کیوبا سے رہائی پانے والے ایک مجاہد کی داستان

   
تاریخ : 
۴ جولائی ۲۰۰۳ء

بحمد اللہ تعالیٰ گزشتہ چونتیس برس سے گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد میں خطابت و امامت کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں۔ جمعہ کی نماز کے بعد ایک عام سی روایت بن گئی ہے کہ کچھ دوست ملاقات کرتے ہیں اور تھوڑی دیر میرے دفتر میں بیٹھتے ہیں، کسی نے کوئی مسئلہ پوچھنا ہوتا ہے، کوئی کسی معاملہ میں مشورہ کے خواہاں ہوتے ہیں اور کوئی ویسے ہی ملاقات اور گپ شپ کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسا عام طور پر مساجد میں دینی جلسوں کے بعد بھی ہوتا ہے، خطاب اور دعا کے بعد کچھ حضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ مصافحہ کریں ملاقات ہو اور تھوڑی بہت گفتگو بھی ہو جائے۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ اسے ’’جلسی‘‘ کہا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ جلسہ کے بعد جلسی سے بچنا کیونکہ اس میں وقت بہت ضائع ہوتا ہے اور بسا اوقات اگلے پروگرام کا شیڈول بھی متاثر ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر وقت اور تھکاوٹ کا مسئلہ نہ ہو تو یہ جلسی یکسر بے فائدہ نہیں ہوتی اور اس میں بہت سی مفید ملاقاتیں اور گفتگو بھی ہو جاتی ہے۔

گزشتہ جمعہ کو نماز جمعہ سے فارغ ہو کر اپنی نشست گاہ کی طرف جا رہا تھا کہ مصافحہ کرنے والے حضرات میں ایک پشتون بزرگ نے مصافحہ کرتے ہوئے کان میں کہا کہ میں پشاور سے آیا ہوں۔ دوسرے شہروں سے اپنے کسی کام کے لیے دوست آتے ہیں تو جمعہ کی نماز کے لیے مرکزی جامع مسجد میں آجاتے ہیں اور مصافحہ و ملاقات میں شریک ہوتے ہیں۔ میں نے سمجھا کہ کوئی اسی قسم کے بزرگ ہوں گے چنانچہ وہ میرے کمرے میں آکر ملاقاتیوں کے حلقے میں ایک طرف بیٹھ گئے تو میں نے کوئی خاص توجہ نہ کی کہ باقی دوستوں کی طرح یہ بھی تھوڑی دیر بیٹھ کر چلے جائیں گے لیکن جب مجلس کے بہت سے دوستوں کے اٹھ جانے کے بعد بھی وہ بدستور بیٹھے رہے تو میں نے اس خیال سے کہ شاید انہیں کوئی کام ہو ان سے پوچھا کہ ہاں خان صاحب فرمائیے۔ انہوں نے جواب دیا کہ پشاور سے آرہا ہوں، ابھی چند روز قبل کیوبا کی قید سے رہا ہو کر آیا ہوں اور آپ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ یہ سنتے ہی پوری مجلس ان کی طرف متوجہ ہوگئی اور مجھے بھی شرمندگی سی ہوئی کہ یہ بات مجھے ان سے پہلے ہی پوچھ لینی چاہیے تھی۔ انہیں قریب بلایا اور پھر مجلس کے اختتام تک مجلس کا محور وہی رہے۔

یہ مولوی محمد علی خان قادری تھے جو تحریک آزادی کے نامور راہنما حاجی صاحب ترنگ زئی کے مزار پر واقع غازی آباد کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب ہیں اور کیوبا کے جزیرہ میں اٹھارہ ماہ تک امریکی قیدی کی حیثیت سے وقت گزار کر گزشتہ ماہ دیگر ۱۶ افراد کے ہمراہ رہا ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ اخبارات میں آپ کے مضامین پڑھتا رہتا ہوں اور اسی وجہ سے آپ سے ملاقات کے لیے آیا ہوں۔ میرے لیے حاجی صاحب ترنگ زئی کا حوالہ ہی کافی تھا کہ وہ برطانوی استعمار کے خلاف اس خطہ کے مسلمانوں کے مسلح جہادِ آزادی کے بڑے کمانڈروں میں سے تھے اور بیسویں صدی کی دوسری دہائی کے دوران ان کے جہادی معرکے اور آزادیٔ وطن کے لیے ان کی مسلح کاروائیاں ہماری آزادی کی جدوجہد کا ایک روشن باب ہیں۔ ان کی جدوجہد کا ہدف برطانوی حکمران اور ان کے گماشتے قادیانی تھے۔ وہ گرفتار ہوئے اور لاکھوں روپے کی ضمانت پر ان کی رہائی ہوئی، پھر دوبارہ گرفتاری کے آرڈر آئے تو وہ چارسدہ کے علاقہ سے ہجرت کر کے آزاد قبائلی علاقہ مہمند ایجنسی چلے گئے جہاں انہوں نے آخر دم تک جہادی سرگرمیاں جاری رکھیں اور وہیں ان کی قبر ہے۔ اس علاقہ کو غازی آباد کا نام دے دیا گیا اور مولوی محمد علی خان قادری موصوف اسی جگہ مرکزی جامع مسجد میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ مجھے تو وہ صرف اتنا ہی بتا دیتے تو میرا سر عقیدت سے خم ہونے کے لیے کافی تھا لیکن کیوبا کے امریکی عقوبت خانے کا نام لے کر انہوں نے دکھتی رگ کو چھیڑ دیا اور پھر انہوں نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا تو دل کے زخموں کے کھرنڈ ایک ایک کر کے چٹختے چلے گئے۔

میری یہ عادت ہے کہ مشکل سے مشکل حالات اور تاریک سے تاریک تر معاملہ میں بھی روشنی اور امید کا کوئی نہ کوئی مثبت پہلو تلاش کرنے کی ضرور کوشش کرتا ہوں چنانچہ وہ اپنی داستان قید بیان کر رہے تھے اور میرا ذہن تاریخ کے مختلف مراحل کی کڑیاں ملانے میں مصروف تھا۔ اور یہ بات میرے لیے اطمینان کا باعث بن رہی تھی کہ حاجی صاحب ترنگ زئی کی جدوجہد کا تسلسل قائم ہے۔ حاجی صاحبؒ کی وفات کو پون صدی کا عرصہ گزر رہا ہے مگر ان کا مرکز ابھی تک جہاد کے عمل سے وابستہ ہے۔ میرے دل کی گہرائیوں میں کوئی مجھے یہ تسلیاں دے رہا تھا کہ قربانیاں، شہادتیں، قید و بند، ہجرت او روقتی شکستوں کے مراحل تو زندہ قوموں کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں لیکن جن قوموں میں آزادی کا جذبہ باقی رہتا ہے اور اس کے تحفظ کے لیے جدوجہد کے عزم کا تسلسل نہیں ٹوٹتا وہ بالآخر آزادی کی منزل سے ہمکنار ہو جایا کرتی ہیں۔

مولوی محمد علی خان قادری نے بتایا کہ وہ افغانستان پر امریکی حملے کے موقع پر پہلے اپنے علاقے میں مجاہدین کی امداد کے لیے مہم چلاتے رہے پھر بیس نومبر ۲۰۰۱ء کو مجاہدین کے ایک بڑے گروہ کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوگئے۔ وہاں انہوں نے جنگ میں حصہ لیا، ان کے ۲۲ ساتھی شہید ہوئے اور وہ متعدد افراد کے ہمراہ گرفتار ہو گئے۔ انہیں پہلے بحری بیڑے پر لے جایا گیا جہاں ۱۳ دن تک پوچھ گچھ ہوتی رہی، انہیں چھوٹے چھوٹے سیلوں میں بند کیا جاتا تھا، کئی کئی گھنٹے کھڑا رکھا جاتا تھا، سونے نہیں دیا جاتا تھا اور طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی تھیں۔ ۱۳ دن کے بعد انہیں کیوبا کے جزیرے میں منتقل کر دیا گیا جہاں وہ ۱۸ ماہ رہے۔ پہلے ۱۶ ماہ اذیتوں کے تھے، تکالیف کے تھے اور جبر و تشدد کے تھے، مسلسل دن رات انہیں بھوکا رکھا جاتا، چھوٹے چھوٹے پنجروں میں بند کر دیا جاتا، سخت سردی میں بدن کے سادہ کپڑوں کے سوا انہیں کوئی کمبل وغیرہ نہیں دیا جاتا تھا، پنجرے سے جب کسی وقت باہر نکالتے تو پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر اور ہاتھوں کو رسیوں سے جکڑ کر رکھا جاتا تھا۔ ذہنی اذیتوں کا سلسلہ الگ تھا مگر قیدیوں کی اکثریت نے صبر و حوصلہ سے کام لیا اور بالآخر جبر کرنے والوں کے حوصلے جواب دینے لگے۔ بسا اوقات ڈیوٹی پر متعین افسر اور کارندے ان سے معذرت کرتے کہ ہم ان کے ساتھ یہ سلوک کرنے پر مجبور ہیں لیکن اس کے باوجود جبر و تشدد کا یہ سلسلہ جاری رہتا۔ ہم ذرا سی حرکت کرتے تو وہ چوکنا ہو جاتے، انہیں اس بات کا زیادہ ڈر رہتا تھا کہ یہ کہیں خودکش حملہ نہ کر دیں۔ ایک بار ہم نے نماز کی اجازت مانگی تو اس کیفیت میں اجازت دی گئی کہ پاؤں میں بیڑیاں اور ہاتھوں میں رسیاں تھیں، اس کیفیت میں ہم نے تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھائے تو اردگرد کھڑے امریکی سپاہیوں نے رائفلیں تان لیں، ہم نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ اس طرح ہاتھ اٹھا کر تم ہم پر حملہ کرنے لگے ہو۔

مولوی محمد علی خان قادری کا کہنا ہے کہ ۱۶ ماہ کے اس تشدد کے بعد ہمارے لیے سہولتوں کا دور شروع ہوا اور مختلف لوگ آکر ہمیں سمجھانے اور طرح طرح کے لالچ دینے لگے۔ لوگ آتے اور ہم سے پوچھتے کہ ہم تو تمہارے خیرخواہ ہیں تم پر پیسے خرچ کرتے ہیں تمہیں امداد دیتے ہیں پھر تم ہمارے خلاف کیوں لڑتے ہو؟ ہم یہ جواب دیتے کہ تم لوگ عالم اسلام کے خلاف جو دشمنی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہو اور فلسطین، کشمیر، عراق، چیچنیا اور افغانستان میں تمہاری وجہ سے جو بے گناہ مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے اس کے ہوتے ہوئے تم ہمارے خیرخواہ کیسے ہو سکتے ہو؟ باقی رہی بات ڈالروں اور امداد کی تو وہ تم اپنے ایجنٹوں کو دیتے ہو جو تمہارے ملازم ہیں اور تمہارے لیے کام کرتے ہیں، ان کی تنخواہ تو تم نے دینی ہی ہے اس کا ہم پر کیا احسان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس پادری صاحبان بھی آتے اور ہمیں قرآن کریم کی وہ آیات سناتے جن میں امن اور صلح کی بات کی گئی ہے، وہ کہتے کہ اسلام تو امن کا مذہب ہے اور صلح و آشتی کا پیغام دیتا ہے۔ ہم ان سے کہتے کہ ہمارا ان آیات پر ایمان ہے لیکن وہ سینکڑوں آیات بھی قرآن کریم ہی کی ہیں جن میں یہود و نصاریٰ کو مسلمانوں کا دشمن بتایا گیا ہے اور ان سے دوستی نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جہاد کی ترغیب دی گئی ہے۔ ہمیں کہا گیا کہ ہمارے خلاف جنگ بند کر دو اور کاروائیاں نہ کرنے کا یقین دلاؤ تو ہم تمہیں امداد دیں گے، مدارس کے لیے تعاون کریں گے، سکول اور ہسپتال یا کوئی اور کام بھی کہو گے تو تمہیں رقوم فراہم کریں گے۔ ہم نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے اور اپنے اوپر دین اور ملت کے ساتھ غداری کا لیبل چسپاں نہیں کر سکتے۔

مولوی محمد علی خان قادری کی باتیں اور داستان طویل ہے، یہ کالم ان کی تفصیلات کا متحمل نہیں، کسی اخباری رپورٹر کو ان کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزارنا چاہیے اور اٹھارہ ماہ کی قید کی تفصیلات ان کے سینے سے کرید کر قوم کے سامنے لانی چاہئیں کہ قوم کا حق صرف کیمپ ڈیوڈ کے مذاکرات، بارگیننگ او رمنصوبوں کی تفصیلات سے باخبر ہونے کا ہی نہیں بلکہ ان منصوبوں کا نشانہ بننے اور سازشوں کا شکار ہونے والے مظلومین کی داستانِ مظلومیت سے آگاہی بھی قوم کا حق ہے۔ بہرحال مولوی محمد علی خان قادری کے بقول اس کیفیت میں کیوبا کے جزیرے میں قید کے اٹھارہ ماہ گزارنے کے بعد انہیں تقریباً ڈیڑھ درجن افراد کے ہمراہ ۲۹ مئی کو رہا کر کے پاکستان روانہ کر دیا گیا او راب وہ اپنے مدرسہ کے اس نقصان کو پورا کرنے کی فکر میں ہیں جون ان کی ڈیڑھ سالہ قید کے دوران ہوا ہے۔ خدا کرے کہ امریکی ڈالروں کی پیشکش کو مبینہ طور پر ٹھکرانے والے اس مولوی محمد علی خان قادری کو اپنے دینی مدرسہ کا بجٹ پورا کرنے اور اس دوران مدرسہ کے ذمہ چڑھ جانے والے قرضہ کی ادائیگی کے لیے کچھ صاحب خیر دوستوں کی توجہ حاصل ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter