مجلس علماء اسلام کے مقاصد و اہداف

   
تاریخ اشاعت: 
۱۵ دسمبر ۲۰۱۴ء

۹ دسمبر کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی دفتر ملتان میں مجلس علماء اسلام پاکستان کی سپریم کونسل کے منعقدہ اجلاس میں اکثر جماعتوں کے صف اول کے راہنما شریک ہوئے اور خطاب کیا۔ ان میں سے حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر اور مولانا حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری کے خطابات چونکہ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے ان کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر صاحب محترم نے ہم مسلک دینی و سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ضرورت قرار دیا اور فرمایا کہ اتحاد میں برکت ہے۔ جبکہ افتراق و خلاف میں ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔ انہوں نے حضرت امام حسنؓ کے ایک ارشاد کا حوالہ دیا کہ جب انہوں نے حضرت معاویہؓ کے ساتھ صلح کی اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے امت کو ایک بار پھر متحد کر دیا تو اس پر پوری امت میں اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ اور اس سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیش گوئی بھی پوری ہوئی جو حضرت امام حسنؓ کے بارے میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھی۔ اس سال کو ’عام الجماعۃ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اور یہ حضرت امام حسنؓ کا عظیم کارنامہ شمار ہوتا ہے۔ مگر اعتراض کرنے والے بھی ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں ۔چنانچہ ایک صاحب نے اس صلح کے بعد حضرت امام حسنؓ کو ’’یا مذل المؤمنین‘‘ (اے مسلمانوں کو ذلیل کرنے والے) کہہ کر خطاب کیا تو حضرت حسنؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں مذل المؤمنین نہیں بلکہ ’’معز المسلمین‘‘ ہوں۔ یعنی مسلمانوں کی عزت کو بحال کرنے والا ہوں۔ اس لیے کہ اتحاد اور یکجہتی سے امت کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ ’’الخلاف شرّ‘‘ یعنی افتراق و خلاف سراسر شر ہوتا ہے۔ پھر حضرت امام حسنؓ نے فرمایا کہ تمہیں خلاف و تفرقہ میں جو فائدہ دکھائی دیتا ہے، اتحاد و اتفاق کے فوائد اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

حضرت ڈاکٹر صاحب نے علمی و فقہی اختلاف کو اس کی حدود میں رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور اس کے حوالہ سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی خلافت کے آخری دور میں حج کے دوران منیٰ میں قصر ترک کر کے ظہر اور عصر کی نماز پوری پڑھنی شروع کر دی۔ جس کی وجہ بعد میں انہوں نے یہ فرمائی کہ میں نے یہاں شادی کر لی ہے اس لیے پوری نماز پڑھتا ہوں۔ مگر ایک موقع پر حضرت عثمانؓ نے ظہر کی نماز منیٰ میں چار رکعت پڑھائی تو کسی نے یہ بات حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کو بتائی جو منیٰ میں موجود تھے لیکن نماز میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بات سن کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور فرمایا کہ ہماری تو ان چار رکعتوں کے بدلے دو رکعتیں ہی قبول ہو جائیں تو غنیمت ہے۔ لیکن اس کے بعد عصر کی نماز انہوں نے حضرت عثمانؓ کی اقتدا میں چار رکعت ادا فرمائی، جس سے امت کو یہ بتانا مقصود تھا کہ اختلاف ہونا کوئی بعید بات نہیں۔ ایسا ہو جاتا ہے لیکن اس اختلاف کو تفرقہ اور خلاف کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے اور امت کے اتحاد میں فرق نہیں آنا چاہیے۔

ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ فروعی اور نظری اختلافات کو اپنے اپنے دائرہ میں رکھتے ہوئے ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ باہمی محبت و احترام کے ساتھ دینی مقاصد کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے اور امت کی وحدت کے لیے شخصی اور گروہی طور پر اگر نقصان بھی ہو تو اسے برداشت کرنا چاہیے۔

مولانا حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری نے اپنے خطاب میں چند اہم امور کی وضاحت کی جسے ریکارڈ میں لانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں لا دینیت، سیکولر ازم، فحاشی و عریانی اور مغربی فلسفہ و ثقافت کے فروغ کے مقابلہ میں مزاحمت کی قوت کو منظم کرنا ہوگا، اور متحد ہو کر ان کا راستہ روکنا ہوگا۔ مگر مزاحمت سے مراد مار دھاڑ، قتل و غارت اور اسلحہ اٹھانا نہیں ہے۔ بلکہ جس طرح ہمارے اکابر نے دینی و قومی مقاصد کے لیے پر امن جدوجہد کی ہے اسی طرح ہم بھی پر امن عوامی جدوجہد منظم کریں گے اور اس کے لیے سب جماعتوں کو بھر پور محنت کرنا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ اتحاد مسلکی ضرور ہے لیکن کسی مسلک کے خلاف نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہمارا آٹھ نکاتی ایجنڈا مسلک کے حوالہ سے ہے۔ یہ قومی ایجنڈا ہے جو ملک و قوم کے اجتماعی اہداف و مقاصد کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہم اس کے لیے اپنی صف بندی کے بعد دوسرے مکاتب فکر سے بھی رابطہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہماری خواہش ہے کہ یہ جلد سے جلد ہو تاکہ ہم قومی سطح پر مشترکہ محنت کی کوئی صورت نکال سکیں۔ اس لیے کوئی مسلک اسے اپنے خلاف اتحاد تصور نہ کر لے۔ شیعہ سنی حوالہ سے بھی ہم محاذ آرائی کے ماحول کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور ہماری محنت اس بات پر ہوگی کہ سنی شیعہ اختلافات کو باہمی تصادم اور فسادات کی شکل اختیار کرنے سے روکا جائے۔ اس کے لیے ہم دوسرے مکاتب فکر کے راہنماؤں حتیٰ کہ اہل تشیع کے معتدل اور سنجیدہ راہنماؤں کے ساتھ بھی بات کریں گے اور مل جل کر پاکستان کی خود مختاری و سالمیت کے تحفظ، مغربی فلسفہ و ثقافت کے مقابلہ، اسلامی نظام کے نفاذ اور فحاشی و عریانی کے سدباب کے لیے جدوجہد کی راہ ہموار کریں گے۔ انہوں نے ’’مجلس علماء اسلام پاکستان‘‘ میں شامل جماعتوں کے راہنماؤں، علماء کرام اور کارکنوں پر زور دیا کہ وہ تحریر و تقریر کے ذریعہ اس پیغام کو عام کریں۔ کارکنوں کو اس مقصد کے لیے تیار کریں، ان کی ذہن سازی اور تربیت کریں اور عوامی بیداری کے لیے تمام ممکنہ ذرائع کو استعمال کریں۔ نیز اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت کی فضا کو مستحکم کرنے میں بھرپور کردار ادا کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter