آزادئ مذہب اور آزادئ رائے کا مغربی فلسفہ

مذہبی آزادی اور مذہبی مساوات کے حوالے سے ایک بات تو یہ کی تھی کہ وہ مذہب کو معاشرے سے لاتعلق قرار دیتے ہیں۔ بنیادی اور اصولی جھگڑا یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مذہب کا معاملہ شخصی ہے اور عقائد، عبادات، اخلاقیات تک مذہب محدود ہے۔ معاشرہ، سوسائٹی، سماج، قانون، عدالت اور سیاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب ہم مذہب کے معاشرتی احکام کی بات کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۷، ۲۰۱۸

بن کعبؓ اسٹوڈیو کے محمد حنظلہ حسان کا انٹرویو

میں گفتگو کا آغاز کروں گا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد گرامی سے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ ”من کان منکم مستنا فلیستن بمن قد مات“ ، ایک بات تو یہ فرمائی، جو آدمی کسی کو مقتدا بنانا چاہتا ہے نا، جس کو آئیڈیل کہتے ہیں ہمارے دور میں، آئیڈیل جس کو ہم کہتے ہیں، وہ جو فوت ہو چکا ہے نا، اس کو بنائے۔ ”فان الحی لا تؤمن علیہ الفتنۃ“ زندہ آدمی کسی وقت بھی فتنے کا شکار ہو سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اپریل ۲۰۲۴ء

جامعۃ الرشید میڈیا ہاؤس کے محمد ندیم کا انٹرویو

جواب: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ سب سے پہلے تو میں جامعۃ الرشید میڈیا ہاؤس کا شکر گزار ہوں کہ اس ملاقات کا اور چند باتوں کا موقع فراہم کیا۔ گزارش یہ ہے کہ اختلاف کے تو ہمیشہ ضابطے، اصول، آداب ملحوظ رہے ہیں۔ جب بھی اختلاف کو اختلاف سمجھا گیا ہے اور اختلاف کے دائرے میں علمی انداز میں باہمی احترام کے ساتھ اس کا اظہار کیا گیا ہے تو وہ رحمت ثابت ہوا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ دسمبر ۲۰۲۲ء

متفرق رپورٹس

۲۰۲۸ء تک سودی نظام کے خاتمہ کے اعلان کا خیرمقدم: تحریکِ انسدادِ سود پاکستان کی تنظیمِ نو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں شبانِ ختمِ نبوت کے زیراہتمام منعقد ہونے والے کل جماعتی اجلاس میں تحریکِ انسدادِ سود پاکستان کے کنوینر مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ نئی آئینی ترمیم میں سودی نظام کے خاتمہ کے لیے ۳۱ دسمبر ۲۰۲۷ء کو آخری تاریخ طے ہونے پر ہمیں خوشی ہے کہ دستوری طور پر حکومت کو پابند کر دیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جنوری ۲۰۲۵ء

صحابہ کرامؓ کے طبعی ذوق اور میلان

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں مختلف ذوق ودیعت فرمائے تھے جو آگے چل کر امت میں مستقل طبقات کی بنیاد بنے ہیں۔ آج جو دین کے مختلف بیسیوں شعبے نظر آ رہے ہیں، کوئی کسی شعبے میں کام کر رہا ہے اور کوئی کسی شعبے میں، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکوینی تقسیم صحابہ کرامؓ کے دور میں ہو گئی تھی۔ اور صحابہ کرامؓ میں سے مختلف حضرات کے مختلف ذوق آگے چلتے چلتے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۶ء

میسج ٹی وی کے محمد بلال فاروقی کا انٹرویو

پہلی بات تو یہ ہے کہ تمام حملوں کے پیچھے مسلمان نہیں ہیں۔ میں یہاں پاپائے روم کی بات دہرانا چاہوں گا، پوپ فرانسس سے پوچھا گیا کہ دہشت گردی اور اسلام کا کیا تعلق ہے؟ انہوں نے کہا دہشت گرد ہر مذہب میں موجود ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے وہاں اظہار کرتے ہیں، اس لیے اسلام اور دہشت گردی کو جوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس حوالے سے میرا جواب بھی وہی ہے جو پاپائے روم کا ہے، پوپ فرانسس کا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اگست ۲۰۱۶ء

دی پاکستان ڈیلی کے قمر زمان بھٹی کا انٹرویو

گزارش یہ ہے کہ امارتِ اسلامی افغانستان جب سے قائم ہوئی ہے الحمد للہ انہوں نے افغانستان میں امن بھی قائم کیا ہے اور افغانستان میں تمام طبقوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، ان کی پوری کوشش ہے اور ان کا اعلان بھی ہے کہ دنیا کے ساتھ چلیں گے۔ لیکن گزارش یہ ہے کہ ان کے ساتھ اس وقت ہمارے خیال سے ناانصافی ہو رہی ہے: ایک تو امریکہ جب گیا ہے تو آٹھ مہینے کی تنخواہیں ان کے کھاتے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ جنوری ۲۰۲۲ء

اسلامی نظام کی برکات

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں مبارک باد دیتا ہوں سب سے پہلے ان طلباء کو جو درس نظامی کی تکمیل کر رہے ہیں اور دعاگو ہوں۔ یہاں پہلے بھی کئی بار حاضری کا اتفاق ہوا ہے لیکن وہ چہرے اب مجھے نظر نہیں آ رہے۔ حضرت مولانا قاری سعید الرحمٰن، مولانا محمد صابر، مولانا عبد السلام رحمہم اللہ تعالیٰ، یہ ان کا صدقہ جاریہ ہے، اللہ تعالیٰ قیامت تک اس سلسلہ کو جاری رکھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ مئی ۲۰۱۳ء

علم کا ذوق اور استاذ کا ادب

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور حضرت میمونہؓ کے بھانجے تھے۔ ان کا لقب ترجمان القرآن اور رأس المفسرین تھا۔ چودہ سال کی عمر میں مفسرین کے سردار بن گئے تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں اکابر صحابہ کے ساتھ مشورے میں بیٹھتے تھے، اس وقت ان کی عمر اکیس سال تھی۔ امام بخاریؓ نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ان کو بچہ سمجھ کر کچھ بزرگوں نے محسوس کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ اپریل ۱۹۹۹ء

شرعی اجتہاد اور صوابدیدی اجتہاد

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یہاں کبھی کبھی حاضری ہوتی ہے اور میں اس نیت سے آتا ہوں کہ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے ساتھ نسبت تازہ ہو جاتی ہے، یہاں کے اساتذہ سے ملاقات اور طلبہ کی زیارت ہو جاتی ہے اور کچھ باتیں عرض کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اساتذہ کرام کی مہربانی ہے کہ وہ یاد کراتے رہتے ہیں کہ آنا ہے۔ کوئی متعین ایجنڈا نہیں ہے، کسی نہ کسی موضوع پر آج کے حالات کے تناظر میں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ ستمبر ۲۰۲۴ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter