وکلاء تحریک اور ہمارے مذہبی رہنما

   
تاریخ : 
۱۶ جون ۲۰۰۸ء

وکلاء کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ گیا ہے اور اس کے قائدین کا عزم ہے کہ وہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت تمام معزول ججوں کی بحالی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ لانگ مارچ میں ملک بھر سے وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے کارکن شریک ہوئے، ان کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے، اگرچہ پنجاب کے گورنر جناب سلمان تاثیر نے اسے ’’شارٹ مارچ‘‘ سے تعبیر کر کے اور اس کا نتیجہ ’’زیرو بٹا زیرو‘‘ بتا کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سیاسی حلقے سمجھ رہے ہیں کہ وکلاء نے دستور کی بالادستی، عدلیہ کی خود مختاری اور پی سی او کے تحت معزول کیے جانے والے معزز ججوں کی بحالی کے لیے جو صبر آزما جدوجہد شروع کر رکھی ہے اس میں واضح پیش رفت نظر آرہی ہے۔ اور اس کا فوری نتیجہ خدانخواستہ برآمد نہ ہوا تو بھی لانگ مارچ سے اس تحریک کو آگے بڑھنے کا حوصلہ ملا ہے، اور اگر وکلاء کی قیادت نے حوصلہ نہ ہارا تو وہ قوم کو دستور کی بالادستی اور خودمختار عدلیہ کی منزل سے ہمکنار کرنے میں ضرور کامیاب ہوگی۔ اس تحریک میں میاں محمد نواز شریف اور عمران خان کی شرکت سے سیاسی حلقوں اور قاضی حسین احمد کی شمولیت سے دینی حلقوں کی نمائندگی بھی ایک حد تک دکھائی دے رہی ہے، ورنہ دینی حلقوں کی معروف قیادتیں اس کی صف اول میں کہیں نظر نہیں آرہیں حالانکہ اپنے موقف اور کاز کے حوالے سے دستور کی بالادستی اور عدلیہ کی خودمختاری کے لیے سب سے زیادہ انہیں متحرک ہونا چاہیے تھا۔

اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ شخصی حکومت کی بجائے دستور و قانون کی حکومت کی بات کرتا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا کہ

’’اپنے حکمرانوں کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو اگرچہ تم پر سیاہ فام اور ناک کٹا حبشی غلام ہی حکمران بنا دیا جائے، جب تک کہ وہ تم میں کتاب اللہ کے مطابق حکومت کریں۔‘‘

اس ارشادِ نبویؐ سے علماء عمرانیات نے یہ اصول اخذ کیا ہے کہ اسلام میں حکومت موروثی نہیں ہے اور ایک حبشی غلام بھی حکومت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اور اسی طرح اسلام میں شخصی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ حکمران کو قانون و دستور (کتاب اللہ) کے دائرے میں رہنا ہوگا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علی مرتضٰیؓ پر مشتمل خلافتِ راشدہ میں خلافت کا تسلسل موروثیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ عوامی رائے اور شورائیت کے حوالے سے تھا۔ حتیٰ کہ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد جب حضرت حسنؓ نے حضرت معاویہؓ کے حق میں دستبرداری اختیار کی اور امتِ مسلمہ نے انہیں خلیفۃ المسلمین تسلیم کر لیا تو ان کی اس خلافت کی بنیاد بھی موروثیت پر نہیں تھی۔ موروثی خلافت کو نظریۂ ضرورت کے تحت صدیوں تک تسلیم تو کیا جاتا رہا ہے لیکن اسے کبھی آئیڈیل اور اصولی حیثیت حاصل نہیں ہو سکی۔ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ بننے کے بعد اپنے پہلے خطبہ میں قرآن و سنت کے احکام کی پابندی کا اعلان کیا اور اپنی رعیت کو اختیار دیا کہ اگر وہ قرآن و سنت کے خلاف چلیں تو ان کا محاسبہ کیا جائے اور انہیں سیدھا کر دیا جائے۔ تاریخ میں اسے ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کا نام دیا گیا۔

اسلام کا مزاج یہی ہے، اسی لیے جب پاکستان بننے کے بعد تمام مکاتبِ فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے ۲۲ متفقہ دستوری نکات کا اعلان کیا تو اس میں یہ اصول واضح طور پر طے کر دیا کہ حکومت عوام کی منتخب کردہ ہوگی اور قرآن و سنت کی پابند ہوگی۔ اس میں علماء کرام نے ایک مستقل دفعہ کے طور پر یہ اصول پیش کیا کہ رئیس مملکت کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوگا کہ وہ دستور یا اس کے کسی جزو کو معطل کر کے اپنی مرضی سے حکومت کرنے لگے۔ اس اصول کی روشنی میں دینی جماعتوں کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ پی سی او کے خاتمے اور دستور کی بالادستی کے لیے چلائی جانے والی اس تحریک کا ساتھ دیتیں بلکہ اس کی قیادت میں پیش پیش ہوتیں، لیکن جماعت اسلامی کے سوا کوئی دینی جماعت اس میں نمایاں دکھائی نہیں دے رہی۔ جمعیۃ علماء پاکستان کے انجینئر سلیم اللہ اور صاحبزادہ پیر سید امین الحسنات شاہ اور جمعیۃ اہل حدیث کے سینیٹر پروفیسر ساجد میر صاحب شخصی طور پر اس تحریک کی حمایت میں سرگرم ہوئے لیکن اپنی جماعتوں کو متحرک نہ کر سکے۔

جمعیۃ علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے سابقہ پی سی اوز کی آڑ لیتے ہوئے موجودہ پی سی او کے خلاف تحریک کا حصہ بننے سے گریز کیا ہے بلکہ تحفظات کا اظہار کر کے من جملہ مخالفت ہی کے راستے کو ترجیح دی ہے۔ حالانکہ اگر سابقہ پی سی اوز کے خلاف کوئی تحریک منظم نہیں ہو سکی تو اس سے ان کے جواز پر استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اگر موجودہ پی سی او کے خلاف تحریک کا ماحول بن گیا ہے تو ماضی کے کسی غلط طرز عمل کو اس میں شرکت سے گریز کا بہانہ بنانا درست طرز عمل نہیں ہے۔ دستور کو جب بھی معطل کیا گیا اور جس نے بھی کیا وہ نہ دستوری اور قانونی لحاظ سے صحیح تھا، نہ اخلاقی اور سیاسی حوالے سے جائز تھا اور نہ ہی قرآن و سنت اور علماء کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات کی روشنی میں اس کا کوئی جواز بنتا ہے۔ مگر مولانا فضل الرحمان گزشتہ پی سی اوز کو قبول کیے جانے کی آڑ میں موجودہ پی سی او کو جواز کا راستہ دینے کی بالواسطہ کوشش کر رہے ہیں جو ایک دینی جماعت کی قیادت کے شایانِ شان نہیں ہے اور انہیں بہرحال اس پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

مولانا سمیع الحق کی جمعیۃ علماء اسلام نے گزشتہ دنوں وکلاء کی تحریک کی حمایت اور اس میں شریک ہونے کا اعلان کیا تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے جمعیۃ (س) کے رہنماؤں کو مبارکباد دی۔ مگر وہ اعلان اور قرارداد سے آگے نہ بڑھ سکے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وکلاء کی اس تحریک میں جو اپنے موقف کے حوالے سے بالکل درست اور قومی امنگوں کی ترجمان ہے، علماء کرام کی دور دور تک نمائندگی موجود نہیں ہے اور کم و بیش علماء کی سب بڑی جماعتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ ہم نے پاکستان شریعت کونسل کے فورم سے پنجاب بار کونسل لاہور میں وکلاء کے متعدد اجلاسوں میں شرکت کی اور اخبارات میں تحریک کی حمایت کا بار بار اعلان بھی کیا مگر ہم بھی اس اعلان تک ہی محدود رہے۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ پاکستان شریعت کونسل اپنی ہیئت اور دستور کے حوالے سے کسی تحریک یا انتخابی سیاست میں حصہ دار نہیں بن سکتی اور اس کا دائرہ علمی اور فکری جدوجہد تک محدود ہے۔

راقم الحروف گزشتہ منگل کو جب مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر اور مولانا حافظ ذکاء الرحمان اختر کے ہمراہ لاہور ہائی کورٹ بار کے کراچی ہال میں منعقدہ وکلاء کے اجلاس میں شریک ہوا اور وہاں موجود قیادت کو وکلاء کی تحریک کی حمایت کا یقین دلایا تو دوسری طرف سے بھی کوئی نمایاں ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ شاید وکلاء کی قیادت بھی یہ چاہتی ہے کہ علماء اور دینی جماعتیں اس تحریک کا ساتھ تو دیں اور اس میں شریک بھی ہوں لیکن تحریک کی قیادت میں وہ نمایاں نظر نہ آئیں اور نہ ہی اسلام کا نعرہ اس فورم سے بلند ہونے پائے۔ انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ وکلاء تحریک کی قیادت اسلام کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ کا شکار ہے اور تحریک میں سول سوسائٹی کے نام سے جو این جی اوز گھس گئی ہیں بلکہ پیش پیش ہیں ان کی کوشش بھی یہ ہے کہ اسلام کا نعرہ اور علماء کی جماعتیں اس تحریک سے دور ہی رہیں۔

بہرحال دینی جماعتوں کے اپنے تحفظات ہوں، وکلاء تحریک کی قیادت پر بین الاقوامی دباؤ ہو، یا سول سوسائٹی کے پردے میں متحرک این جی اوز کی کارستانی ہو، اس وقت وکلاء کی تحریک اور دینی جماعتوں کے درمیان صورتحال کچھ اس طرح دکھائی دے رہی ہے کہ:

کچھ وہ کھچے کھچے رہے کچھ ہم کھچے کھچے رہے
اس کشمکش میں ٹوٹ گیا رشتہ چاہ کا
   
2016ء سے
Flag Counter