محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ

   
تاریخ : 
۲۹ دسمبر ۲۰۰۷ء

محترمہ بے نظیر بھٹو گزشتہ روز ایک خودکش حملہ میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا ہے، ہر باشعور شہری اشک بار ہے اور اس کا دل ایک عوامی راہنما کے المناک قتل کے غم کے ساتھ ساتھ ملک اور قومی سیاست کے مستقبل کے حوالہ سے انجانے خدشات سے دوچار ہوگیا ہے۔

میں کل نماز عصر کے بعد الشریعہ اکادمی سے گھر کی طرف آرہا تھا کہ ایک صاحب راستہ میں ساتھ ہو لیے اور چلتے چلتے سوال کیا کہ مولانا صاحب آپ بھی کہتے ہیں کہ لال مسجد والوں کا طریقہ ٹھیک نہیں تھا اور امریکہ بھی کہتا ہے کہ وہ دہشت گرد ہیں، دونوں میں فرق کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہم لال مسجد والوں کے مقصد سے نہیں بلکہ طریق کار سے اختلاف کر رہے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ ان کا طریق کار درست نہیں تھا۔ کہنے لگے کہ سوات اور وزیرستان والوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ملک کے اندر کسی قومی یا دینی مقصد کے لیے ہتھیار اٹھانے کو میں جائز نہیں سمجھتا، وہ کہیں بھی ہو اور کسی عنوان سے بھی ہو ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاد کا وقت کب آئے گا؟ میں نے کہا کہ جہاد تو ہو رہا ہے، فلسطین میں، عراق میں اور افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ جہاد ہی ہے اور اس جہاد کے لیے میدان جنگ میں خودکش حملہ کو بھی میں بے بس اور مجبور و مظلوم مجاہد کا آخری ہتھیار سمجھتا ہوں۔ لیکن ایک مسلمان ملک میں اپنی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور بے گناہ اور غیر متعلق لوگوں کی جانیں لینے کو میں جہاد نہیں سمجھتا کیونکہ یہ جہاد نہیں ہے بلکہ ’’خروج‘‘ ہے جس کی اسلامی تعلیمات میں اجازت نہیں ہے۔ کہنے لگے کہ آپ لوگ آخر کب اس خروج کا فتویٰ دیں گے، یہ تو آپ کو دینا ہی ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ خروج کی شرائط ہیں اس کا ایک شرعی طریق کار ہے، اس کے بغیر اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی میں پاکستان میں ہتھیار اٹھانے اور خودکش حملوں کے ذریعہ لوگوں کی جانیں لینے کو جہاد کہنے کے لیے تیار ہوں۔

اس گفتگو کے بعد وہ صاحب اپنی راہ پر ہو لیے جبکہ میں نے نکاح کی ایک تقریب میں جانا تھا ادھر چلا گیا۔ وہاں سے فارغ ہو کر گھر واپس پہنچا، نماز مغرب ادا کی تو فون پر ایک دوست نے یہ اندوہناک خبر سنا دی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کے بعد واپس جاتے ہوئے خودکش حملہ کا نشانہ بن کر جاں بحق ہو گئی ہیں۔ زبان پر بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوا اور دل کی دھڑکن میں اس سوچ و خیال کے ساتھ ہی اضافہ ہوگیا کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ رد عمل کیسا ہوگا؟ اور قومی سیاست کے مستقبل پر یہ المناک سانحہ کس حد تک اثر انداز ہوگا؟

میری محترمہ بے نظیر بھٹو سے ایک ہی بار ملاقات ہوئی ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کا دوسرا دور تھا اور نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم حسب معمول حکومت کے خلاف اپوزیشن کو منظم اور متحرک کرنے کے لیے سرگرم عمل تھے۔ میں اپنے کسی کام سے اسلام آباد گیا تو معلوم ہوا کہ نوابزادہ صاحب اسلام آباد میں ہیں۔ میری ان سے پرانی نیاز مندی تھی، جس زمانے میں پاکستان قومی اتحاد کی سرگرمیاں عروج پر تھیں میں پنجاب قومی اتحاد کا سیکرٹری جنرل تھا۔ ہمارا صوبائی دفتر نکلسن روڈ پر نوابزادہ صاحب کے دفتر کے ساتھ ہوتا تھا اور اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں۔ جبکہ ۱۹۹۰ء کے بعد سے میں نے انتخابی اور گروہی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے۔ نوابزادہ صاحب سے ملنے کو جی چاہا تو میں اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر جا پہنچا، وہ زیادہ تر ارشد چودھری کے ہاں قیام پذیر ہوتے تھے۔ وہ مل کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ آپ بروقت آئے ہیں، میں نے کچھ دوستوں کو دوپہر کے کھانے پر بلا رکھا ہے آپ بھی شریک ہو جائیں، گپ شپ رہے گی۔ نوابزادہ صاحب کے کہنے پر میں وہاں رک گیا لیکن یہ سوال نہ کر سکا کہ اس محفل کی نوعیت کیسی ہے؟ بہرحال بہت سے دوست آئے ان میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی تھیں۔ نوابزادہ صاحب نے ان سے میرا تعارف کرایا اور جونہی انہوں نے میرا نام لیا تو بے نظیر بھٹو فورًا بول اٹھیں ’’علماء کونسل والے؟‘‘ میں نے کہا جی ہاں علماء کونسل والا۔ اس پر وہ مسکرائیں اور حال احوال دریافت کرنے لگیں۔

یہ متحدہ علماء کونسل کا بھی ایک خاص پس منظر ہے۔ ۱۹۸۸ء میں جب وہ پہلی بار ملک کی وزیراعظم منتخب ہوئیں تو ملک کے دینی حلقوں نے ’’خاتون وزیراعظم‘‘ کے حوالہ سے ان کے خلاف اچھی خاصی تحریک کھڑی کر دی میں بھی اس میں پیش پیش تھا۔ لاہور کے مولانا عبد الرؤف ملک کے ساتھ مل کر ہم نے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام پر مشتمل ’’متحدہ علماء کونسل‘‘ قائم کی تھی جس نے مختلف عنوانات پر جدوجہد کی اور خاص طور پر عورت کی حکمرانی کے خلاف اس کی تحریک خاصی معروف ہوئی۔ مولانا مفتی ظفر علی نعمانی، صاحبزادہ حاجی فضل کریم، مولانا معین الدین لکھوی، مولانا قاضی عبد اللطیف، مولانا عبد المالک خان، پروفیسر محمد یحییٰ اور اس سطح کے سرکردہ علماء کرام اس کا حصہ تھے۔ ہم نے محترمہ کی وزارت عظمیٰ کے خلاف راولپنڈی صدر کے جامعہ اسلامیہ میں ملک بھر کے علماء کرام کا ایک بھرپور اور نمائندہ کنونشن منعقد کیا تھا جس کی صدائے بازگشت کافی دنوں تک قومی سیاست میں سنی جاتی رہی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو وہ تحریک اور اس میں کام کرنے والے سرکردہ حضرات کے نام یاد تھے اور اسی لیے میرا نام سنتے ہی انہوں نے پوچھ لیا تھا کہ ’’علماء کونسل والے؟‘‘

محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ اس کے علاوہ مجھے کبھی ملنے کا موقع نہیں ملا مگر قومی سیاست میں اور قومی پریس میں ہمیشہ آمنا سامنا رہتا تھا۔ ہم ان کے مخالف کیمپ میں تھے، جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ اور متحدہ علماء کونسل میں سیاسی بیانات کا شعبہ زیادہ تر میرے پاس ہی رہتا تھا اور محترمہ بے نظیر بھٹو اکثر ہمارے بیانات کا ہدف ہوتی تھیں اس لیے سیاسی نوک جھونک اور چھیڑ چھاڑ میں خوب لطف آتا تھا۔۔ ایک دور میں محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن ہوتی تھیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو پی پی پی کی ’’کو چیئر پرسن‘‘ (شریک چیئر پرسن) کہا جاتا تھا۔ کراچی کے نشتر پارک میں جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ کا جلسہ تھا، میں نے اس میں خطاب کے دوران پھبتی کسی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کی گواہی کے شرعی قانون پر تحفظات کا اظہار کرتی ہیں لیکن انہوں نے اپنی پارٹی میں ایک چیئرپرسن کی جگہ دو چیئرپرسن کی صورت میں اس شرعی ضابطہ کو خود بھی عملاً تسلیم کیا ہوا ہے۔ اس کا قومی پریس میں کئی دن تک چرچا رہا اور پھر بالآخر شریک چیئرپرسن کی صورتحال پس منظر میں چلی گئی۔

اس سب کچھ کے باوجود ایک دانشور سیاستدان کے طور پر ہمیشہ میرے دل میں ان کا احترام رہا، وہ پڑھی لکھی خاتون تھیں، صاحب مطالعہ تھیں، حالات اور مسائل کا دانشورانہ تجزیہ کرتی تھیں، تاریخ اور تاریخ کے عمل پر ان کی نظر تھی اور اپنی سیاست کی راہیں طے کرتے وقت وہ اپنے علم و مطالعہ سے استفادہ بھی کرتی تھیں جس کا ہماری قومی سیاست میں رجحان بہت کم ہے۔ ان کی سیاست اور پالیسیوں سے مجھے بہت کم اتفاق رہا ہے اور اب بھی ان کے سیاسی رخ اور بیانات پر میں شدید تحفظات رکھتا تھا لیکن بہرحال وہ قوم کے ایک بڑے حلقے کی مسلمہ لیڈر تھیں، ایک واضح سوچ، رائے اور پروگرام رکھتی تھیں جس کے لیے وہ پورے حوصلہ اور جرأت کے ساتھ سرگرم عمل تھیں۔ اور یہ ان کے حوصلہ اور جرأت کا ہی اظہار تھا کہ کراچی کے خوفناک حملہ میں بچ جانے کے بعد وہ آرام سے نہیں بیٹھیں بلکہ مشن اور پروگرام کو وہ اپنی سیاسی جدوجہد کے لیے ضروری سمجھتی تھیں، اس کے لیے نکل کھڑی ہوئیں اور بالآخر اس پر اپنی جان بھی قربان کر دی۔

میں اس المناک سانحہ پر بھٹو خاندان، پاکستان پیپلز پارٹی اور ملک بھر کے سوگوار عوام کے غم میں شریک ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت مرحومہ کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل کے ساتھ اس صدمہ سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter