آکسفورڈ میں ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر عبد اللہ احمد البداوی کا خطاب

   
تاریخ : 
۱۰ اکتوبر ۲۰۰۴ء

آکسفورڈ آج کی دنیا کا بڑا تعلیمی و تہذیبی مرکز ہے، مجھے کبھی کبھی وہاں جانے کا موقع ملتا ہے اور اپنے تاثرات میں قارئین کو بھی ہر بار شریک کرتا ہوں۔ بھارت کے ممتاز مسلم دانش ور اور محقق و مصنف پروفیسر ڈاکٹر خلیق احمد نظامی مرحوم کے فرزند ڈاکٹر فرحان احمد نظامی نے آکسفورڈ میں ایک علمی و فکری مرکز قائم کر رکھا ہے جس کے سرپرستوں میں برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس اور سلطان آف برونائی کے علاوہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندویؒ اور پروفیسر ڈاکٹر خلیق احمد نظامی مرحوم و مغفور بھی شامل رہے ہیں۔ ان دونوں بزرگوں میں باہمی فکری ہم آہنگی اور رفاقت و دوستی کا تعلق تھا اور موسم گرما میں دونوں بزرگ آکسفورڈ تشریف لایا کرتے تھے۔ مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور راقم الحروف نے متعدد بار ان بزرگوں کی زیارت و ملاقات کے لیے آکسفورڈ کا سفر کیا اور ان کی مجالس سے فیض یاب ہوئے۔

اب یہ دونوں بزرگ اس دنیا میں نہیں ہیں مگر اب میرے آکسفورڈ کے سفر میں کشش کا سبب ایک نوجوان عالم و دانش ور بن گئے ہیں جن کا تذکرہ قارئین نے اس کالم میں اس سے قبل بھی پڑھا ہوگا۔ جب بھی کچھ دنوں کے لیے برطانیہ آنا ہوتا ہے مولانا محمد اکرم ندوی کی فرمائش پر آکسفورڈ میں بھی حاضری ہوتی ہے۔ وہ ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلیم یافتہ ہیں، خالص ندوی ذوق رکھتے ہیں اور ہر وقت کتابوں اور تحقیق و مطالعہ میں کھوئے رہتے ہیں۔ امت کی محدثات یعنی علم حدیث حاصل کرنے والی اور اس کی خدمت کرنے والی خواتین کے حالات جمع کرنے کے بارے میں ان کی محنت کا تذکرہ اس سے پہلے کر چکا ہوں، اس سفر میں انہوں نے بتایا کہ آٹھ ہزار محدثات کے حالات منضبط ہو چکے ہیں۔ ایک عرب ملک کے اشاعتی ادارے نے اس کی اشاعت کی ذمہ داری اٹھائی ہے اور ’’الوفاء فی اخبار النساء‘‘ کے نام سے یہ ضخیم کتاب تقریباً تیس جلدوں میں شائع ہونے جارہی ہے۔ اس دفعہ ان کے ساتھ آکسفورڈ حاضری کے لیے یکم اکتوبر جمعہ کا دن طے ہوا اور اس دن کے انتخاب کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ اس روز ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر عبد اللہ احمد البداوی آکسفورڈ تشریف لا رہے تھے اور انہوں نے اسلامک سنٹر کے زیر اہتمام یہاں کے مشہور تعلیمی ادارہ موڈلین کالج کے ہال میں لیکچر دینا تھا۔

میں گیارہ بجے کے لگ بھگ لندن سے بس کے ذریعے آکسفورڈ پہنچا، مولانا محمد اکرم ندوی نے مجھے بس اسٹیشن سے وصول کیا اور سیدھے اسلامک سنٹر لے گئے جو آکسفورڈ کے سٹی سنٹر کے وسط میں ایک بڑی عمارت میں قائم ہے جبکہ اس کے لیے قریب میں ایک وسیع جگہ حاصل کر کے اسلامک سنٹر کی اپنی عمارت زیر تعمیر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ اسلامک سنٹر مکمل تعمیر ہونے کے بعد آکسفورڈ کی ممتاز اور خوبصورت بلڈنگوں میں شمار ہوگا، اس میں وسیع مسجد اور بہت بڑی لائبریری بھی شامل ہے اور اس پورے پروجیکٹ کا تخمینہ ایک سو ملین پونڈ بیان کیا جاتا ہے۔ سنٹر میں ڈاکٹر فرحان احمد نظامی صاحب سے ملاقات ہوئی وہ چونکہ ڈاکٹر بداوی صاحب کے پروگرام کے سلسلہ میں زیادہ مصروف تھے اس لیے یہ ملاقات رسمی علیک سلیک اور پرسش احوال تک محدود رہی ورنہ ان کے ساتھ ملاقات میں ملت اسلامیہ کے حالات و مسائل کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوا کرتی ہے۔

اس کے بعد ہم سٹینلی روڈ کی مدینہ مسجد میں نماز جمعہ کے لیے گئے، یہ آکسفورڈ کی پرانی مسجد ہے۔ خطبہ جمعہ سے قبل مجھے خطاب کے لیے کہا گیا اور میں نے ’’فہم قرآن کی اہمیت اور اس کے تقاضوں‘‘ پر کم وبیش نصف گھنٹہ گفتگو کی۔ اس کے بعد مولانا محمد اکرم ندوی مجھے لنچ کے لیے ایک لبنانی ریسٹورنٹ میں لے گئے، انہوں نے بتایا کہ آکسفورڈ میں یہ کام زیادہ تر لبنانیوں کے ہاتھ میں ہے، ریسٹورنٹ کے عملہ کو جب انہوں نے عربی میں کھانے کا آرڈر دیا تو آکسفورڈ شہر کے وسط میں یہ عربی گفتگو مجھے بہت بھلی لگی۔ انہوں نے پوچھا کہ آج کی اسپیشل ڈش (غذاء الیوم) کیا ہے؟ تو عملہ کی خاتون نے بتایا کہ ’’مغربی کشمش‘‘ آج کی اسپیشل ڈش ہے۔ یہ مراکشی طرز کا کھانا ہے، انہوں نے اس کا آرڈر دے دیا۔ جب وہ سامنے آیا تو اس کی شکل یہ تھی کہ چاول باریک ٹوٹے کی شکل میں ابلے ہوئے تھے جبکہ دو پلیٹوں میں سادہ شوربا تھا اور ایک ایک مالٹے کا جوس ہمراہ تھا۔ پلیٹ بڑی تھی ہم پوری پوری پلیٹ نہ کھا سکے۔ فارغ ہونے پر مولانا اکرم ندوی کاؤنٹر پر بل دینے گئے تو میں بھی ساتھ ہولیا تاکہ دیکھ سکوں کہ چاول گوشت کی ایک پلیٹ کتنے میں ہم نے کھائی ہے۔ دو پلیٹوں اور ان کے متعلقات کا بل بیس پنس کم بیس پونڈ تھا۔ گویا سادہ چاول اور ایک گلاس جوس پر مشتمل لنچ جو گوجرانوالہ میں زیادہ سے زیادہ پچاس ساٹھ روپے میں کیا جا سکتا تھا وہ ہم نے آکسفورڈ میں ایک ہزار روپے فی کس میں کیا۔

کھانے سے فارغ ہو کر پھر اسلامک سنٹر گئے، مولانا اکرم ندوی کا دفتر دیکھا، ان کے کام کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور لائبریری کی بعض کتابوں سے استفادہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ چند ماہ قبل محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ بھی اس سنٹر میں تشریف لائی تھیں اور کچھ معلومات حاصل کی تھیں۔ ڈاکٹر فرحان احمد نظامی موجود نہیں تھے اس لیے مولانا محمد اکرم ندوی، جو پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اب ڈاکٹر محمد اکرم ندوی کہلاتے ہیں، محترمہ بے نظیر بھٹو سے انہیں کی گفتگو ہوئی تھی۔ چار بجے موڈلین کالج میں ڈاکٹر بداوی کا خطاب تھا جس کا اہتمام آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک سٹڈیز نے کیا تھا اور آکسفورڈ کے منتخب ارباب علم ودانش کی ایک بڑی تعداد وہاں جمع تھی۔ ڈاکٹر نظامی صاحب نے صبح کی ملاقات میں ہمیں تاکید کی تھی کہ ذرا جلدی آجانا تاکہ اگلی نشستوں میں جگہ مل جائے ورنہ رش زیادہ ہو گا اور دقت ہوگی۔ چنانچہ ہم چار بجے سے قبل پہنچ گئے اور ہمیں سامنے کی دوسری صف میں جگہ مل گئی۔ ڈاکٹر عبدا للہ احمد البداوی اپنے عملہ اور ڈاکٹر فرحان نظامی کے ہمراہ ہال میں داخل ہوئے، ڈاکٹر نظامی نے مختصر ابتدائی خطاب کیا، معزز مہمان کا خیر مقدم کیا اور تعارفی کلمات کے بعد انہیں خطاب کی دعوت دی۔ کاروائی انگلش میں تھی اس لیے تھوڑا بہت مفہوم سمجھنے کے سوا میں اس سے استفادہ نہیں کر سکتا تھا لیکن مجھے ڈاکٹر مہاتیر محمد کے جانشین کو قریب سے دیکھنے کا شوق تھا اس لیے پوری توجہ کے ساتھ ان کی باتیں سنتا رہا۔ کم و بیش پون گھنٹہ کی گفتگو میں ڈاکٹر بداوی نے اجتہاد اور دیگر بہت سی اسلامی اصطلاحات استعمال کیں اور قرآن کریم کی متعدد آیات درمیان میں پڑھیں جن سے گفتگو کا اندازہ ہو گیا۔ مگر بعد میں جب مولانا اکرم ندوی نے مجھے اس خطاب کے بارے بریفنگ دی اور اس کا خلاصہ بتایا تو دل خوشی کے جذبات سے لبریز ہو گیا اور زبان سے بے ساختہ الحمد للہ جاری ہوا کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد کے جانشین کو ان سے بڑھ کر پایا۔ ان کے خطاب کا متن میں نے حاصل کر لیا ہے اور ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کے کسی آئندہ شمارے میں اس کا مکمل ترجمہ شائع کرنے کا ارادہ ہے، البتہ اس کا خلاصہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔

ڈاکٹر بداوی نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ ایک دینی مدرسہ کے تربیت یافتہ ہیں، ان کے والد اور دادا دونوں عالم تھے اور دادا مرحوم کا مدرسہ تھا جس میں نے انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ تقریر کے دوران وقفہ وقفہ سے انہوں نے قرآن کریم کی مختلف آیات تلاوت کیں تو ان کے تلفظ اور لہجہ سے اندازہ ہو گیا تھا کہ انہوں نے کسی دینی مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ہے اور انہوں نے گفتگو کے آغاز میں خود اس بات کی تصدیق کر دی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک دینی مدرسہ سے فیض یافتہ ہیں، ملائشیا کے وزیر اعظم ہیں اور اسلامی سربراہ کانفرنس تنظیم کے سربراہ ہیں اس لیے وہ اسلام، ملائیشیا اور عالمی صورت حال کے بارے میں جو گفتگو کریں گے وہ پورے استحقاق اور سنجیدگی کے ساتھ بات کریں گے۔ ڈاکٹر بداوی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا جس دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہو رہی ہے وہ خود مغرب کے اپنے رویہ کا رد عمل ہے اور جب تک مغرب اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اپنا طرز عمل تبدیل نہیں کرتا اس وقت تک یہ دہشت گردی جاری رہے گی اور اسے ختم نہیں کیا جاسکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے امریکہ میں یہ کہا کہ مغرب نے مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کر کے ان پر مصنوعی غربت مسلط کر رکھی ہے اور وہ فلسطین کے مسئلہ پر یہودیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے، اس کے رد عمل میں مسلمانوں کے ایک طبقہ میں تشدد کی یہ لہر ابھری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس پر ایک دانش ور نے مجھے کہا کہ آپ کی یہ بات درست نہیں ہے اس لیے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر جن لوگوں نے حملہ کیا تھا وہ نہ غریب ہیں اور نہ فلسطینی ہیں، میں نے کہا کہ یہ مسلمانوں کی باہمی یک جہتی اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو اپنا درد سمجھنے کی علامت ہے۔ ہمارے نزدیک فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں یا عربوں کا نہیں ہے بلکہ پورے مسلمانوں کا ہے اس لیے کہ دنیا کے کسی بھی خطہ کے مسلمانوں کی تکلیف دوسری دنیا کے مسلمان محسوس کرتے ہیں اور اگرچہ ہمیں بہت تقسیم کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اسلامی بھائی چارے اور ہمدردی کا جذبہ مسلمانوں میں آج بھی موجود ہے۔

ڈاکٹر بداوی نے کہا کہ ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنا چاہیے اس لیے کہ اس میدان میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہمیں بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں اجتہاد کا ذکر کیا اور کہا کہ اس حوالہ سے ہم افراط و تفریط کا شکار ہیں، ایک طرف جمود ہے کہ کسی مسئلہ میں اجتہاد کے لیے تیار نہیں اور دوسری طرف ہر مسئلہ میں اجتہاد کی آواز اٹھائی جارہی ہے، جبکہ اصل بات یہ ہے کہ اجتہاد ہماری آج کی بہت بڑی ضرورت ہے اور علماء کرام کو اس ضرورت کا احساس کرنا چاہیے، لیکن اجتہاد ان مسائل میں ہو گا جن میں ہمارے سورسز (قرآن و سنت) خاموش ہیں۔ ڈاکٹر بداوی نے کہا کہ کرپشن بھی ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، قرآن کریم نے کہا ہے کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرو لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو رہا اور زندگی کے مختلف شعبوں میں نا اہلی، بد عنوانی اور کرپشن عام ہے، ہمیں اس پر قابو پانا ہو گا ورنہ ہم اپنے مسائل کے حل کی طرف پیش رفت نہیں کر سکیں گے۔

ڈاکٹر بداوی کا خطاب سننے کے بعد ہم مولانا محمد اکرم ندوی کے گھر کی طرف جاہے تھے کہ راستے میں ایک بازار کے وسط میں کالے پتھروں کے بنے ہوئے ایک نشان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اس نشان کے بارے میں مجھے کچھ معلوم ہے؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو کہنے لگے کی یہاں بازار کے وسط میں کالے پتھروں کے ساتھ اس جگہ کو علامت کے طور پر ممتاز کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں چرچ اور کلیسا سے اختلاف کرنے والوں کو موت کی سز ا دی جاتی تھی، جب آکسفورڈ کلیساؤں اور ان کے مذہبی تعلیمی اداروں کا مرکز ہوا کرتا تھا، چرچ کو ہر معاملہ میں فائنل اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا اور اس کے کسی فیصلے سے اختلاف کی سزا موت ہوتی تھی۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ مغرب کی آج کی مادر پدر آزادی دراصل اسی اندھے مذہبی جبر کا ردعمل ہے۔ اس وقت جبر اپنی انتہاء پر تھا اور آج آزادی اپنی آخری انتہاؤں کو کراس کر رہی ہے جبکہ انسان کی اصل جگہ ان دونوں کے درمیان میں ہے اور اسلام اسی وسط اور توازن کی بات کرتا ہے۔ شام کو ڈاکٹر محمد اکرم ندوی نے کھانے پر کچھ احباب کو مدعو کر رکھا تھا، ان کے ساتھ مختلف مسائل پر گفتگو رہی اور رات سا ڑھے نو بجے کے لگ بھگ میں بس کے ذریعے سے لندن روانہ ہو گیا۔

   
2016ء سے
Flag Counter