اسامہ بن لادن کا نام سب سے پہلے جہاد افغانستان کے دوران خوست میں سنا تھا جہاں یاور کے مقام پر مجاہدین کی عسکری تربیت گاہ تھی ۔دنیا کے مختلف ممالک سے نوجوان جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر وہاں آتے اور چند دن ٹریننگ حاصل کرکے افغان مجاہدین کے ہمراہ روسی استعمار کے خلاف برسر پیکار ہوجاتے۔راقم الحروف کو متعدد بار حرکت الانصار کی ہائی کمان کی فرمائش پر ایسی تربیت گاہوں میں جانے کا موقع ملا ۔میرے جیسے لوگ وہاں جاکر عملا تو کچھ نہیں کرپاتے مگر مجاہدین کا خیال تھا کہ ہمارے جانے سے ان کو حوصلہ ملتاہے،خوشی ہوتی ہے۔ اور خود ہمیں حالات کا براہ راست مشاہدہ کرکے لوگوں کو صحیح صورت حال سے آگا ہ کرنے کا موقع ملتاہے، اسی جذبہ کے ساتھ ہم وقتاً فوقتاً وہاں جاتے اور ایک دو روز مجاہدین کے ساتھ تربیت گاہوں اور مورچوں میں گزارکر واپس آجاتے۔وہیں ایک تربیت گاہ عرب نوجوانوں کے لیے مخصوص تھی جہاں مختلف عرب ممالک سے آئے ہوئے سینکڑوں نوجوان تربیت حاصل کرتے تھے،مختلف عرب نوجوانوں سے ملاقات ہوتی تھی اور عالم اسلام کے مسائل پر گفتگو ہوتی رہتی تھی ۔
ایک موقع پر یاور سے میران شاہ تک واپس پہنچانے کے لیے جو گاڑی بھجوائی گئی اس کاڈرائیور ایک عرب نوجوان تھا جس کی عمر بمشکل اٹھارہ برس ہوگی ۔میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہ مدینہ منورہ کا رہنے والا ہے اور دو سال سے جہاد میں مصروف ہے۔ وطن واپسی کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ جہاد میں کامیابی کے بعد ہی وطن واپس جانے کا ارادہ ہے۔یہ دور وہ تھا جب ابھی خوست فتح نہیں ہواتھا۔ وہاں اسامہ بن لادن کا نام سنا اور یوں یاد پڑتاہے کہ شاید کسی موقع پر انہیں دیکھا بھی ہے۔ہمیں بتایا گیا کہ سعودی عرب کے متمول ترین تاجر خاندان ”بن لادن فیملی“ کا ایک نوجوان جس کا نام اسامہ ہے،خود بھی جہاد میں عملا شریک ہے اور زیادہ تر اگلے مورچوں میں رہتاہے اور مجاہدین کے مختلف گروپوں کی دل کھول کر مالی امداد بھی کرتاہے۔ بلکہ بعض دوستوں نے بتایا کہ جہاد افغانستان میں مالی تعاون اور مجاہدین کی کفالت میں شاید ہی کوئی دوسرا عرب شیخ اس نوجوان کی ہمسری کا دعوی کرسکے۔ اسامہ بن لادن کا نام اس کے بعد مختلف حوالوں سے وقتا فوقتا سننے میں آتا رہا۔
پھر معلوم ہوا کہ جہاد افغانستان میں تربیت حاصل کرنے والے اور جہاد میں عملا شرکت کرنے والے عرب نوجوان اپنے اپنے ملکوں کی حکومتوں کے ہاں معتوب قرارپاچکے ہیں۔ان حکومتوں کو خطرہ لاحق ہوگیاہے کہ جہاد کے جذبہ سے سرشار اور ٹریننگ سے بہرہ ور یہ نوجوان اپنے ملکوں میں جذبۂ جہاد کے فروغ کا باعث بنیں گے اور ان ممالک میں مغربی استعمار کے مسلط کردہ نوآبادیاتی نظاموں کے لیے چیلنج ثابت ہوںگے۔اس لیے انہیں ”دہشت گرد“ قراردینے کا فیصلہ ہوا اور ان سے نمٹنے کے لیے مسلم ممالک کے وزراءداخلہ اور وزراء خارجہ کے مسلسل اجلاس ہونے لگے۔ پاکستان میں ان ”دہشت گردوں“کے خلاف مہم کا آغاز ہوا اور انہیں پاکستان سے نکالنے کے لیے منظم منصوبہ بندی کی گئی۔ اس دورران ”اسامہ بن لادن“ کا نام ایک بار پھر سامنے آیا اور پتہ چلا کہ یہ نوجوان سوڈان میں بیٹھا ہے اور نہ صرف سوڈان کی نظریاتی اسلامی حکومت کو اقتصادی سپورٹ مہیا کررہاہے بلکہ ان عرب نوجوانوں کی پناہ گاہ بھی ہے جو روسی استعمار کے خلاف تاریخی جہاد میں حصہ لینے کی پاداش میں اپنے ممالک کی حکومتوں کے ہاں”دہشت گرد“ اور”مفرور“ قرارپاچکے ہیں۔سوڈان رقبہ کے لحاظ سے عالم اسلام کا سب سے بڑا ملک ہے اور ہمیشہ قحط سالی کا شکار رہاہے۔لیکن چند برسوں سے ڈاکٹر حسن ترابی اور جنرل عمر بشیر کی قیادت سے معاشی خود کفالت اوراسلامی اصلاحات کی شاہراہ پر گامزن ہے ۔سوڈانیوں نے اس راز کو پالیا کہ اسلامی نظام کے حقیقی نفاذ کے لیے اس سے قبل معاشی خود کفالت ضروری ہے ورنہ مغربی ملکوں اورعالمی اداروں کی معاشی امداد کا شکنجہ دنیا کے کسی مسلمان ملک میں اسلامی نظام کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ چنانچہ انہوں نے ’’ناکل مما نزرع ونلبس مما نصنع” (اپنا بویا ہوا کھائیں گے اور اپنا بنایا ہوا کپڑا پہنیں گے) کاقومی نعرہ لگایا اور مغرب کے آگے پھیلنے والے ہاتھ سمیٹ لیے۔سوڈانیوں نے زراعت کو فروغ دیا ،ملک کے اندر سٹرکیں تعمیر کیں اور محنت کا راستہ اختیار کیا جس کا ثمرہ بارگاہ ایزدی سے یہ ملا کہ سوڈان گندم میں خود کفیل ہوگیاہے بلکہ اب برآمد کرنے کی پوزیشن میں ہے جس پر مغرب کے پیچ وتاب کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ مصرکے صدر حسنی مبارک پر کسی دور میں ہونے والے قاتلانہ حملہ کے ملزموں کو پناہ دینے کے الزام میں سوڈان کو دہشت گرد ملک قرار دیا جا چکا ہے اور امریکہ بہادر سوڈان سے نمٹنے کے لیے تیاریاں کر رہاہے۔ جبکہ سوڈان کے جنوب میں عیسائی اقلیت کو ابھار کر اور اسے مالی وعسکری سپورٹ مہیا کرکے سوڈان کو خانہ جنگی میں مبتلا کرنے اور تقسیم کر دینے کے مذموم منصوبہ کو عملی جامہ پہنایاجارہاہے۔کہاجاتاہے کہ سوڈان کی اس معاشی خود کفالت اور نظریاتی پیش رفت کے پیچھے ”اسامہ بن لادن “کا ہاتھ ہے اور اسامہ بن لادن نے سوڈان میں بیٹھ کر نہ صرف وہاں کی اسلامی حکومت کا حوصلہ بڑھایا بلکہ قومی شاہراہ کی تعمیر میں ہاتھ بٹھا کر سوڈان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی۔اسامہ بن لادن کا یہ ”جرم“ ناقابل معافی تھا کہ اس نے ایک غریب مسلمان ملک کو معاشی خود کفالت کاراستہ دکھایا،اسلامی نظام کے نفاذ کی مستحکم بنیاد فراہم کی اور عالمی مالیاتی اداروں کو ایک ”شکار گاہ“سے محروم کردیا۔ چنانچہ امریکہ بہادر نے گزشتہ سال عالمی دہشت گردوں کی جو فہرست جاری کی، اس میں ”اسامہ بن لادن“کا نام سرفہرست ہے۔سوڈان کو دھمکی دی گئی کہ وہ ”اسامہ“ کو امریکہ کے حوالے کردے ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوجائے۔
اسامہ بن لادن نے سوڈان کو مشکلات سے نکالنے میں مدد دی تھی اس لیے اس کی مشکلات میں اضافے کا باعث بننا اس غیور عرب نوجوان کی حمیت وغیر ت کے خلاف تھا ۔اس لیے اسامہ بن لادن نے چپکے سے سوڈان کو خیر باد کہا اور افغانستان کی آزاد سرزمین میں نیا مسکن بنالیا۔اسامہ بن لادن کا اپنا وطن سعودی عرب ہے جہاں اس کا خاندان آج بھی ملک کا متمول ترین تجارتی خاندان ہے، جہاں اس کے اہل خاندان ملک کی معاشی ترقی کاایک اہم کردار ہیں لیکن اسامہ پر سعودی عرب کے دروازے بندہیں۔اس لیے کہ وہ خلیج عرب میں امریکی افواج کی مسلسل موجودگی کا مخالف ہے اور اسے عرب ممالک کی خودمختاری کے منافی اور اسرائیل کی تقویت کا باعث سمجھتاہے۔ وہ سعودی عرب میں اسلامی اصلاحات کا داعی ہے اور ملک کے نظام کو مکمل طورپر اسلامی تعلیمات واحکام کے سانچے میں ڈھالنے کی بات کرتاہے۔ وہ شاہی خاندان کی پرتعیش زندگی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہے اور خلافت اسلامیہ کا احیاءچاہتاہے اوریہ ”جرم“ آج کے دور میں اتنا ہلکا نہیں کہ اسے آسانی سے نظر انداز کردیا جائے۔
راقم الحروف کو گزشتہ ماہ کے اواخر میں افغانستان جانے کااتفاق ہوا تو جی چاہا کہ ممکن ہو تو ”اسامہ بن لادن“سے بھی ملاقات کرلی جائے اور اس کا مسکن دیکھ لیا جائے۔کچھ ددستوں سے بات کی تو حالات نے موافقت کا رخ اختیار کرلیا اور ایک شب ہم کچھ دوست چپکے سے ”اسامہ بن لادن “کے کیمپ میں جاپہنچے۔چند نو تعمیر شدہ کچے مکانوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی ”الشیخ اسامہ بن لادن“کی پناہ گاہ ہے جہاں ان کے ساتھ انہی کی طرح کے بہت سے عرب نوجوان قیام پذیر ہیں۔ ایک رات ہم وہاں رہے۔ الشیخ اسامہ بن لادن سے ملاقات ہوئی، دبلے لمبے قد کا ایک نوجوان، افغانی لباس پہنے ہوئے،سرپر پگڑی باندھے ،کندھے سے کلاشنکوف لٹکائے اور ہاتھ میں چھوٹی سی تسبیح گھماتے ہوئے سامنے آیا تو یوں محسوس ہوا کہ کوئی افغان عالم دین کسی دینی مدرسہ میں سبق پڑھا کر درسگاہ سے باہر نکل رہاہے۔اسامہ بن لادن کے بیوی بچے بھی ان کے ساتھ ہیں جو اسی خیمہ بستی میں قیام پذیر ہیں بلکہ دسترخوان پر سادہ کپڑوں میں ملبوس تیرہ سال کا ایک بچہ ہمارے ہاتھ دھلاتے ہوئے آگے بڑھا تو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے دوست نے بتایا کہ شیخ اسامہ کا بیٹاہے۔ جی چاہا کہ اس بچے کے ہاتھ سے پانی کا برتن لے لوں اور خود اس کے پاؤں دھلاؤں جو سعودی عر ب میں اپنے خاندان کے بلند وبالا محلات کے بجائے افغانستان کے ایک کیمپ میں اپنے پرعزم اور مجاہد باپ کے ساتھ صرف اس لیے صعوبتیں برداشت کررہاہے کہ وہ اسلام کی سربلندی اور نفاذ کا خواہاں ہے اور اس بارے میں کسی مصلحت اور لچک کا روادار نہیں ہے۔
سچی بات ہے کہ اسامہ بن لادن کا کیمپ دیکھ کر مجھے جناب رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت ابو بصیرؓ کا وہ کیمپ یادآگیا جو انہوں نے صلح حدیبیہ کے بعد مظلوم مسلمانوں کو کافروں کے مظالم سے بچانے کے لیے پناہ گاہ کے طورپر بنایا تھا۔ ابوبصیرؓ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوکر مدینہ پہنچے تو جناب رسول اللہؐ معاہد ہ کی رو سے انہیں واپس کفارکے پاس بھجوانے کے پابند تھے۔ چنانچہ آپؐ نے معاہدے پر عمل کرکے انہیں واپس کردیا۔مگر ابوبصیرؓ نے مکہ مکرمہ واپس جانے کے بجائے راستہ میں سمندر کے کنارے ایک کیمپ بنالیا جو دیکھتے دیکھتے کفار کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے مظلوم مسلمانوں کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا اور بالآخر کفار کو خود معاہد ہ کی اس شق سے دستبردار ہونا پڑا۔خدا کرے کہ آج کا یہ ابو بصیرؓ بھی مسلمان مجاہدین کو محفوظ پناہ گاہ مہیا کرنے میں کامیاب ہو اور اس کی یہ جدوجہد دنیا میں اسلام کے غلبہ ونفاذ کا نقطۂ آغاز بن جائے،آمین یا رب العالمین۔