مالکم ایکس شہبازؒ اور لوئیس فرخان

   
تاریخ : 
۲۴ جون ۱۹۹۷ء

لندن کے بعض اخبارات نے رائٹر کے حوالہ سے خبر شائع کی ہے کہ نیویارک میں مالکم ایکس شہبازؒ کی بیوہ گزشتہ روز اپنے فلیٹ میں بے ہوش پائی گئیں، وہ آگ میں جھلس گئی تھیں، انہیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے جہاں ان کی حالت نازک بیان کی جاتی ہے۔ نیویارک پولیس اس واقعہ کی تحقیقات کر رہی ہے اور اس کے اتفاقیہ واقعہ ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

مالکم ایکس شہیدؒ امریکہ کے سیاہ فام مسلمانوں کے ایک مقبول عام لیڈر تھے جنہیں ۱۹۶۵ء میں نیویارک کے علاقہ مین ہیٹن میں اس وقت گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا جب وہ اپنے پیروکاروں کے ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ شہید کے قریبی حلقوں نے نبوت کے دعوے دار ایلیج محمد کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا کیونکہ مالکم ایکس شہیدؒ ابتداء میں ایلج محمد کے دست راست تھے لیکن جلد ہی اس کے غلط عقائد سے برأت کا اعلان کر کے صحیح العقیدہ مسلمانوں میں شامل ہوگئے تھے۔ ایلیج محمد دورِ حاضر کے مدعیان نبوت میں منفرد حیثیت کا حامل شخص تھا جس کی دعوت پر امریکہ کے لاکھوں افراد نے اسلام کے عنوان سے اس کا مذہب قبول کیا اور وہ اب تک نہ صرف مسلمان کہلاتے ہیں بلکہ ایلیج محمد کے جانشین لوئیس فرخان کی قیادت میں اس کی جماعت ’’نیشن آف اسلام‘‘ کے ارکان میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ گزشتہ سال لوئیس فرخان نے امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ملین مارچ کا اہتمام کیا تو اس میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ اس موقع پر قرآن کریم کی تلاوت اور نماز کے اہتمام کے ساتھ دنیا کو بتایا گیا کہ یہ مسلمانوں کا بہت بڑا اجتماع ہے اور عالمی پریس نے اس ریلی کی خوب خوب تشہیر کی۔

اور اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ ۱۹۹۰ء میں شکاگو میں رابطہ عالم اسلامی نے ایک کانفرنس منعقد کی جس کا مہمان خصوصی لوئیس فرخان کو بنایا گیا جبکہ گزشتہ سال لیبیا، ایران اور عراق کی حکومتوں نے لوئیس فرخان کو لاکھوں ڈالر کی امداد دی اور اپنے ملکوں کے دورے کرائے۔ ’’نیشن آف اسلام‘‘ کا سرکاری آرگن لوئیس فرخان کی ادارت کی پرنٹ لائن کے ساتھ ’’دی فائنل کال‘‘ کے نام سے شکاگو سے شائع ہوتا ہے جس کے کم و بیش ہر شمارے میں ایلیج محمد کی تصویر کے ساتھ اس گروہ کے عقائد درج ہوتے ہیں۔ اس وقت اس کے ۲۸ ستمبر ۱۹۹۰ء کے شمارے کا ایک صفحہ ہمارے سامنے ہے جس میں نیشن آف اسلام کا یہ عقیدہ بھی درج ہے:

’’اللہ تعالیٰ نے ۱۹۳۴ء میں امریکہ میں ماسٹر فارد محمد کی شکل میں ظہور کیا تھا، یہ وہی مسیح ہے جس کا عیسائیوں کو انتظار ہے اور وہی مہدی ہے جس کا مسلمانوں انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

اس ماسٹر فارد محمد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ۱۹۳۰ء میں اچانک امریکہ کے شہر ڈیٹرائٹ میں رونما ہوا اور ۱۹۳۴ء میں اسی طرح اچانک غائب ہوگیا۔ یہ کالے مسلمانوں کو دوسرے تمام مسلمانوں سے الگ قرار دیتا تھا اور مستقبل میں کالوں کی حکومت کا دعوے دار تھا۔ ایلیج محمد نے، جو عیسائیوں کے بیپٹسٹ فرقہ کے پادری کے گھر میں پیدا ہوا، ۱۹۳۱ء میں فارد محمد کے ہاتھ پر ’’اسلام‘‘ قبول کیا اور پھر رفتہ رفتہ اس کا دست راست بن گیا حتیٰ کے اس کے غائب ہونے کے بعد جانشین ہونے کا اعلان کیا اور لوگوں کو بتایا کہ وہ اللہ تھا جو فارد محمد کی شکل میں آیا تھا اور ایلیج محمد کو اپنا پیغمبر بنا کر واپس چلا گیا ہے۔ ایلیج محمد نے سیاہ فام آبادی پر سفید نسل کے لوگوں کے صدیوں سے چلے آنے والے مظالم کے خلاف نفرت سے فائدہ اٹھایا اس لیے اس کی تحریک دراصل گوروں کے خلاف ردعمل کی تحریک تھی جس نے اس میں اسلام کے لفظ سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس نے قرآن کریم اور حدیث نبویؐ کو منسوخ شدہ قرار دیا اور کہا کہ اب اللہ تعالیٰ کی منشا وہی ہے جو ایلیج محمد کی زبان سے ظاہر ہوتی ہے۔

ایلیج محمد کے عقائد اور مشن کے بارے میں ابہام کی فضا ربع صدی قبل تک اس حد تک قائم رہی کہ عالمی مکہ باز محمد علی کلے، مالکم ایکس شہیدؒ اور نیویارک کے معروف مذہبی رہنما امام سراج وہاج نے ابتداء میں اسی کے ہاتھ پر ’’اسلام‘‘ قبول کیا اور اس کے ساتھی بن گئے لیکن بعد میں حقیقت حال واضح ہونے پر یہ تینوں راہنما اس سے الگ ہوئے اور اہل سنت کے عقائد کے مطابق ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ مالکم ایکس شہیدؒ تو ایلیج محمد کے دست راست تھے اور اس کے منسٹر کہلاتے تھے۔ شعلہ نوا مقرر اور انتھک کارکن تھے، ۱۹۶۴ء میں اس سے الگ ہوئے اور ایک ہی سال میں الگ گروپ بنا کر اچھے خاصے لوگوں کو ایلیج محمد کے غلط مذہب سے واپس لانے میں کامیاب ہوگئے۔ صحیح العقیدہ مسلمان ہونے کے بعد انہیں مالکم شہباز کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ نیویارک میں ان کے گروپ کا مرکز راقم الحروف نے دیکھا ہے۔ لیکن ایک سال میں ہی انہیں راستہ سے ہٹا دیا گیا اور وہ ۲۱ فروری ۱۹۶۵ء کو جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے شہید کر دیے گئے۔ جبکہ ایلیج محمد ۱۹۷۵ء تک زندہ رہا مگر اس کے بعد اس کے بیٹے ویلس دین محمد نے بھی باپ کے عقائد سے توبہ کا اعلان کر کے ’’بلالی مسلم‘‘ کے نام سے الگ گروپ بنا لیا جبکہ لوئیس فرخان نے ایلیج محمد کے عقائد پر اس کے گروہ کی قیادت سنبھال لی اور اب تک وہ اس کی قیادت کر رہا ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایلیج محمد کے ہاتھ پر ’’اسلام‘‘ قبول کرنے والوں میں مالکم شہباز تو پہلے ہی شہید ہو چکے تھے اور محمد علی کلے، امام سراج وہاج اور ویلس دین محمد غلط عقائد سے توبہ کر کے صحیح العقیدہ مسلمانوں کی رہنمائی کر رہے ہیں مگر لوئیس فرخان بدستور ماسٹر فارد محمد کو خدا اور ایلیج محمد کو اس کا پیغمبر قرار دیتے ہوئے ’’نیشن آف اسلام‘‘ کو اسی ڈگر پر چلا رہا ہے۔ مالکم شہباز شہید کی بیوہ کی آگ میں جھلس جانے کی خبر سے یہ سارا واقعہ ایک بار پھر ذہن میں تازہ ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مرد قلندر کی بیوہ کو صحتِ کاملہ و عاجلہ سے نوازیں اور امریکہ کی سیاہ فام آبادی کو نیشن آف اسلام کے دام ہمرنگ زمین سے بچاتے ہوئے اصل اور صحیح اسلام کی طرف مائل ہونے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter