مولانا مفتی محمد اویسؒ

   
تاریخ اشاعت: 
نومبر ۲۰۱۲ء

گزشتہ روز گوجرانوالہ کے ایک بزرگ عالم دین اور دار العلوم گوجرانوالہ کے بانی و مہتمم مولانا مفتی محمد اویس انتقال کر گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کافی دنوں سے علیل اور صاحب فراش تھے، دو چار روز سے گفتگو بھی نہیں کر پا رہے تھے، منگل کو صبح نماز کے بعد موبائل فون کے میسج چیک کیے تو ان میں غم کی یہ خبر بھی تھی کہ مولانا مفتی محمد اویس صاحب رات دو بجے انتقال کر گئے ہیں۔

مفتی محمد اویس کا خاندان تقسیم ہند کے موقع پر کرنال سے ہجرت کر کے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں کوٹ بسّی کے مقام پر آبسا تھا۔ مفتی محمد اویس صاحب کی ولادت منشی خان مرحوم کے گھر میں ۱۹۵۵ء کے دوران ہوئی۔ انہوں نے درس نظامی کی زیادہ تر تعلیم جامعہ حسینیہ شہداد پور میں حاصل کی، دورۂ حدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں حضرت مولانا مفتی محمد ولی حسن قدس اللہ سرہ العزیز کے دور میں کیا۔ پھر جامعہ حسینیہ شہداد پور میں کچھ عرصہ تک تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ تبلیغی جماعت کے ساتھ زیادہ تعلق تھا اور دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں میں اکثر شریک رہتے تھے بلکہ تعلیم و تدریس اور دعوت و اصلاح کا ذوق بھی کم و بیش وہی رکھتے تھے، انہوں نے تجوید میں سبعہ عشرہ تک تعلیم ساہیوال میں حضرت مولانا قاری محمد عبد اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے حاصل کی اور زندگی بھر مختلف قراءات میں قرآن کریم کی تلاوت، سماع اور طلبہ میں اس کی ترغیب کا ذوق انہوں نے تازہ رکھا۔ ان کے خاندان کا کچھ حصہ ضلع شیخوپورہ میں کوٹ پنڈی داس میں بھی آباد ہے اور وہاں دینی خدمات سر انجام دینے والے ہمارے ساتھی مولانا مفتی زین العابدین مفتی محمد اویس صاحب کے بھتیجے ہیں۔

میرا اُن سے تعارف اس دور میں ہوا جب وہ گوجرانوالہ کے تبلیغی مرکز میں قائم ہونے والے دینی مدرسہ میں استاذ کی حیثیت سے تشریف لائے اور پھر یہ تعارف رفتہ رفتہ باہمی محبت و اعتماد کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ گوجرانوالہ کے تبلیغی مرکز کا یہ دینی مدرسہ اس کے بعد ایمن آباد شہر کے ساتھ واہنڈو روڈ پر منتقل ہوا تو مفتی صاحب صدر مدرس کے طور پر وہاں منتقل ہوگئے اور کافی عرصہ تک تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے، اس مدرسہ کا نظام ہمارے محترم اور بزرگ دوست شیخ ممتاز احمد صاحب اور ان کے لائق فرزند مولانا شیخ امتیاز احمد (فاضل جامعہ نصرۃ العلوم) چلا رہے ہیں، کچھ عرصہ کے بعد مفتی محمد اویس صاحب نے گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر جلیل ٹاؤن کے عقب میں ایک وسیع رقبہ میں دار العلوم گوجرانوالہ کے نام سے ایک دینی درس گاہ کا آغاز کیا جس میں بہت سے مخلص اور مخیر دوست ان کے معاون اور دست بازو بنے۔ مجھے ایمن آباد کے دار العلوم مکیہ اور جلیل ٹاؤن کے دار العلوم میں متعدد بار حاضری کا موقع ملا ہے اور مولانا مفتی محمد اویسؒ اور ان کے رفقاء کا تدریسی، تربیتی اور انتظامی ذوق ہمیشہ خوشی اور حوصلہ کا باعث بنا ہے۔ طلبہ کی تعلیمی، اخلاقی، تبلیغی اور اصلاحی تربیت کے ساتھ حسن انتظام ان کا خصوصی امتیاز تھا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خصوصی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور اسی نسبت سے انہوں نے مجھے دار العلوم گوجرانوالہ کے سرپرست کی حیثیت دے رکھی تھی، مختلف مواقع پر کسی نہ کسی بہانے یاد کرتے اور مجھے بھی حاضر ہو کر خوشی ہوتی۔ چند روز قبل حاجی عثمان عمر ہاشمی صاحب کے ہمراہ بیمار پرسی کے لیے حاضری ہوئی تو تھوڑی بہت بات کر لیتے تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ گفتگو کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، میں ایک آدھ روز میں دوبارہ بیمار پرسی کے لیے حاضری کا سوچ رہا تھا کہ ان کی وفات کی خبر آگئی۔

وہ بہت اچھے مدرس تھے، دار العلوم میں دورۂ حدیث تک تعلیم ہوتی اور بخاری شریف ان کے زیر درس رہتی تھی۔ قراءات کا خاص ذوق رکھتے تھے اور جب بھی کوئی پروگرام ہوتا، اپنے طلبہ سے مختلف قراءتوں میں قرآن کریم کے مختلف حصوں کی تلاوت کراتے اور سامعین کے ساتھ ہم بھی محظوظ ہوتے۔ وہ واپڈا ٹاؤن کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب بھی تھے اور ہزاروں لوگ ان کے وعظ و نصیحت سے فیضیاب ہوتے تھے۔

ان کے جنازے میں حاضری ہوئی تو ہمارے محترم بزرگ حضرت مولانا نعیم اللہ صاحب مہتمم مدرسہ اشرف العلوم نے ارشاد فرمایا کہ مفتی صاحبؒ کے خاندان والوں اور دار العلوم کے اساتذہ کی خواہش ہے کہ جنازہ آپ پڑھائیں اور ان کے فرزند مولانا محمد ادریس کی جانشینی کا اعلان کر کے دستار بندی بھی کرا دیں۔ چنانچہ یہ دونوں سعادتیں میں نے حاصل کیں جبکہ دستار بندی میں مولانا نعیم اللہ، مولانا عبد الغفار خان اور دوسرے متعدد بزرگ بھی میرے ساتھ شریک تھے۔

نماز جنازہ کے بعد انہیں دار العلوم گوجرانوالہ کے قریب ہی ایک عام قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا، نماز جنازہ سے قبل میں نے اپنی مختصر گفتگو میں یہ عرض کیا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد بیسیوں بار پڑھا اور پڑھایا ہے لیکن کچھ عرصہ سے ہم اس کا عملی منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ارشاد نبویؐ یہ ہے کہ قیامت سے قبل اللہ تعالیٰ علم کو دنیا سے اس طرح اٹھا لیں گے کہ اہل علم دنیا سے اٹھتے چلے جائیں گے اور ان کے ساتھ ان کا علم بھی اٹھتا جائے گا، گوجرانوالہ میں چند برسوں سے ہم یہی منظر دیکھ رہے ہیں، ہمارے شیخین کریمین حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ تو رخصت ہوئے ہی تھے، ان کے ساتھ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے مولانا اللہ یار خانؒ ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ ، مولانا قاضی عصمت اللہؒ ، مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ اور اب مولانا مفتی محمد اویسؒ بھی ہم سے جدا ہوگئے ہیں اور ہم رفع علم کا یہ کربناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اب سب بزرگوں کی مغفرت فرمائیں اور ہم سب کو ان بزرگوں کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter