٹ پر ایک انگریز سفر کر رہا تھا جو وقفے وقفے سے اس جوڑے کے بلند آہنگ قہقہوں پر چونک کر ادھر متوجہ ہوتا اور پھر رخ پھیر کر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگ جاتا۔

اس ماحول میں ساڑھے چار گھنٹے کی اس پرواز میں مجھے اپنی فکر ہوئی کہ وقت گزارنے کی کیا صورت اختیار کی جائے۔ کچھ عرصہ پہلے تک دورانِ سفر مجھے نیند آ جایا کرتی تھی۔ اب مشکل سے آتی ہے، اس لیے اور کوئی چارہ نہ پا کر ’’الاہرام‘‘ کی پناہ میں عافیت محسوس کی اور اس کی ورق گردانی بلکہ خبر شماری میں محو ہو گیا۔ الاہرام عرب دنیا کا غالباً سب سے پرانا اخبار ہے اور شاید سب سے بڑا بھی شمار ہوتا ہے۔ اس کی پیشانی پر اخبار کے آغاز کی تاریخ ۵ اگست ۱۹۷۶ء لکھی ہوئی اور ’’سلیم و بشارۃ تقلا‘‘ کا نام بانیان کے طور پر درج ہے۔ ان دنوں رئیس التحریر جناب ابراہیم نافع ہیں اور شارع الجلا، قاہرہ میں اخبار کا صدر دفتر ہے۔ اخبار کی مین سرخی عرب علاقوں میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے بارے میں اسرائیلی پالیسی کے خلاف مصری وزیر خارجہ جناب عمر موسیٰ کے بیان پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے نئی بستیوں کی تعمیر کی مذمت کرتے ہوئے انہیں غیر قانونی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے اسرائیل اور عربوں کے درمیان امن کا معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور عالمی رائے عامہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس خطہ کے امن کو بچانے کے لیے اسرائیل کو ان اقدامات سے روکا جائے۔

صفحہ اول کی دوسری بڑی خبر قاہرہ میں بچوں کے لیے کتابوں کی نمائش کے بارے میں ہے، جس میں تیس ممالک کے سوا تین سو کے لگ بھگ ناشروں نے حصہ لیا اور بچوں کے لیے اپنی نئی مطبوعات نمائش میں پچاس فی صد رعایت پر فروخت کیلئے پیش کیں۔ اس نمائش کا افتتاح مصر کے صدر جناب حسنی مبارک کی اہلیہ محترمہ سوذان مبارک نے کیا اور خبر کا زیادہ تر حصہ افتتاحی تقریب کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ صفحہ اول پر ایک اور اہم خبر نئی اسرائیلی بستی ’’تتساریم‘‘ کے سامنے فلسطینیوں کے احتجاجی مظاہرہ کی ہے اور ایک خبر مصر کی قومی اسمبلی کے سپیکر ڈاکٹر احمد فتحی کے اس آرڈر کے بارے میں ہے جس میں انہوں نے اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہال میں موبائل فون کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے۔

اخبار کے دوسرے صفحہ پر ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کی تفصیلات ہیں، اشتہارات ہیں اور معروف صحافی احمد بہجت کا کالم ہے جس کا عنوان ’’صندوق الدنیا‘‘ ہے۔ آج کے کالم میں انہوں نے چیچنیا سے روسی افواج کی واپسی کے بارے میں روسی صدر کے حکم کو موضوع بحث بنایا ہے اور اسے دانش مندانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چیچنیا کے حوالہ سے روسی صدر کے دو اقدامات کبھی معاف نہیں کیے جا سکتے۔ ایک چیچنیا کو مسمار کر دینے کی کارروائی اور دوسرا پارلیمنٹ کو ٹینکوں کے ذریعے پامال کر دینے کا حکم، جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔

تیسرے صفحہ پر بچوں کی کتابوں کی نمائش کی تفصیلی رپورٹ اور تصاویر ہیں، جبکہ چوتھا اور پانچواں صفحہ عالمی خبروں کے لیے مخصوص ہے۔ جناب عبد العظیم حماد کا ایک مضمون بھی ان صفحات میں ہے جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جناب بطروس غالی کے دوسری مدت کے لیے انتخابات پر بحث کی ہے۔ بطروس غالی مصر سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے ملک کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں، خود عیسائی ہیں، ان کی بیوی یہودی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل شپ کی دوسری مدت کے لیے افریقی ممالک کی طرف سے انہیں پھر سے نامزد کیا گیا ہے جس کی تائید سلامتی کونسل کے اکثر ارکان نے بھی کی ہے، لیکن امریکہ نے ان کے دوبارہ انتخاب کو ویٹو کر دیا ہے اور مضمون نگار نے اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل ڈاگ ہمیر شولڈ کے تذکرہ سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے جناب بطرس غالی کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب چین، روس اور فرانس جیسی حکومتیں امریکی مفادات اور پالیسیوں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں تو کسی اکیلے شخص سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ تن تنہا امریکی پالیسیوں کا مقابلہ کر سکے گا۔

اس صفحہ پر ایک اہم خبر یہ ہے کہ اسرائیل میں لازمی فوجی خدمات سے مذہبی انتہا پسندوں کی استثنا کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ انتہا پسند یہودیوں کا موقف یہ ہے کہ وہ اپنے مذہبی فرائض کی وجہ سے فوجی خدمات انجام دینے سے معذور ہیں۔ جبکہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے والے ہر اسرائیلی کے لیے فوجی خدمات میں شریک ہونا لازمی ہے، اس سال اس مقصد کے لیے رجسٹرڈ ہونے والے افراد کی تعداد ایک سو پینسٹھ ہزار ہے جن میں اسی ہزار کے لگ بھگ اٹھارہ سال کی عمر کے ہیں مگر مذہبی وجوہات کی بنا پر لازمی فوجی خدمات سے معذوری کا اظہار کرنے والوں کا تناسب اس سال پچیس فیصد تک پہنچ چکا ہے اور خبر کے مطابق اگلے سال یہ تناسب تینتالیس فیصد تک پہنچ جائے گا۔

صفحہ پانچ پر منیلا میں ہونے والی اوپیک کانفرنس کی تفصیلات ہیں اور امریکی صدر بل کلنٹن کے منیلا پہنچنے پر ان کے استقبال کی رپورٹ ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ استقبال کے موقع پر امریکی صدر کے محافظوں نے فلپائن کے نائب صدر کو امریکی صدر کے قریب نہیں آنے دیا اور ایک خبر یہ بھی ہے کہ فلپائن کی سابق خاتون اول امیلڈا مارکوس جو کبھی ایسی عالمی کانفرنسوں کی روح ہوا کرتی تھیں، اپنے شہر میں ہونے والی اس کانفرنس کی کارروائی اپنے کمرے میں تنہائی کے عالم میں بیٹھی ٹیلی ویژن پر دیکھتی رہیں۔

عالمی خبروں میں جنوبی افریقہ کے صدر نیلسن منڈیلا کا ایک انٹرویو بھی درج ہے، جس میں انہوں نے بطرس غالی کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر دوسری مدت کے لیے منظور نہ کرنے کی امریکی پالیسی کو افسوسناک اور جمہوری تقاضوں کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امریکی صدر کے ساتھ ان کا پہلا واضح اختلاف ہے۔ اوسلو میں ہونے والی یہودیوں کی ایک عالمی کانفرنس کی خبر بھی ان کالموں میں ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر کے ڈیڑھ سو سے زائد یہودی رہنما شریک ہیں اور انہوں نے یہودیوں کے اکاؤنٹس کو واگزار کرانے کے طریق کار پر بحث کی ہے جو جرمنی کی نازی حکومت نے منجمد کر دیے تھے۔ کانفرنس کے شرکاء کا موقف یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں نے بینکوں میں جو رقوم جمع کروائی تھیں ان کے اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کر کے تمام رقوم اصل مالکوں کو واپس کی جائیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کے خفیہ اکاؤنٹس کی تفصیلات معلوم کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے، لیکن ان بینکوں کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ ان اکاؤنٹس کی تفصیلات کو خفیہ رکھنے کے پابند ہیں اور وہ کسی کو ان کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کر سکتے۔

ایک خبر جکارتہ میں ہونے والی مسلم وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے بارے میں ہے جو خبر کے مطابق نو دسمبر سے تیرہ دسمبر تک ہو رہی ہے۔ اس سلسلہ میں مصر کے نائب وزیر خارجہ جناب قاسم مصری کا ایک انٹرویو اس خبر کی بنیاد ہے، جس میں انہوں نے بتایا کہ کانفرنس میں سیاست و اقتصادیات میں باہمی تعاون کے امور کے علاوہ مارچ میں پاکستان کی گولڈن جوبلی کے سلسلہ میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی مسلم سربراہ کانفرنس کے معاملات بھی زیر بحث آئیں گے اور اس کے علاوہ دہشت گردی کے خاتمہ، مشرق وسطیٰ، صومالیہ، کشمیر، افغانستان، قبرص اور مختلف ممالک کی مسلم اقلیتوں کے مسائل پر بھی مسلم وزرائے خارجہ غور کریں گے۔

ایک خبر یہ ہے کہ اردن میں حکومت کے خلاف سرگرمیوں کے الزام میں پندرہ باشندوں کو پندرہ پندرہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے اور بحرین میں تین افراد کو ملک کے سیاسی نظام میں تبدیلی کی کوشش اور غیر قانونی تنظیم قائم کرنے کے جرم میں پندرہ ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا ہے۔

الاہرام میں ’’برید رئد ہرام‘‘ کے نام سے مراسلات کا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں مختلف امور پر عام لوگوں کے خطوط شائع ہوتے ہیں۔ آج کے کالم میں ایک اہم مراسلہ ’’لو اوکستور ابراہیم شکیب‘‘ کا ہے جس میں انہوں نے مصری معیشت کی زبوں حالی کا رونا روتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے لیے اصل پریشانی کا مسئلہ تو وہ خفیہ حکومت اور پالیسی ساز ہیں جو زیر زمین اندھیروں میں جاری پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ الاہرام میں مقامی خبروں، تجارت، کھیلوں، جرائم، حوادث، نوجوان اور تعلیم، بینکوں، سینما، تعزیت اور اعلانات کے مستقل صفحات ہیں جن سے عالمی صورتحال کے علاوہ مصر کی قومی زندگی کے مختلف شعبوں کی عکاسی ہوتی ہے۔

آج کا الاہرام چالیس صفحات پر مشتمل ہے اور پیشانی پر اس کی قیمت یوں لکھی ہے: ۴۰ صفحات، ۴۰ قرش۔ مصری ڈالر ۱۰۰ قرش پر مشتمل ہے۔ آج سے نو سال قبل مجھے ۱۹۸۷ء میں قاہرہ میں کچھ دن رہنے کا موقع ملا تھا، ان دنوں مصری ڈالر پاکستانی آٹھ روپے کے برابر ہوتا تھا، اب معلوم نہیں کیا صورتحال ہے۔

الغرض قاہرہ سے شائع ہونے والا روزنامہ ’’الاہرام‘‘ عرب دنیا کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا اخبار سمجھا جاتا ہے، جس سے عربوں کے دینی حلقے تو خوش نہیں ہیں، کیونکہ وہ اسے سیکولر حلقوں کی پناہ گاہ بلکہ مورچہ قرار دیتے ہیں، لیکن میرے لیے ’’الاہرام‘‘ غنیمت ثابت ہوا کہ بالکل پڑوس میں لحظہ بہ لحظہ تیز ہونے والی ’’رومانوی دھما چوکڑی‘‘ کے مناظر سے محفوظ رہنے کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ میسر آ گئی۔

   
2016ء سے
Flag Counter