افغانستان کی صورتحال اور ’’ہفتہ نامہ امید‘‘

   
تاریخ : 
۶ اگست ۲۰۰۹ء

گزشتہ روز مغرب کی نماز کے بعد دارالہدٰی (اسپرنگ فیلڈ، ورجینیا، امریکہ) میں مختصر درسِ حدیث دینے کے بعد سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کے ہاں کھانا کھانے کے لیے جا رہا تھا کہ میزبان نے ایک افغان سٹور کے پاس گاڑی روک لی اور کہا کہ روٹیاں یہاں سے لیتے ہیں ان کی روٹی بہت اچھی ہوتی ہے۔ مجھے اپنے ہاں کے افغانی تندور یاد آگئے کہ ہمارے ہاں بھی افغانیوں کی روٹی زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ میں بھی ساتھ اتر گیا کہ افغان سٹور دیکھ لوں۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی ایک طرف ریک پر اخبار پڑا نظر آگیا اور میری نظر وہیں رک گئی۔

یہاں اس طرح کے اخبار سٹوروں پر مفت تقسیم کے لیے رکھے ہوتے ہیں جن میں اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے لیکن بعض کام کی خبریں اور رپورٹیں بھی مل جاتی ہیں۔ اردو کے درجنوں اخبارات امریکہ کے مختلف شہروں سے شائع ہوتے ہیں اور ان سٹوروں کے علاوہ مساجد میں جمعہ کی نماز کے بعد تقسیم ہوتے ہیں۔ میں عام طور پر ان اخبارات کو ایک نظر ڈالنے کے لیے اٹھا لیتا ہوں اور اپنے مطلب کی خبریں اور مضامین الگ کر کے محفوظ کر لیتا ہوں۔

یہ ہفت روزہ اخبار فارسی زبان میں ہے جو ’’ہفتہ نامہ امید‘‘ کے نام سے واشنگٹن کے الیگزینڈریا (ورجینیا) سے شائع ہوتا ہے۔ محمد قوی کوشان اس کے مدیر مسئول اور ناشر ہیں۔ ہمارے ہاں کے ہفتہ وار میگزین کے سائز کے بارہ صفحات پر مشتمل یہ شمارہ ۲۷ جولائی ۲۰۰۹ء کا ہے اور اس کا شمارہ نمبر ۸۵۱ ہے۔ بارہ صفحات میں سے کم و بیش ساڑھے چار صفحات اشتہارات پر مشتمل ہیں، باقی صفحات میں افغانستان کی خبریں اور وہاں کے حالات کے جائزہ پر مشتمل مضامین اور رپورٹیں اچھی ترتیب کے ساتھ پیش کی گئی ہیں جن سے افغانستان کی عمومی صورتحال ایک حد تک قاری کے سامنے آجاتی ہے۔ پورے اخبار میں پاکستان کی ایک ہی خبر ہے جو مولانا صوفی محمد کی گرفتاری کے بارے میں ہے، باقی تمام خبریں اور مضامین افغانستان سے متعلق ہیں۔ اپنے مواد اور ترتیب کے حوالے سے مجھے یہ ایک مکمل اخبار محسوس ہوا اور بہت اچھا لگا، اس لیے اپنے اس تاثر اور استفادہ میں قارئین کو شریک کرنا بھی میں نے مناسب خیال کیا ہے۔

’’ہفتہ نامہ امید‘‘ کے صفحہ چہارم پر افغانستان میں والی بال کے کھیل کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے اور صفحۂ اول پر افغانستان کی ایک قومی والی بال ٹیم کا گروپ فوٹو شائع کیا گیا ہے جس نے ۱۹۵۴ء کے دوران بھارت کے شہر کلکتہ میں ہونے والے والی بال مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ صفحۂ اول پر ہی افغانستان کے صدارتی انتخابات کے ایک امیدوار ڈاکٹر عبد اللہ کی حمایت میں چاریکار میں جمع ہونے والے ہزاروں افراد کے ہجوم کی فوٹو شائع کی گئی ہے جو ڈاکٹر عبد اللہ کی پگڑی والی تصویر اٹھائے ان کے حق میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اخبار میں جناب سرور کائناتؐ کے واقعۂ معراج کے بارے میں دو فارسی نظمیں شائع ہوئی ہیں، ایک محمد طہ کوشان کی ہے جس کا مطلع یہ ہے:

شبے کہ صاحب دل ہا بداد مہمانی
برآں بلندی بارگاہ عرش رحمانی

جبکہ دوسری نظم عبد الحی آرین پور کی ہے جو نعت نبویؐ کے معروف و مشہور شعر:

حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

کی تضمین لگتی ہے اور اس کے چند اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔

خلق خوش، دست کرم، صلہ رحم و ارفاق
ہمہ اسباب بزرگی تو مہیا داری
اے بہ آل تو و اصحاب درود و سلام
امتاں را بہ دل و دیدہ تو مادی داری
یار غارہؓ و عمرؓ و عثمانؓ و علیؓ یارنت
بہترین ہمہ و افضل آنہا داری
دوست داران حضورت بہ شفاعت بنواز
تو کہ با دشمن خود حلم و مدارا داری

اس شمارہ میں جناب عبد القدیر خالق ہروی کے شعری مجموعۂ کلام ’’دردِ دل‘‘ پر پروفیسر ڈاکٹر لطیفی کا خوبصورت تبصرہ بھی شامل اشاعت ہے جس کا آغاز ان دو شعروں سے کیا گیا ہے:

تاخیل رقیباں را در کوئے تو می بینم
در دیدہ خلد ہر دم صدخار مغیلانم
در رہگزرت جاناں یعقوب صفت فائق
بیت الحزنی دارد ای یوسف کنعانم

افغانستان کے لیے صدر امریکہ باراک اوباما کے خصوصی نمائندہ ہالبروک کی افغان علماء کرام کی مجلس شوریٰ کے سربراہ مولوی فضل ہادی شنواری کے ساتھ ملاقات کی رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس میں ملاشنواری نے امریکی رہنما سے شکوہ کیا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی نے سات سال قبل مخالف افغان گروپوں کے ساتھ مصالحت کے لیے جس سلسلہ جنبانی کا آغاز کیا تھا امریکہ نے اس کی حمایت نہیں کی تھی اور اس کو سپورٹ نہیں کیا تھا، جبکہ افغانستان کے مسئلہ کے حل کے لیے یہ ضروری ہے۔ اس لیے افغانستان کے انتخابات کے بعد نئی حکومت کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ مخالف گروپوں کے ساتھ صلح کے لیے مذاکرات کر سکے، امریکہ کو ان مذاکرات کی حمایت کرنی چاہیے۔ اس کے جواب میں ہالبروک نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ انتخابات کے بعد مخالف گروپوں کے ساتھ مصالحت کے لیے گفتگو کا آغاز کیا جائے گا۔ ہالبروک نے یہ بھی کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ مذاکرات افغانوں کے اپنے طریقے کے مطابق ہوں اور بیرونی قوتیں ان میں صرف معاون کا کردار ادا کریں۔

ہفتہ نامہ امید میں کیلی فورنیا میں مقیم ایک افغان دانشور عبد الودود ظفری کا دلچسپ تجزیاتی مضمون ’’افغانستان، ویتنام، اوباما‘‘ کے عنوان سے قسط وار شائع ہو رہا ہے جس کی ایک قسط اس شمارے میں موجود ہے، اس میں افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ویتنام کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے:

  • مضمون نگار کا کہنا ہے کہ نتائج بھی اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔
  • عبد الودود ظفر لکھتے ہیں کہ افغانستان کے عوام ویتنام کے عوام کی طرح ہی ہیں کہ جس طرح وہ اپنی حکومت کو ایک طرح کی استبدادی حکومت سمجھتے ہوئے اس سے خوف کھاتے تھے، انہیں اس سے وحشت تھی، اسے اپنی خیرخواہ حکومت تصور نہیں کرتے تھے۔ ویتنام کے عوام بھی اپنے اصحابِ اقتدار کے طرز حکومت کے باعث ہراس میں مبتلا تھے اور وہ اسے دشمن کی حکومت یا دشمن کی خیرخواہ حکومت سمجھتے ہوئے امریکی طاقت کے سامنے دبے ہوئے تھے۔ اسی طرح کا خوف اور نا امیدی اس وقت افغانستان میں موجود ہے۔ جس وقت نائن الیون کے واقعہ کے بعد طالبان تیزی سے پسپا ہوگئے تھے افغان عوام نے اس امید پر امریکہ کو خوش آمدید کہا تھا کہ وہ ان کے شہروں کی آبادی واپس لائے گا، دفتری نظام کو بحال کرے گا اور ان کی معیشت و اقتصاد کو ازسرنو استوار کرے گا۔ لیکن یہ امید اور خوش فہمی اب نا امیدی بلکہ پریشانی کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ افغانستان میں روس کے سفیر جناب ضمیر کابلوف نے یہ سوال کیا ہے کہ افغان عوام کو اتحادی افواج کی آمد سے کیا حاصل ہوا ہے؟ لوگ جس طرح پہلے فقر و تنگدستی کا شکار تھے اب بھی اسی طرح نادار و فقیر ہیں اور اس کے ساتھ بمباری کا نشانہ بھی بن رہے ہیں۔
  • مضمون میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان کے ۷۲ فیصد علاقے میں طالبان مستقل طور پر موجود ہیں جبکہ یہ تناسب صرف ایک سال قبل ۵۴ فیصد تھا۔ نیز طالبان اب کابل کی طرف پیش قدمی کی پوزیشن میں بھی ہیں جبکہ کابل کی طرف جانے والی بڑی شاہراہوں میں سے تین اس وقت طالبان کے زیر اثر ہیں، صرف ایک بڑی شاہراہ ان کے اثر و نفوذ سے خالی ہے۔
  • عبد الودود ظفری کا کہنا ہے کہ طالبان اور ویتنام میں البتہ یہ فرق ضرور نظر آتا ہے کہ ویت نام نے امریکی فوجوں کے خلاف جنگ قوم کے عنوان سے لڑی ہے مگر طالبان نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن ویتنام کی بہ نسبت طالبان کو ایک سہولت ایسی حاصل ہے جو ویتنام کو میسر نہیں تھی کہ افغانستان میں پوست کی کاشت جو دنیا میں پوست کی مجموعی پیداوار کا ۹۳ فیصد ہے، وہ بڑھ رہی ہے بلکہ اب دوگنا ہوگئی ہے۔ جبکہ پوست کے کاشتکار جب تک اس بات کا اطمینان حاصل نہ کر لیں کہ طالبان اب دوبارہ نہیں آئیں گے، پوست کی کاشت سے باز آنے والے نہیں ہیں اور یہ بات طالبان کے حق میں جا رہی ہے۔
  • مضمون میں ’’نیوز ویک‘‘ کے حوالے سے یہ بتایا گیا ہے کہ امریکی رائے عامہ افغان جنگ کو مزید بڑھانے کے حق میں نہیں ہے۔ ایک سروے کے مطابق ۷۱ فیصد امریکی عوام کی رائے یہ ہے کہ صدر اوباما کو امریکی معیشت کی بحالی کی طرف توجہ دینی چاہیے، جبکہ ۲۸ فیصد امریکی افغان جنگ میں مزید پیش رفت کی حمایت کر رہے ہیں۔ دوسری طرف افغان رائے عامہ کا حال یہ ہے کہ عام انتخابات میں حصہ لینے والے بیشتر امیدوار اس جنگ کو ’’جنگ اوباما‘‘ قرار دے کر اس کی مذمت کر رہے ہیں۔
  • مضمون نگار نے اپنے اس تجزیے میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ یہ بات آسان نہیں ہے، امریکہ کے نکل جانے سے افغانستان کی کمزور حکومت ختم ہو جائے گی اور وہی کیفیت پیدا ہو جائے گی جو ۱۹۸۹ء میں سوویت افواج کی واپسی کے بعد رونما ہوئی تھی کہ افغانستان داخلی خانہ جنگی کا شکار ہوگیا تھا۔ پھر جنوبی افغانستان کے پشتون، شمال کے تاجکون کو، جو موجودہ حکومت میں مضبوط حیثیت رکھتے ہیں، اپنا دشمن تصور کریں گے۔۔۔ اور ایک احتمال یہ بھی ہے کہ پاکستان کی پشتیبانی سے وہ آگے آجائیں گے جو ظاہر ہے کہ طالبان ہی ہو سکتے ہیں۔

یہ ہے افغانستان کی صورتحال کے بارے میں ہفتہ نامہ امید کا پیش کردہ ایک ہلکا سا خاکہ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

   
2016ء سے
Flag Counter