بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جامعہ خیر المدارس میں حاضری سے نسبتوں کی تازگی اور خیر بلکہ اخیار کے ماحول میں کچھ وقت گزارنے کا وقتاً فوقتاً موقع مل جاتا ہے جس پر مولانا قاری محمد حنیف جالندھری کا شکرگزار ہوں۔ میں یہاں مخدوم العلماء حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ کے دور سے حاضر ہوتا آ رہا ہوں اور میں نے ان کی زیارت پہلی بار یہیں کی تھی۔
مجھ سے پہلے مولانا عبید اللہ خالد نے اپنے خطاب میں ایک اہم بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ دینی مدارس کے فضلاء جوں جوں اپنی تعلیم کی تکمیل کے مرحلہ کی طرف بڑھتے ہیں ان کے ذہن میں تذبذب اور شک کی کیفیت ابھرنے لگ جاتی ہے کہ اب آگے کرنا کیا ہے اور اپنے مستقبل کو کس شعبے سے وابستہ کرنا ہے؟ یہ بات بالکل درست ہے اور اس سلسلہ میں میری گزارش یہ ہوتی ہے کہ اساتذہ کو اپنے شاگردوں پر نظر رکھنی چاہیے اور جس شاگرد کو دینی و معاشرتی ماحول کے جس دائرے کے لیے زیادہ ضروری سمجھتے ہیں اس ماحول میں اسے ایڈجسٹ کرنے کے لیے اس کی راہنمائی کرنی چاہیے۔
مگر میں شک اور تذبذب کے ایک دوسرے پہلو کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا جس نے ہماری نئی نسل کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔ اور یہ فکری شکوک و شبہات کا فتنہ ہے اور مغربی تہذیب و فلسفہ کی یلغار کا فتنہ ہے جس کے اثرات نئی نسل کے ذہنوں میں مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں لیکن ہم اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ کسی بھی قوم اور ملت میں باہر سے آنے والے فلسفے اور افکار ہمیشہ فکری خلفشار کا باعث بنتے ہیں، ان کا ہوش مندی کے ساتھ سامنا کر لیا جائے تو قومی روایات اور ملی اقدار کو بچایا جا سکتا ہے، جبکہ نظر انداز کر دینے یا بغیر سوچے سمجھے نمٹنے کے باعث قوم اپنی تہذیب و روایات سے محروم ہو جاتی ہے۔
ہمیں اپنے عقائد اور ایمانیات کے حوالہ سے پہلے بھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ کے ادوار کے بعد یونانی فلسفہ ہماری طرف منتقل ہونا شروع ہوا تھا اور اس نے ہمارے عقائد اور ایمانیات کے ماحول میں خلفشار پیدا کر دیا تھا۔ معتزلہ اور دیگر عقل پرست طبقوں نے شکوک و شبہات اور بے یقینی کا طوفان کھڑا کر رکھا تھا اور اس مہم کو عباسی دور میں سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہو گئی تھی۔ اس دور کے کلامی مسائل اور اعتقادی اختلافات پر ایک نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ وہ کم و بیش سب ہی یونانی فلسفہ کی پیداوار تھے جن کا اس دور کے علماء کرام نے سامنا کیا اور اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد و روایات کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دیا تھا۔ مگر اس کے دو الگ الگ دائرے تھے۔
معتزلہ وغیرہ کی فکری حشرسامانیوں کے مقابلہ میں روایت کے دائرہ میں حضرت امام احمد بن حنبلؒ سامنے آئے اور خلقِ قرآن کے مسئلہ پر عقل پرستوں کے موقف کو تسلیم کرنے سے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ قرآن و حدیث سے کوئی دلیل لاؤ گے تو تمہاری بات سنوں گا، اس کے بغیر کوئی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اس انکار پر انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور کوڑے بھی کھائے مگر پوری استقامت اور عزیمت کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹ گئے۔ جس سے اس محاذ پر اہل سنت کو سرخروئی حاصل ہوئی۔
جبکہ اس کے ساتھ دوسرا دائرہ امام ابوالحسن اشعریؒ اور امام ابو منصور ماتریدیؒ کا بھی تھا جنہوں نے ان فکری فتنوں کا مقابلہ عقل اور درایت کے ہتھیاروں سے کیا۔ انہوں نے خود یونانی فلسفہ پر عبور حاصل کیا اور یونانی فلسفہ کی نفسیات اور زبان میں انہی کے دلائل سے عقل پرستوں کو لگام دی۔ چنانچہ یہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے کہ یونانی فلسفہ کی یلغار سے اہل سنت کے عقائد و روایات کو شکوک و شبہات کے جس طوفان کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کا رخ موڑنے کے لیے روایت کے ماحول میں امام احمد بن حنبلؒ جبکہ درایت کی دنیا میں امام ابوالحسن اشعریؒ اور امام ابومنصوری ماتریدیؒ نے علماء اہل سنت کی قیادت فرمائی۔
میں نے یہ صورتحال اس لیے عرض کی ہے کہ آج ہمیں بھی اسی قسم کی فکری یلغار کا سامنا مغربی فکر و فلسفہ کی طرف سے کرنا پڑ رہا ہے اور ہماری نئی نسل مغربی فلسفہ و تہذیب کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ میری اہل علم و دانش سے گزارش ہے کہ اس طرف اسی طرح کی سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے جس طرح یونانی فلسفہ کی دخل اندازی کے جواب میں امام احمد بن حنبلؒ، امام ابوالحسن اشعریؒ اور امام ابو منصور ماتریدیؒ نے جدوجہد کی تھی۔ جبکہ ہماری معروضی صورتحال یہ ہے کہ روایت کے ماحول میں تو بحمد اللہ کچھ نہ کچھ کام ہو رہا ہے اور ہمارے دینی مدارس قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ و ارشادات کے ذریعے روایت کو مضبوط و مستحکم کرنے میں مسلسل مصروف ہیں مگر درایت کے ماحول میں وہ صورتحال ابھی تک سامنے نہیں آئی جس کی ضرورت ہے۔ جبکہ امت مسلمہ کی نئی نسل کو شکوک و شبہات کی دلدل سے نجات دلا کر ایمان و یقین کے ماحول میں واپس لانے کے سلسلہ میں یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔
اس کے لیے میں ایک عرصہ سے یہ آواز لگا رہا ہوں کہ امام احمد بن حنبلؒ کے ساتھ ساتھ ابو الحسن اشعریؒ اور ابو منصور ماتریدیؒ کی جدوجہد کو زندہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم مغربی فلسفہ و نظام کا پوری طرح ادراک کرتے ہوئے اسی کی فریکونسی، طرز استدلال، نفسیات اور زبان میں اس کا جرأت و حوصلہ کے ساتھ سامنا کریں اور اپنے عقائد و روایات کا تحفظ کریں۔ ہمارے ماحول کے طلبہ اور نوجوان اساتذہ خود اس کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اس لیے شکوک و شبہات کے ماحول سے نمٹنے کے لیے نئی نسل بالخصوص طلبہ و اساتذہ کی راہنمائی آج کے دور کا سب سے اہم علمی و فکری تقاضہ ہے جس کی طرف ارباب علم و دانش کی سنجیدہ توجہ درکار ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔