ٹویٹس

۱۴ فروری ۲۰۲۴ء

الیکشن کے نتائج میری توقع کے خلاف نہیں ہیں لیکن چونکہ یہ دینی جماعتوں کی اپنی غفلت اور بے تدبیری کا نتیجہ ہیں اس لئے اس کی تلافی باہمی میل جول اور حسن تدبیر سے ہو سکتی ہے۔

۱۰ فروری ۲۰۲۴ء

انتخابات میں تنہا قسمت آزمائی کرنے والی دینی جماعتوں کی نذر ؎

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گُل پکار میں چلاؤں ہائے دِل

۴ فروری ۲۰۲۴ء

عدت کے اندر نکاح کے بارے میں عدالتی فیصلہ کے حوالے سے ذمہ دار مفتیان کرام کی شرعی رائے سامنے آنا ضروری ہے، یہ سنجیدہ مسئلہ ہے اسے سوشل میڈیا کے غیر سنجیدہ اکھاڑے کا موضوع بنانا ٹھیک نہیں۔

۳۰ جنوری ۲۰۲۴ء

تمام محب وطن جماعتوں سے اپیل ہے کہ وطن عزیز کے نظریاتی تشخص، ریاستی خودمختاری، ملکی سالمیت، قومی وحدت، دستوروقانون کی بالادستی، اسلامی تعلیمات کی عملداری اور مسلم معاشرت کے تحفظ کو ترجیحات میں اولیت دیں اورانتخابی امیدواروں سے ان امور کی پاسداری کی تحریری یقین دہانی کااہتمام کریں۔

۲۶ جنوری ۲۰۲۴ء

دینی جماعتوں کی سیاسی پرواز کا منظر قابل دید ہے کہ سب سے کہہ دیا گیا ہے کہ الیکشن لڑو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور بہت سی دینی جماعتیں اسی خوشی میں مگن آٹھ فروری کے بعد اقتدار سنبھالنے کے نشے میں سرشار اس کی تیاریوں میں مصروف ہیں، فیا للعجب!

۲۵ جنوری ۲۰۲۴ء

عرب حکمرانوں نے گذشتہ ایک صدی سے معاشی و سیاسی و عسکری میدانوں میں خود کو اسرائیل کے سرپرستوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے، وہ اس بے بسی اور رسوائی کے ماحول میں بھی عرب قومیت کے خیمے سے نکلنے اور دنیائے اسلام کے وسیع تر تناظر میں دوستوں اور دشمنوں کا فرق کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

۲۴ جنوری ۲۰۲۴ء

امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں ’’عالمی پولیس مین‘‘ کا کردار سنبھالنے کے بعد جاپان، تائیوان، کوریا، ویتنام، بوسنیا، فلسطین، صومالیہ، افغانستان، عراق، شام اور دنیا کے دیگر خطوں میں جو کردار اس حیثیت سے سر انجام دیا ہے وہ کس سے مخفی ہے؟

۱۹ جنوری ۲۰۲۴ء

دین اوردنیا کی تقسیم کا ہمارے ہاں پایا جانے والا تصور درست نہیں ہے۔ اسلام دین اوردنیا دونوں کو بہتر بنانے کی تلقین کرتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی جائز کام نیک نیتی کیساتھ صحیح طریقے سے کیا جائے تو وہ دین ہے۔ اور دین کا کوئی بھی کام نیت کی خرابی کیساتھ انجام دیا جائے تو وہ دنیاداری ہے۔

۱۸ جنوری ۲۰۲۴ء

ایران کی عسکری جارحیت کا فوری جواب قومی حمیت اور پاک فوج کی مستعدی کی علامت ہے، البتہ اس بارے میں عالمی قوتوں کی باہمی کشمکش اور بین الاقوامی ایجنڈوں پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے جو خطے کی صورتحال تبدیل کرنے کیلئے مداخلت کے مواقع کی تلاش میں ہیں۔

۱۶ جنوری ۲۰۲۴ء

آج ہماری معاشرتی روایات اور خاندانی اقدار میں اسلامی تعلیمات کا حصہ کم ہے اور علاقائی ثقافتوں کی نمائندگی زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے ہم انہی علاقائی ثقافتوں کی مروجہ اقدار کو اسلامی اقدار کا نام دے کر ان کا تحفظ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

۱۴ جنوری ۲۰۲۴ء

آرمی چیف صاحب کے دورہ امریکہ اور مولانا فضل الرحمان کے دورہ افغانستان کے بعد علاقائی صورتحال میں متوقع تبدیلیاں محب وطن حلقوں اور دینی و سیاسی راہنماؤں کی سنجیدہ توجہ چاہتی ہیں۔

۱۱ جنوری ۲۰۲۴ء

غزہ میں جاری اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت اور سنگین جنگی جرائم کے خلاف جنوبی افریقہ کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں شروع ہو چکا ہے، ہر انصاف پسند کو اس موقع پر جنوبی افریقہ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔

۹ جنوری ۲۰۲۴ء

ہماری بے بسی اور مجبوری کے اسباب کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سرفہرست دکھائی دیتی ہے کہ امیر ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضے ہمارے لیے وبال جان بن گئے ہیں اور قرضوں کے اس خوفناک جال نے ہماری معیشت کے ساتھ ساتھ قومی پالیسیوں اور ملی مفادات کو بھی جکڑ لیا ہے۔

۴ جنوری ۲۰۲۴ء

عام انتخابات سر پر آگئے ہیں مگر الیکشن میں حصہ لینے والی دینی جماعتوں میں کوئی باہمی رابطہ نہیں ہے، ان کے قائدین فوری مل بیٹھ کر کوئی مشترکہ ضابطۂ اخلاق ہی طے کر لیں تو بہت سے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

۳۰ دسمبر ۲۰۲۳ء

جغرافیائی سالمیت، قومی وحدت و خودمختاری، نظریاتی و تہذیبی تشخص، دستور کی بالادستی، یہ ریاست کے بنیادی ستون ہیں ان میں کسی کی اہمیت کو نظر انداز کرنا ریاست کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔

۲۸ دسمبر ۲۰۲۳ء

عزیزم عمار خان نے میرا خط اور اپنا جواب نشر کر دیا جو میرے خیال میں قبل از وقت تھا، جبکہ یار لوگوں نے ’’کل اناء یترشح بما فیہ‘‘ کا سماں باندھ دیا ہے۔ ابھی مشاورت کے درجہ کی بات ہے کوئی تبدیلی ضروری ہوئی تو اگلے تعلیمی سال کی ترتیب میں اس کا اعلان کر دیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۲۷ دسمبر ۲۰۲۳ء

’’جان کی امان پاؤں‘‘ کی تمہید کے ساتھ گزارش ہے کہ اگر اپنے تمام تر ضعف و اضمحلال کے باوجود افغان قوم اپنی اسلامیت اور خود مختاری کا پرچم سربلند رکھ سکتی ہے تو پاکستانی قوم کو اس سے دور رکھنے کے لیے خود اس کی اپنی مقتدرہ کیوں رکاوٹ بنی ہوئی ہے؟

۲۲ دسمبر ۲۰۲۳ء

وحدتِ امت ہماری سب سے بڑی ملی ضرورت ہے کہ عالمِ اسلام جن مسائل اور مصائب کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اس سے نکلنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور صورتحال یہ ہے کہ ہمیں لڑانے والے ہوشیار ہیں، طاقتور ہیں، اور مسلسل متحرک ہیں۔ جبکہ وحدت کی بات کرنے والوں کی آواز کہیں مؤثر نہیں ہو پا رہی۔

۲۱ دسمبر ۲۰۲۳ء

قومی سیاست ’’ہنگ الیکشن‘‘ کی طرف بڑھتی دکھائی دے رہی ہے، اسلام اور جمہوریت دونوں حوالوں سے خدشات سامنے آ رہے ہیں

؏ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟

۱۸ دسمبر ۲۰۲۳ء

مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات کرنے والے یہ نہ بھولیں کہ اس کا اگلا مرحلہ مسئلہ کشمیر کے تین ریاستی حل کا فارمولا ہوگا اور ریاست جموں و کشمیر کی جغرافیائی وحدت کے موقف پر قائم رہنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔

۱۴ دسمبر ۲۰۲۳ء

اسلامی جمہوریہ پاکستان کو نظریۂ پاکستان، قائد اعظم کے وژن، اور دستور کے مطابق چلانے کی بجائے طالع آزماؤں کے ذریعے بیرونی ایجنڈوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے، اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔

۸ دسمبر ۲۰۲۳ء

ڈنمارک کی پارلیمنٹ میں قرآن کریم کی بے حرمتی کو قابل سزا جرم قرار دینے کے قانون کی منظوری اس مسلّمہ اصول کی کامیابی ہے کہ مقدس شخصیات، مقامات اور کتابوں کی توہین آزادئ رائے نہیں بلکہ جرائم میں شمار ہوتی ہے جس پر ڈنمارک کی پارلیمنٹ شکریہ کی مستحق ہے۔

۶ دسمبر ۲۰۲۳ء

اقوام متحدہ اور تقسیمِ فلسطین کو قبول کرنے والے ممالک دو ریاستی حل کی بات کر رہے ہیں مگر انہوں نے عملاً ڈیڑھ ریاستی فارمولا مسلط کر رکھا ہے کہ فلسطین کے خود مختار ریاست بننے میں خود رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اسے دھاندلی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟

۲ دسمبر ۲۰۲۳ء

آئی ایم ایف کے تقاضے پر اسٹیٹ بینک کے بعد (۱) پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (۲) نیشنل ہائی وے اتھارٹی (۳) پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن اور (۴) پاکستان پوسٹ آفس کو خسارے کے نام پر سرکاری کنٹرول سے آزاد کرنا ملکی مفادکا تقاضہ ہے یا آج کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامنے سرتسلیم خم کرناہے؟

۳۰ نومبر ۲۰۲۳ء

غزہ کے بدحال اور بے گھر فلسطینیوں کیلئے اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیاں قابل تحسین ہیں لیکن اصل ضرورت امت مسلمہ کے جغرافیائی مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کی ہے جس کے بغیر اس عالمی ادارے کی ساکھ بحال ہونے کا کوئی امکان نہیں نظر نہیں آتا۔

۲۸ نومبر ۲۰۲۳ء

اقوام متحدہ اگر اپنی ہی قراردادوں اور رپورٹوں کی پاسداری نہیں کر سکتی تو اسے ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کی طرح میدان سے ہٹ جانا چاہیئے اور انصاف کے نام پر دھاندلی کے ڈرامے بند کر دینے چاہئیں۔

۲۴ نومبر ۲۰۲۳ء

صدر پاکستان عارف علوی صاحب کی طرف سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کے اس دوٹوک اعلان کے خلاف ہے کہ ’’اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔

۲۰ نومبر ۲۰۲۳ء

الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد دینی جماعتوں کی قیادتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مذہبی ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچانے کیلئے باہم مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالیں۔

۱۲ نومبر ۲۰۲۳ء

سعودی دارالحکومت ریاض میں مسئلہ فلسطین پر مسلم سربراہ کانفرنس کا اعلامیہ امت مسلمہ کے دل کی آواز ہے، اس کی تائید کے ساتھ اس پر عملدرآمد کی راہ ہموار کرنے کیلئے دنیا بھر میں منظم اور مربوط جدوجہد کی ضرورت ہے ورنہ اعلامیے اس سے پہلے بہت جاری ہو چکے ہیں۔

۱۰ نومبر ۲۰۲۳ء

وزیر اعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ اسرائیل فرعون کے نقش قدم پر چل رہا ہے اسلامی دنیا توجہ دے۔ وزیراعظم محترم سے مؤدبانہ سوال ہے کہ وہ اپنی پوزیشن بھی واضح کریں کہ ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت اور لاکھوں افغان مہاجرین کی جبری رخصتی کے اس ماحول میں وہ کس کیمپ میں کھڑے ہیں؟

۳ نومبر ۲۰۲۳ء

مکی زندگی میں نبی ﷺ کی دعوت سے توجہ ہٹانے کیلئے ناچ گانے کی محفلیں سجائی گئی تھیں جسے قرآن کریم نے لہوالحدیث کہا ہے اور ان پروگراموں کے پروڈیوسر کے طور پر نضر بن حارث کا نام آتا ہے، ہماری قومی و ملی صورتحال خصوصاً‌ مسئلہ فلسطین سے توجہ ہٹانے کیلئے وہی حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔

۲ نومبر ۲۰۲۳ء

فلسطینی محصورین پر وحشیانہ کاروائیوں کے خلاف احتجاجاً اسرائیل سے اردن اور دیگر ممالک کا اپنے سفیروں کو واپس بلانے کا اعلان خوش آئند اور لائق پیروی ہے، مسلم اور عرب حکومتوں کی کم از کم یہ ذمہ داری تو بنتی ہے۔

۲ نومبر ۲۰۲۳ء

اسرائیل کے ہاتھوں تباہ حال فلسطینیوں کو عرب ممالک میں تقسیم کرنے کی تجویز کا اس کے سوا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ اسرائیل باقی ماندہ فلسطین پر بھی قبضہ کر لے۔ ایک عرب صحافی نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ اس طرح کی تجویز دینے والے مغربی ممالک اسرائیلیوں کو اپنے ہاں کیوں نہیں لے جاتے؟

یکم نومبر ۲۰۲۳ء

اسرائیلی وزیراعظم کی طرف سے مصر کیلئے ایک پیشکش سامنے آئی ہے کہ وہ فلسطینی باشندوں کو قبول کرلے تو اس کے عالمی قرض کا بڑا حصہ معاف کرا دیا جائے گا۔ ہماری عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم سے گزارش ہے کہ وہ اس بارے میں غیرت مندانہ ردعمل کے اظہار کے ساتھ اپنا اصولی موقف بھی واضح کریں۔

۲۴ اکتوبر ۲۰۲۳ء

حماس سے رہائی کے بعد ایک یرغمالی خاتون نے کہا ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ کیا یہ وہی حماس ہے جس پر چودہ سو سے زائد عام اسرائیلی شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام ہے؟

۲۰ اکتوبر ۲۰۲۳ء

فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور پشت پناہی کے ساتھ ساتھ ان کی بھرپور امداد بھی ضروری ہے مگر اس کیلئے فلسطینی سفارتخانہ یا کوئی مسلمہ بین الاقوامی مسلم ادارہ ہی با اعتماد اور محفوظ راستہ ہو گا۔

۱۶ اکتوبر ۲۰۲۳ء

اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے آگے بڑھنے والے قدم اگر رک گئے ہیں تو ہمارے خیال میں فلسطینی جانبازوں کے بہتے ہوئے خون نے ایک بڑا مقصد حاصل کر لیا ہے، دعا کریں اللہ تعالیٰ اگلی آزمائش میں بھی سرخروئی نصیب فرمائے، آمین یا رب العالمین

۱۲ اکتوبر ۲۰۲۳ء

مقبوضہ علاقوں کی واپسی کیلئے وہاں کے باشندوں کی جدوجہد جنگِ آزادی ہوتی ہے، حماس کے معرکۂ حریت کو کوئی اور رنگ دینا حریت اور تاریخ کے ساتھ شدید نا انصافی ہو گی۔

۱۰ اکتوبر ۲۰۲۳ء

ہماری اصل ضرورت ایسی قومی قیادت ہے جس کے گرد کسی مراعات یافتہ طبقہ کے مفادات و ترجیحات کا حصار نہ ہو اور وہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قومی معیشت کو عالمی استحصالی شکنجے سے نجات دلا کر سادہ، فطری اور متوازن اسلامی اصولوں کی شاہراہ پر ڈال سکے۔

۸ اکتوبر ۲۰۲۳ء

امارت اسلامی افغانستان کی طرف سے فلسطینیوں کے موقف کی دوٹوک حمایت ملت اسلامیہ کے جذبات کی بروقت ترجمانی ہے۔ اور دیگر مسلم حکمرانوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ مصلحت کوشی سے گریز کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے اپنے ملی موقف کا اعادہ کریں۔

۶ اکتوبر ۲۰۲۳ء

غیر قانونی طور پر مقیم لوگوں کو ملک سے نکالنے والوں کو دستور کا انکار کرنے والے اور وطنِ عزیز کے خلاف عالمی محاذ آرائی کرنے والے آج تک کیوں نظر نہیں آئے؟ دستور سے بغاوت قانون شکنی سے بہرحال بڑا جرم ہے۔

۲۸ ستمبر ۲۰۲۳ء

فری سوسائٹی کا فلسفہ، جس پر مغربی تہذیب کی عمارت استوار ہے، حلال و حرام کے تمام دائرے توڑ کر جس انتہا کو پہنچ چکا ہے اس کا اندازہ مغربی ممالک کی اسمبلیوں اور عدالتوں کے فیصلوں سے کیا سکتا ہے جو ربع صدی سے مسلسل سامنے آرہے ہیں، اور افسوس یہ کہ ان کی تائید اب چرچ کی طرف سے ہو رہی ہے۔

۲۶ ستمبر ۲۰۲۳ء

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کے خطاب کے حوالہ سے گزارش ہے کہ وہ اسلامی تشخص اور وقار کے ساتھ ساتھ کشمیر، فلسطین اور برما وغیرہ خطوں کے مظلوم مسلمانوں کی آزادی و بحالی کیلئے اسلامی تعاون تنظیم کو متحرک اور مؤثر بنانے کیلئے بھی کردار ادا کریں۔

۲۱ ستمبر ۲۰۲۳ء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ نسبت اور محبت کے اظہار کیلئے ضروری ہے، برکت اور رحمت کے حصول کیلئے ضروری ہے، اور سب سے بڑھ کر راہنمائی اور اطاعت کیلئے ضروری ہے کیونکہ ایک مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کر کے ہی اللہ تعالیٰ کی رضا اور رحمتوں کا حقدار بنتا ہے۔

۱۶ ستمبر ۲۰۲۳ء

تحریکِ پاکستان کے ممتاز راہنما قاضی محمد عیسٰی مرحوم کے فرزند قاضی فائز عیسٰی کو چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب مبارک ہو۔ اللہ کرے کہ ان کا دور قیامِ پاکستان کے مقاصد کی طرف پیشرفت کا دور ثابت ہو، آمین۔

۱۳ ستمبر ۲۰۲۳ء

اس سوال سے قطع نظر کہ یہ ان کی ڈیوٹی اور اتھارٹی میں شامل ہے یا نہیں مگر آرمی چیف قومی معیشت کے حوالہ سے جو کچھ کرتے دکھائی دے رہے ہیں اس پر ان کی کامیابی کیلئے دل مسلسل دعاگو ہے۔

۲ ستمبر ۲۰۲۳ء

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنے ملک میں بسنے والے اڑھائی کروڑ مسلمانوں کیلئے اسلامی بینکاری کا عملاً آغاز کر کے بتایا ہے کہ اسلامی قوانین آج بھی معاشرے کی ضرورت اور قابل عمل ہیں، کاش یہ بات مسلم حکمران بھی سمجھ سکیں۔

۲۹ اگست ۲۰۲۳ء

یہ کہنا کہ تحریک پاکستان کے قائدین نے قیام پاکستان سے قبل اپنے بیانات و خطابات میں نظریہ پاکستان اور اسلامی رفاہی ریاست کی باتیں محض مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کی تھیں، خلافِ واقعہ ہونے کے ساتھ ساتھ قائد اعظم مرحوم اور ان کے رفقاء کے بارے میں بدگمانی کا اظہار بھی ہے۔

۲۳ اگست ۲۰۲۳ء

کسی واقعہ پر فوری اشتعال میں آنا اور سوچے سمجھے بغیر بہت کچھ کر گزرنا ہمارے معاشرتی مزاج کا حصہ بن گیا ہے اور ایسے متعدد واقعات ہمارے ہاں ہو چکے ہیں جبکہ یہ قرآن کریم کے اس ارشاد کے منافی ہے ’’فتبینوا ان تصیبوا قوما بجہالۃ فتصبحوا علیٰ ما فعلتم نادمین‘‘ (الحجرات ۶)

۱۰ اگست ۲۰۲۳ء

اسلامی جمہوریہ پاکستان اور امارت اسلامی افغانستان کو باہمی مفادات و ضروریات اور مشکلات کا ادراک کر کے اپنے تعلقات کو برادرانہ طور پر آگے بڑھانا چاہیئے، لیکن اس سے پہلے دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنے والی عالمی گیموں سے بچنے کا اہتمام بہت ضروری ہے۔

Pages

2016ء سے
Flag Counter