لاہور کے بعض اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر سے ملک بھر کے دینی حلقوں میں غم و غصہ اور احتجاج و اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے کہ حکومت نے تمام دینی مدارس کو قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس خبر کے مطابق اصولی طور پر اس امر کا فیصلہ ہوچکا ہے اور اب صرف یہ بات فیصلہ طلب ہے کہ قومی تحویل میں لینے کے بعد دینی مدارس کا نظام وفاقی حکومت چلائے گی یا صوبائی حکومتوں کو یہ ذمہ داری قبول کرنا ہوگی؟ خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابتدائی مرحلہ میں پنجاب کے اڑھائی سو مدرسے قومیائے جائیں گے اور مدارس کو اول دوم اور سوم تین مدارج میں تقسیم کیا جائے گا جن پر علی الترتیب ایک لاکھ، ساٹھ ہزار اور تیس ہزار روپے خرچ کیے جائیں گے۔
جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے امیر حضرت مولانا عبید اللہ انور، جمعیۃ علماء پاکستان پنجاب کے صدر مولانا غلام علی اوکاڑوی، جمعیۃ اہل حدیث کے امیر مولانا معین الدین صاحب لکھنوی، اور نوابزادہ نصر اللہ خان صدر جمہوری پارٹی نے الگ الگ بیانات میں اس مبینہ فیصلہ کو دینی مدارس کی آزادی اور تقدس کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔
جمعیۃ طلباء اسلام کے قائم مقام صدر میاں محمد عارف اور جنرل سیکرٹری سید مطلوب علی زیدی نے بھی ایک مشترکہ بیان میں اس فیصلہ پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ دینی مدارس کے تقدس اور آزادی کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ۲۶ جنوری کو خیر المدارس ملتان میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ مکاتب فکر کے دینی مدارس کے منتظمین اور سرکردہ علماء کا ایک اجلاس طلب کر لیا گیا ہے جس میں اس خبر کی روشنی میں دینی مدارس کے آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں غور و خوض کیا جائے گا۔
دینی مدارس کے بارے میں یہ تجویز یا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے، مدت سے ’’اوپر کے حلقوں‘‘ میں یہ تجویز زیر غور تھی اور اب شاید دینی مدارس کی سرگرمیاں نازک مزاج شاہوں کی قوتِ برداشت کے لیے چیلنج کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہیں یا ان سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حالات سازگار نظر آرہے ہیں۔ اسی لیے بڑے طمطراق سے یہ خبر سرکردہ اخبارات کی زینت بنی ہے اور کم و بیش ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی سرکاری حلقوں کی طرف سے اس کی تردید یا وضاحت سامنے نہیں آئی۔
دینی مدارس کے خلاف اربابِ اقتدار کے غم و غصہ اور قومیانے کے فیصلے پر دینی حلقوں کے اضطراب و احتجاج کا جائزہ لینے کے لیے دینی مدارس کے موجودہ نظام کے پس منظر، ان کی خدمات اور ان کے فوائد و مضرات پر ایک نگاہ ڈالنا ضروری ہے تاکہ اس سلسلہ میں صحیح صورتِ حال قارئین کے سامنے آسکے۔
دینی مدارس کا موجودہ نظام دراصل فرنگی کی اس حکمت عملی کا ردعمل ہے جس کے تحت اس نے برصغیر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ان ہزاروں مدارس و مکاتب کو ختم کر دیا جن میں اسلامی علوم، قرآن و حدیث، فقہ و تاریخ اور اخلاق و روحانیات کی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی اور جن کا انتظام مغل بادشاہوں کی طرف سے عطا کردہ جاگیروں کی آمدنی سے چلتا تھا، اور اس سادہ و فطری نظام تعلیم کی جگہ لارڈ میکالے کا نظام تعلیم رائج کر دیا۔ فرنگی کا مقصد یہ تھا کہ ان قدیمی مدارس کے خاتمہ کے ذریعے آنے والی نسلوں کو اسلامی علوم و اقدار، تہذیب و ثقافت اور معاشرتی روایات کے اثرات سے محروم کیا جا سکے گا، اور نئے نظام تعلیم کے ذریعے خود لارڈ میکالے کے بقول نئی نسل کو نام کے مسلمان اور ذہن و قلب کے عیسائی بنایا جا سکے گا۔ اور اس طرح ایک عرصہ کے بعد برصغیر میں اسپین کی طرح کوئی بھی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والا باقی نہ رہے گا اور برٹش امپیریلزم (برطانوی سامراج) چین اور سکون سے برصغیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقتصادی لوٹ کھسوٹ اور سیاسی استحصال کی منڈی بنائے رکھے گا۔
بدقسمتی سے فرنگی کو اس حکمت عملی کی کامیابی کے لیے مسلمانوں کی فرنگی مارکہ نشاۃ ثانیہ کے علمبرداروں کی ’’بے لوث خدمات‘‘ بھی میسر آگئی تھیں جنہوں نے اسلامی علوم و اقدار کی بیخ کنی (العیاذ باللہ) کی خاطر خود فرنگیوں سے بھی بڑھ کر مخلصانہ خدمات سرانجام دیں۔
یہ اس دور کی بات ہے جب برصغیر میں موجود علماء کرام کی اکثریت ۱۸۵۷ء کی مقدس جنگ آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں عروس شہادت سے ہمکنار ہو چکی تھی اور آئندہ کھیپ کی تیاری کے تمام سرچشمے فرنگی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔ اس بھیانک دور میں اللہ تعالیٰ نے ایک مردِ درویش اور جنگ آزادی کے نامور مجاہد مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے دل میں یہ بات ڈالی اور انہوں نے امداد باہمی پر دیوبند کے قصبہ میں اپنے رفقاء کرام کے تعاون سے ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی جو آج ایشیا کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور دنیا اسے دارالعلوم دیوبند کے نام سے یاد کرتی ہے۔
اس مدرسہ کے بنیادی مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ اسے محض عوام کے چندے سے چلایا جائے گا، کوئی مستقل آمدنی نہیں ہوگی (حتیٰ کہ متعدد بار حکومتوں کی طرف سے معقول گرانٹ کی پیش کش مسترد کر دی گئی) اور اس میں پڑھنے والے طلبہ ملک میں مساجد و مدارس کے نظام اور دینی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے خدمات سر انجام دیں گے۔ (ایک بار نظام حیدر آباد نے پیش کش کی کہ دارالعلوم سے فارغ ہونے والے طلبہ کو وہ ملازمتیں مہیا کریں گے تو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے فرمایا تھا کہ ہم طلبہ کو نظام حیدر آباد کی حکومت کے کل پرزے بننے کے لیے نہیں بلکہ مساجد و مدارس کا نظام چلانے کے لیے تعلیم دیتے ہیں۔)
امداد باہمی کی بنیاد پر قائم ہونے والا یہ مدرسہ پورے برصغیر کے دینی حلقوں کے لیے مشعل راہ بنا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف دینی مدارس کا ایک جال پھیل گیا۔
فرنگی حکمت عملی کے مقابلے میں یہ حکمت عملی جسے امام ولی اللہ دہلوی کے خانوادۂ فکری کے عظیم سپوت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا نتیجۂ فکر ہونے کی مناسبت سے ولی اللہی حکمتِ عملی کہنا زیادہ موزوں ہوگا، کامیاب ہوئی اور برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں دینی علوم، روایات، اقدار، ثقافت اور معاشرت کو بوریا نشین ملاؤں نے نیست و نابود ہونے سے بچا لیا۔ امداد باہمی کی بنیاد پر قائم ہونے والے ان مدارس نے
- فرنگی کی فکری و تعلیمی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا اور فرنگی نظام تعلیم کے مقابلے میں دینی نظام تعلیم کو ایک طاقتور حریف کی حیثیت سے لا کھڑا کیا۔
- مدارس و مساجد کے نظام کو زندہ رکھنے کے لیے ہر دور میں علماء کرام کی تازہ بتازہ کھیپ مہیا کی۔
- فرنگی کے ظلم و جبر کے مقابلہ میں برصغیر کی تحریک آزادی کو فکری و عملی قیادت مہیا کی۔ آسمان حریت کے درخشندہ ستارے شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمدؒ مدنی، امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا منصور انصاریؒ، مولانا حفظ الرحمانؒ، مولانا مفتی کفایت اللہؒ، مولانا احمد سعیدؒ، قطب الاقطاب حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت دین پوریؒ، حضرت امروٹیؒ، مولانا عبد الرحیمؒ پوپلزئی، حضرت رائے پوریؒ، حضرت ہالیجویؒ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا محمد علی جالندھریؒ، قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ، مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ، مولانا محمد صادقؒ کراچی، مولانا سید گل بادشاہؒ مردان، مولانا محمد اسحاقؒ مانسہروی، امیر شریعت مولانا محمد عبد اللہ کشمیریؒ، اور دیگر مجاہدین آزادی انہی مدارس کے پروردہ تھے اور تحریک آزادی میں ان سرفروشوں کے فیصلہ کن قائدانہ کردار کو کوئی انصاف پسند مؤرخ نظر انداز نہیں کر سکتا۔
- ان مدارس نے مسلمانانِ ہند کی راسخ العقیدگی کو سبوتاژ کرنے کی فرنگی تحریکوں کا مقابلہ کیا۔ انکارِ ختم نبوت، انکارِ حدیث، انکارِ معجزات اور صحابہ کرامؓ و اسلافؓ سے مسلمانوں کے فکری اور عملی تعلق و اعتماد کو منقطع کرنے کی فرنگی تحریکوں کے سامنے یہ مدارس سدِ سکندری بن گئے اور مسلمانانِ ہند کی روایتی راسخ العقیدگی کا شاندار تحفظ کیا۔
- ان مدارس نے اسلامی وضع قطع، طرزِ معاشرت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور اسلاف کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی سنن و روایات، سادگی و کفایت شعاری اور جذبہ ایثار و قربانی کو زندہ رکھا۔ حتیٰ کہ آج پوری دنیائے اسلام میں علماء برصغیر کی اسلامی وضع قطع اور جذبہ جہد و عمل ایک مثال کا درجہ اختیار کر چکی ہے۔
- ان مدارس نے فرنگی تہذیب و ثقافت کے سیلاب میں بھی اسلامی تہذیب کے تشخص کو قائم رکھا چنانچہ آج بھی فرنگی تہذیب کے تابڑ توڑ حملوں کے سامنے اسلامی تہذیب ایک ناقابل شکست چٹان کی طرح کھڑی ہے۔
- ان مدارس نے علماء حق کی روایتی بے نیازی، جرأت و استقامت، ظلم و جبر سے ٹکرا جانے کے حوصلے اور مصائب کے طوفان میں بھی مسکرانے کی حیثیت کو زندہ رکھا اور ظلم و جبر کے مقابلے میں ہمیشہ ان مدارس کے پروردہ ’’ملاؤں‘‘ نے ہراول دستہ کا کردار ادا کیا۔
غرضیکہ ان مدارس نے برصغیر میں اسلامی علوم، اقدار، تہذیب اور معاشرت کو فرنگی حکمتِ عملی کا شکار ہونے سے بچا لیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فرنگی حکمت عملی صدیوں کی جدوجہد کے بعد بھی برصغیر خصوصاً پاکستان کی مسلم رائے عامہ کو قرآن و سنت کے عادلانہ نظام کے سوا کسی اور ازم اور نظام پر راضی نہیں کر سکی اور آج بھی پاکستان کے مسلمانوں کے دل صرف اسلام کے عادلانہ نظام کے لیے دھڑکتے ہیں۔
دینی مدارس کی ان عظیم دینی و ملی خدمات کے پس منظر میں علماء کرام کے اخلاص و ایثار اور مشنری جذبہ کے ساتھ یہ حقیقت بھی کارفرما ہے کہ یہ مدارس اپنی پالیسی، نظام او رطریق کار کے تعین میں ہمیشہ آزاد رہے ہیں اور کسی بھی دور میں حکمرانوں کے عمل و دخل کو ان مدارس نے قبول نہیں کیا۔ اسی آزادی کے باعث یہ مدارس فرنگی حکمت عملی کو واضح شکست دینے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج کے حکمرانوں نے اس آزادی کا استحصال کرنے اور دینی مدارس کی مؤثر کارکردگی کو عملاً سبوتاژ کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
اس پس منظر میں دینی مدارس کو قومی تحویل میں لینے کے فیصلہ کا اس کے سوا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ وہ مقاصد جو ان مدارس کے ذریعہ حاصل ہو رہے ہیں ختم ہو جائیں اور وہ مشن جو ان مدارس کے ذریعہ زندہ ہے موت کے گھاٹ اتر جائے۔ اس فیصلہ پر علماء کرام، طلبہ اور دینی حلقوں کے اضطراب کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔