مولانا فضل الرحمٰن پر اعتراض کرنے والے اور ان سے امیدیں وابستہ رکھنے والے حضرات یہ مت بھولیں کہ انہیں بھی اسی نظام سے سابقہ ہے جس میں دستور کی بالادستی، قومی خودمختاری، یا نفاذِ اسلام کے کسی فیصلے نے جب بھی ’’ریڈ لائن‘‘ کراس کرنے کی کوشش کی وہ کسی نہ کسی جال میں پھنس کر رہ گیا۔