الشریعہ بنام ضرب مومن

   
تاریخ اشاعت: 
جون ۲۰۱۳ء

مولانا مفتی ابو لبابہ شاہ منصور نے کچھ عرصہ سے ’’ضرب مومن‘‘ اور ’’اسلام‘‘ میں ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ کے خلاف باقاعدہ مورچہ قائم کر رکھا ہے اور وہ خوب ’’داد شجاعت‘‘ پا رہے ہیں۔ ہم نے دینی وعلمی مسائل پر اختلافات کی حدود کے اندر باہمی مکالمہ کی ضرورت کا ایک عرصے سے احساس دلانا شروع کر رکھا ہے اور اس میں بحمد اللہ تعالیٰ ہمیں اس حد تک کامیابی ضرور حاصل ہوئی ہے کہ باہمی بحث ومباحثہ کا دائرہ وسیع ہونے لگا ہے اور پیش آمدہ مسائل ومعاملات کے تجزیہ وتحقیق اور تنقیح وتحلیل کے ذریعے اصل صورت حال معلوم کرنے کا ذوق بیدار ہو رہا ہے اور یہی ہمارا مقصد بھی ہے۔

ہم نے بحمد اللہ تعالیٰ شروع سے یہ روش رکھی ہوئی ہے کہ اسے مکالمہ کے دائرے میں رکھا جائے اور زبان واسلوب کے لحاظ سے اسے ’’مورچہ ومحاذ‘‘ بنانے سے گریز کیا جائے، لیکن ظاہر بات ہے کہ ہر شخص اسی زبان اور لہجے میں بات کرے گا جس کی اس نے تربیت حاصل کر رکھی ہے اور جو اس کی زندگی کا معمول ہے۔ عادت کیسی بھی ہو، اس کو بدلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ مفتی صاحب محترم کا لہجہ واسلوب قارئین ملاحظہ کر چکے ہیں اور ہم اس میں انھیں معذور سمجھتے ہوئے ایک دو دیگر حوالوں سے اس سلسلے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔

مفتی صاحب کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ جب چاہیں، جو چاہیں اور جس لہجے میں چاہیں لکھیں اور ہفت روزہ ’’ضرب مومن‘‘ اور روزنامہ ’’اسلام‘‘ ان کے ارشادات کو من وعن شائع کرنے کے پابند ہیں جبکہ ہم فقیروں کی صورت حال یہ ہے کہ روزنامہ ’’اسلام‘‘ میں ہمارا ایک کالم جو باقاعدہ شائع ہوتا ہے، اس میں اس قسم کی کوئی بات ہلکے پھلکے انداز میں بھی لکھ دیں تو وہ حذف ہو جاتی ہے اور یہ کہہ کر اس کی اشاعت سے انکار کر دیا جاتا ہے کہ ’’متنازعہ امور پر مضامین شائع کرنا ہماری پالیسی نہیں ہے۔‘‘ مختلف مواقع پر مختلف حوالوں سے ایسا ہوا ہے اور اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ الیکشن سے ایک روز قبل شائع ہونے والے ہمارے کالم ’’نوائے حق‘‘ میں دینی جماعتوں کے امیدواروں میں مصالحت کے سلسلے میں حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی کی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں درج ذیل نوٹ اس کالم میں شامل کیا گیا تھا جسے حذف کر دیا گیا اور اب مجبوراً ہمیں وہ نوٹ ’’الشریعہ‘‘ میں شائع کرنا پڑ رہا ہے:

ایک نظر ادھر بھی

’’محترم مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب کے تازہ ارشادات (اسلام میں) قارئین نے پڑھ لیے ہوں گے۔ میری نظر سے بھی گزر چکے ہیں۔ میں اس سلسلے میں ایک تجویز پیش کرنا چاہوں گا کہ زیر بحث مسائل پر ایک علمی مباحثہ کھلے دل ودماغ کے ساتھ ہو جانا چاہیے جس کے خد وخال میرے ذہن میں کچھ اس طرح سے ہیں کہ:

  • مفتی صاحب موصوف الشریعہ اکادمی اور ماہنامہ الشریعہ کے حوالے سے اپنے اشکالات مرتب شکل میں پیش فرما دیں، ’الشریعہ‘ کی طرف سے ان کی وضاحت کی خدمت میں سرانجام دے دوں گا۔
  • ان اشکالات اور میری طرف سے ان کی وضاحت کے بعد اگر کچھ باتیں دونوں طرف سے مزید وضاحت طلب ہوں تو ا س مکالمہ کو آگے بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔
  • روزنامہ ’’اسلام‘‘ یا ہفت روزہ ’’ضرب مومن‘‘ میں سے کسی ایک کو اس مکالمہ کے لیے منتخب کر لیا جائے تاکہ قارئین کو دونوں طرف کا موقف ایک جگہ پڑھنے کی سہولت مل جائے۔
  • مکالمہ دوستانہ ماحول میں باہمی افہام وتفہیم اور قارئین کی درست سمت میں راہ نمائی کی غرض سے ہو اور زبان واسلوب میں امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے طرز کی پابندی کی جائے۔
  • اس مکالمہ کے نتیجے میں فریقین میں سے جس کسی کی کوئی غلطی سامنے آ جائے، وہ اس سلسلے میں رجوع اور معذرت سے گریز نہ کرے۔

میرے خیال میں اس طرح اس بحث کو مثبت انداز میں سمیٹا جا سکتا ہے اور علما وطلبہ کے ایک بڑے حلقے میں پائے جانے والے اضطراب کو دور کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ محترم مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب میری اس تجویز کے مثبت جواب اور اپنی تجاویز سے جلد نوازیں گے۔‘‘

میں نہیں سمجھ پایا کہ میرے کالم سے اس نوٹ کو حذف کرنے میں روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے مدیر محترم کی کون سی مصلحت پنہاں تھی جبکہ مفتی ابولبابہ صاحب کی تحریریں اس کے بعد بھی مسلسل ’’ضرب مومن‘‘ میں شائع ہو رہی ہیں۔

اسی طرح ۲۴ مئی کو ’’اسلام‘‘ میں شائع ہونے والے کالم ’’نوائے حق‘‘ میں جہاں میں نے گوجرانوالہ میں مسلم مسیحی فساد کا راستہ روکنے کی کوشش پر بشپ آف پاکستان کے شکریے کا ذکر کیا ہے، وہاں یہ جملہ بھی مسودہ میں شامل تھا کہ:

’’میں نے بشپ آف پاکستان کے اس شکریے کا ذکر تو کر دیا ہے، مگر اب اس انتظار میں ہوں کہ عظیم عرب مجاہد امیر عبد القادر الجزائری رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرح مجھ پر بھی ’’عیسائیوں کا گماشتہ‘‘ ہونے کا فتویٰ کب صادر ہوتا ہے؟‘‘

’’اسلام‘‘ کے مدیر محترم کی طبع نازک پر یہ جملہ بھی گراں گزرا ہے اور ان کی قینچی کی نذر ہو گیا ہے۔

’’ضرب مومن‘‘ کے کار پردازان کا رویہ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ ۸ مئی کو روزنامہ اسلام میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں، میں نے امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت وکردار کے حوالے سے ’’ضرب مومن‘‘ کے مضامین کا ذکر کر کے گزارش کی تھی کہ:

’’اس بحث میں میری بعض تحریرات پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے موقف کی وضاحت دو مفصل مضامین کی صورت میں کر دی ہے۔ ۔۔۔ اگر ’’ضرب مومن‘‘ بھی میرے ان دو مضامین کو شائع کر دے تو خود اس کے اپنے قارئین کو متعلقہ مسئلہ کے دونوں پہلوؤں سے واقفیت حاصل ہو جائے گی اور وہ یک طرفہ موقف پر الجھن کا شکار رہنے سے محفوظ رہیں گے۔‘‘

تاہم میری اس گزارش کو کسی بھی درجے میں قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا، بلکہ عزیزم عمار ناصر پر دار الکتاب کی پیشگی اجازت کے بغیر ان کے نام سے کتاب شائع کرنے کا جو بے بنیاد الزام لگایا گیا تھا، عمار خان کی طرف سے اس سے متعلق حقیقی صورت حال کی وضاحت ’’ضرب مومن‘‘ کو بھیجی گئی جس کی اشاعت صحافیانہ اخلاقیات کی رو سے ’’ضرب مومن‘‘ کی ذمہ داری تھی تو مفتی صاحب نے اگلے کالم میں اس کے جواب میں فرمایا کہ ’’ہمارے صفحات میں ایسے حضرات کی کوئی جگہ نہیں، نہ ہمیں شوق ہے کہ کسی کا نرخ اونچا کرتے پھریں۔‘‘

میں سمجھتا ہوں کہ بے بنیاد الزامات اور یک طرفہ پراپیگنڈے کا یہ رویہ ایک ذمہ دار دینی ادارے کی طرف سے شائع ہونے والے اخبار کو کسی بھی لحاظ سے زیب نہیں دیتا اور اخبار کی انتظامیہ کو اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ بہرحال میں سنجیدہ ومباحثہ کی پیش کش پر اب بھی قائم ہوں اور (۱) غامدی صاحب کے افکار (۲) ناموس رسالت کے قانون (۳) مسجد اقصیٰ کی تولیت (۴) عمار ناصر کی مبینہ انفرادی آرا اور (۵) امیر عبد القادر الجزائری سمیت ہر اس مسئلہ پر کھلے دل کے ساتھ بحث ومباحثہ کے لیے تیار ہوں جس کی نشان دہی مفتی ابو لبابہ صاحب فرمائیں گے اور اگر ہماری طرف سے مفتی صاحب محترم کی کسی تحریر پر اشکال کی کوئی بات ہوگی تو مفتی صاحب کو بھی اسی طرح کھلے دل کے ساتھ تیار رہنا چاہیے، مگر اس کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ:

  • مفتی صاحب بحث ومباحثہ کی اخلاقیات اور گفتگو کے ضروری آداب کی پابندی قبول کریں۔
  • اگر یہ بحث ’’اسلام‘‘ یا ’’ضرب مومن‘‘ کے صفحات پر ہونی ہے تو یہ دونوں جرائد اپنی یک طرفہ پالیسی پر نظر ثانی کریں جس کا شرعاً، دیانتاً اور اخلاقاً کوئی جواز نہیں۔ بصورت دیگر اس مقصد کے لیے ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات حاضر ہیں۔

دوسری بات جو اس حوالے سے عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں، یہ ہے کہ مفتی صاحب محترم نے اپنی تحریر کے لیے ’’امام اہل سنت کی بارگاہ میں‘‘ کا گمراہ کن عنوان اختیار کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے موقف یا طرز عمل کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ یہ بات نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ ناقابل برداشت بھی ہے، اس لیے کہ امام اہل سنتؒ کی نہ یہ زبان تھی جو مفتی صاحب نے اپنا رکھی ہے، نہ ان کا یہ طرز عمل تھا جو محدود اور تنگ نظر مسلکی سوچ رکھنے والے کچھ دوستوں کی طرف سے ان کی طرف منسوب کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور نہ ہی علمی وفکری معاملات میں ان کا یہ معمول تھا جو ان کے سر مسلسل تھوپا جا رہا ہے۔

میں مختلف مواقع پر ان امور کے بارے میں حضرت امام اہل سنت کے طرز عمل اور اسلوب کی متعدد بار وضاحت کر چکا ہوں اور اس موقع پر بھی چند ضروری باتیں دوبارہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔

علمی وفکری مسائل میں طرز عمل

فقہی، علمی وفکری مسائل میں باہمی اختلاف ایک فطری عمل ہے اور ہر دور میں ارباب علم ودانش کا معمول رہا ہے کہ وہ اختلاف رائے کے حق کا احترام کرتے تھے اور دلیل ومنطق کے ساتھ اس اختلاف کا اظہار کرتے تھے۔ حضرت امام اہل سنتؒ کا طرز عمل بھی یہ تھا کہ وہ اختلاف کو اختلاف کے دائرے میں رکھتے تھے اور طعن وتشنیع اور مخالفت کا رخ اختیار نہیں کرنے دیتے تھے۔ اس کی بھی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:

  • میں نے طالب علمی کے دور میں، جبکہ میں موقوف علیہ کے سال میں تھا، ہفت روزہ ترجمان اسلام میں ’’مزارعت اور بٹائی‘‘ پر ایک تفصیلی مضمون لکھا جو کئی قسطوں میں شائع ہوا۔ میں نے اس میں حضرت امام ابوحنیفہؒ کے اس موقف کی وکالت کی کہ مزارعت جائز نہیں ہے۔ یہ معروف بات ہے کہ بٹائی یعنی حصے پر زمین دینا حضرت امام اعظمؒ کے نزدیک جائز نہیں ہے اور صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسفؒ اور حضرت امام محمدؒ اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ احناف کا مفتی بہ قول صاحبین والا ہے، مگر میں نے اس تفصیلی مضمون میں یہ موقف اختیار کیا کہ حضرت ملا علی القاریؒ نے لکھا ہے کہ دلائل امام صاحب کے مضبوط ہیں، جبکہ مصلحت عامہ صاحبین کے موقف میں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر ماضی میں صاحبین کا موقف مصلحت عامہ کی وجہ سے اختیار کیا گیا تھا تو آج اگر مصلحت عامہ امام صاحبؒ کا قول اختیار کرنے میں ہو تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ موقف جمہور احناف کے موقف او رمفتی بہ قول کے خلاف تھا اور اس پر مجھے ’’کمیونسٹ‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ مولوی ہونے کے طعنے بھی ملے، مگر حضرت امام اہل سنت نے جب یہ مضمون پڑھا تو اس پر صرف ایک جملہ کہا کہ ’’احناف کا مفتی بہ قول یہ نہیں ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ مجھے معلوم ہے۔ اس کے بعد زندگی بھر ہمارے درمیان اس حوالے سے کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔
  • حضرت امام اہل سنتؒ نماز عید سے قبل تقریر کو صراحتاً بدعت کہتے تھے، جبکہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں حضرت صوفی صاحبؒ کا اور عیدگاہ گراؤنڈ گوجرانوالہ میں ہمارا معمول شروع سے نماز سے قبل تقریر کا چلا آ رہا ہے۔ یہ بات ان کو معلوم تھی اور کبھی کبھی ہمارے درمیان گفتگو بھی ہو جاتی تھی، مگر کبھی ہلکی پھلکی گفتگو سے بات آگے نہیں بڑھی۔
  • رمضان المبارک میں تراویح اور نوافل کے بعد اجتماعی دعا کو وہ بدعت کہتے تھے جبکہ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ان کے استاذ محترم حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کے ہاں اس دعا کا معمول تھا اور میں نے اسی معمول کو اپنایا ہوا ہے۔ حضرت والد محترم کو اس کا علم تھا اور وہ وقتاً فوقتاً بات بھی کرتے تھے، لیکن بات صرف ہلکی پھلکی گفتگو تک رہتی تھی۔
  • اہل تشیع اوربریلوی حضرات کی علی الاطلاق تکفیر کے حوالے سے حضرت والد محترم، حضرت عم مکرم مولانا صوفی عبدالحمید سواتی اور راقم الحروف کے نقطہ نظر کا فرق سب احباب کو معلوم ہے، لیکن یہ مسئلہ کبھی ہمارے درمیان نزاع کا باعث نہیں بنا۔
  • حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی مدظلہ فارمی مرغی کو ’’جلالہ‘‘ کے دائرے میں شامل کرتے ہیں اور اسے حلال نہیں سمجھتے۔ حضرت والد محترم کے علم میں یہ بات تھی اور وہ کبھی کبھی دل لگی میں کچھ کہہ بھی دیتے تھے، لیکن یہ بات کبھی مسئلہ نہیں بنی اور اس دور میں بھی نہیں بنی جب حضرت مفتی صاحب مدظلہ جامعہ نصرۃ العلوم کے دار الافتاء کے سربراہ تھے۔
  • کیمرے اور ٹی وی وغیرہ کی تصویر کے بارے میں حضرت امام اہل سنتؒ کا موقف عدم جواز کا تھا، جبکہ میرا طالب علمانہ رجحان ’’موطا امام محمد‘‘ میں حضرت امام محمدؒ کے قول کی روشنی میں اس کے جواز کی طرف ہے۔ میری یہ رائے حضرت والد محترم کے علم میں تھی، لیکن انھوں نے کبھی اس پر ’’حرام کو حلال کرنے‘‘ کا فتویٰ نہیں لگایا اور نہ اس حوالے سے کبھی مجھ سے کوئی بازپرس کی۔
  • استاذ محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کا اپنا انداز فکر تھا اور ان کے بھی بعض تفردات ہوتے تھے جن کا وہ اپنے سبق کے دوران پوری شدت کے ساتھ اظہار بھی کرتے تھے، لیکن ان کی کوئی اختلافی رائے کبھی مدرسے میں مسئلہ نہیں بنی۔
    حضرت امام اہل سنتؒ کا مزاج، رویہ اور ذوق یہ تھا کہ وہ اختلاف رائے کا حق دیتے تھے، اس کا احترام کرتے تھے اور کسی اختلاف کو مسئلہ بنا لینے کی بجائے اسے اس کی حدود میں رکھتے تھے۔

طرز تکلم اور اسلوب بیان

حضرت والد محترم سے تعلیم حاصل کرنے والے سب شاگرد جانتے ہیں کہ وہ اس بات کی اکثر تلقین کیا کرتے تھے کہ اپنا موقف مضبوط رکھو، لیکن بیان کے لیے الفاظ نرم اختیار کرو اور خیر خواہانہ لہجہ اپناؤ۔ وہ سخت کلامی اور سخت بیانی سے نہ صرف خود گریز کرتے تھے بلکہ اسے برداشت بھی نہیں کرتے تھے اور ٹوک دیتے تھے۔ اس سلسلے میں اپنے دو ذاتی واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

میرا طالب علمی کا ابتدائی دور تھا۔ گکھڑ میں حضرت مولانا قاری سید محمد حسن شاہؒ کا خطاب تھا۔ میرے استاذ محترم جناب قاری محمد انور صاحب نے مجھے چند جملے رٹا کر ان سے پہلے تقریر کے لیے کھڑا کر دیا۔ میں نے مائیک کے سامنے کھڑے ہوتے ہی آؤ دیکھا نہ تاؤ، مرزا غلام احمد قادیانی کا نام لے کر بے نقط سنانا شروع کر دیں۔ حضرت والد محترم اسٹیج پر موجود تھے۔ انھوں نے مجھے گریبان سے پکڑ کر پیچھے ہٹایا اور مائیک پر کھڑے ہو کر باقاعدہ معذرت کی کہ بچہ ہے، جوش میں غلط باتیں کر گیا ہے۔

اسی طرح ایک بار میں نے زمانہ طالب علمی میں بزرگ اہل حدیث عالم مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ کے کسی مضمون کا جواب لکھا جس میں یہ انداز اختیار کیا کہ ’’حافظ عبد القادر یہ کہتا ہے‘‘۔ حضرت والد محترم کو یہ مضمون چیک کرنے کے لیے دیا تو الٹے ہاتھ کا تھپڑ میرے منہ کی طرف آیا کہ تمھارا چھوٹا بھائی ہے جو یوں لکھ رہے ہو؟ ہو سکتا ہے، تمھارے باپ سے بھی بڑا ہو۔ یوں لکھو کہ مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ یوں لکھتے ہیں اور مجھے ان کی بات سے اتفاق نہیں ہے۔

معاشرتی وسماجی تعلقات

حضرت والد محترم کا معاشرتی رویہ بھی ماضی کے اہل علم کی طرح مثالی اور آئیڈیل تھا۔ وہ مسلکی اور علمی اختلاف کی وجہ سے باہمی میل جول، ملاقات اور خوشی غمی میں شرکت ترک نہیں کر دیتے تھے۔ اس کی چند مثالیں پیش کرنا چاہوں گا۔

  • حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ اہل حدیث مکتب فکر کے بزرگ عالم دین تھے۔ ان کی وفات ہوئی تو ان کے جنازے میں حضرت والد محترمؒ اور حضرت عم مکرمؒ کے ساتھ میں نے بھی شرکت کی۔
  • ایک اور اہل حدیث بزرگ عالم دین حضرت مولانا حافظ محمد گوندلویؒ کی وفات پر حضرت والد محترمؒ کو بروقت اطلاع نہ مل سکی تو وہ دوستوں سے سخت ناراض ہوئے کہ انھوں نے بتایا کیوں نہیں، وہ ان کے جنازے میں شریک ہونا چاہتے تھے۔
  • مسئلہ حیات النبی پر حضرت والد محترمؒ ، حضرت صوفی صاحبؒ اور حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ کی ایک دوسرے کے جواب میں تصانیف سے کون واقف نہیں؟ لیکن اس کے باوجود ہمارا قاضی خاندان کے ساتھ میل جول کا تعلق شروع سے قائم ہے اور بحمد اللہ اب بھی ہے۔ حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب فراش تھے تو والد محترم مجھے اور عمار خان کو ساتھ لے کر ان کی عیادت کے لیے ان کے گھر گئے۔ اس موقع پر یہ عجیب سی بات ہوئی کہ میں نے حضرت قاضی صاحبؒ سے جب یہ عرض کیا کہ ’’حضرت! تین پشتیں حاضر ہیں‘‘ تو وہ رونے لگ گئے۔
  • حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب کے جنازے میں حضرت والد محترمؒ او رحضرت صوفی صاحبؒ کے ساتھ راقم الحروف اور ہمارے خاندان کے دیگر افراد نے بھی شرکت کی۔
  • حضرت مولانا قاضی عصمت اللہؒ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو حضرت امام اہل سنت نے نہ صرف ان کے جنازے میں شرکت کی بلکہ خود جنازہ پڑھایا۔
  • حضرت والد محترم کی بیماری کے دوران حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحبؒ کی بیمار پرسی کے لیے متعدد بار تشریف لائے۔ حضرت قاضی صاحب بیمار ہوئے تو میں ان کی بیمار پرسی کے لیے جاتا رہا اور بحمد اللہ تعالیٰ ان کے جنازے میں شرکت کی سعادت بھی حاصل کی۔ اب بھی ہم دونوں خاندان ایک دوسرے کی خوشی غمی میں حسب موقع شریک ہوتے ہیں اور اگر کہیں ملاقات ہو جائے تو ماتھے پر تیوریاں چڑھا کر ادھر ادھر نہیں دیکھنے لگ جاتے، بلکہ محبت واحترام کے ساتھ ملتے ہیں، ایک دوسرے کا حال پوچھتے ہیں اور ایک دوسرے کو دعا دیتے ہیں۔
  • خود ہمارے خالو محترم مولانا عبد الحمید قریشی مرحوم جمعیۃ اشاعۃ التوحید والسنۃ کے سرگرم راہ نما تھے، لیکن اس کے باوجود حضرت والد محترم نے ان کے ساتھ خاندانی روابط میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔ انھیں خوشی غمی کے ہر موقع پر شرکت کی دعوت دی جاتی تھی اور ان کے ہاں خوشی غمی کے مواقع پر حضرت والد محترم اپنے اہل خانہ کی طرف سے نمائندگی کو یقینی بناتے تھے۔

مشترکہ سیاسی وتحریکی جدوجہد

امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اجتماعی دینی وقومی مسائل کے دائرے میں مختلف مکاتب فکر کی مشترکہ جدوجہد میں شریک رہے ہیں اور بھرپور تحریکی وسیاسی زندگی گزاری ہے جس کی چند جھلکیاں درج ذیل ہیں:

  • وہ تحریک پاکستان سے قبل جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام کے باقاعدہ کارکن تھے اور ان کی تحریکی سرگرمیوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ وہ اس دور میں مجلس احرار اسلام کے رکن بلکہ رضا کار رہے ہیں جب اس کی قیادت میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کے ساتھ ساتھ مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ ، مولانا مظہر علی اظہرؒ اور صاحب زادہ سید فیض الحسنؒ بھی شامل تھے۔
  • وہ کم وبیش ربع صدی تک جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ضلعی امیر رہے ہیں اور جمعیۃ کے مرکزی اجلاسوں میں شرکت کے لیے انھوں نے ڈھاکہ تک کے اسفار کیے ہیں۔ اس دوران جمعیۃ ملک کے جس سیاسی یا دینی متحدہ محاذ میں شامل رہی ہے، وہ اس کا حصہ اور متحرک کردار رہے ہیں۔ اس میں پاکستان قومی اتحاد، آل پارٹیز مجلس عمل تحفظ ختم نبوت اور متحدہ مجلس عمل بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
  • انھوں نے ۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں آل پارٹیز مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے خود گرفتاری پیش کی تھی اور کم وبیش دس ماہ جیل میں رہے تھے۔ اس وقت مجلس عمل کے صدر بریلوی مکتب فکر کے مقتدر راہ نما مولانا سید ابو الحسنات قادریؒ تھے۔
  • جب مجاہد اسلام حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور قائد اہل سنت حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ نے متحدہ محاذوں میں شرکت سے اختلاف کرتے ہوئے الگ راستہ اختیار کیا تو امام اہل سنت نے ان بزرگوں کے تمام تر احترام کے باوجود ان کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ تمام متحدہ محاذوں کا حصہ رہے اور تحریکوں میں کردار ادا کرتے رہے۔
  • انھوں نے پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کی اپنے علاقے میں قیادت کی اور فائرنگ کی ڈیڈ لائن کو عبور کرتے ہوئے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ لیا اور پھر کم وبیش ایک ماہ جیل میں رہے۔
  • اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جب وہ مسلسل بستر علالت پر تھے، انھوں نے متحدہ مجلس عمل کا ساتھ دیا اور گکھڑ سے قومی اسمبلی کے لیے ایم ایم اے کے امیدوار جناب بلال قدرت بٹ کی کھلم کھلا حمایت کی جو جماعت اسلامی کے ضلعی امیر تھے۔ بٹ صاحب الیکشن تو نہ جیت سکے، لیکن حضرت امام اہل سنت کی اس علانیہ حمایت کی وجہ سے گکھڑ میں انھوں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے۔ اس کی صدائے بازگشت حالیہ انتخابات میں بھی سنی گئی۔ بلال قدرت بٹ اس بار جماعت اسلامی کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ ان کے حریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار جناب میاں طارق محمود نے گکھڑ میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلال قدرت بٹ سے مخاطب ہو کر کہا کہ پچھلی بار تو تمھیں مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے یہاں سے ووٹ دلوا دیے تھے، اب دیکھتا ہوں تمھیں کون ووٹ دیتا ہے!

حضرت امام اہل سنت کے حوالے سے یہ چند باتیں میں نے نکتہ واضح کرنے کے لیے تحریر کر دی ہیں کہ ان کا اسلوب گفتگو، طرز عمل اور ذوق ومزاج ہرگز وہ نہیں تھا جس کو ان کی طرف منسوب کرنے یا ان کے ’’زیر سایہ‘‘ اختیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی بات اپنی ذمہ داری پر کریں اور اپنی فائرنگ کے لیے حضرت امام اہل سنت کا کندھا استعمال کرنے سے گریز کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter