فلسطینی عوام، عالمی ضمیر اور مسلمان حکمران

   
۱۷ جولائی ۲۰۱۴ء

فلسطینی عوام ایک بار پھر صہیونی جارحیت کی زد میں ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی فضائی اور زمینی کاروائیوں نے سینکڑوں فلسطینیوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ کے غیور اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی آزادی کی اور تشخص کو مکمل طور پر پامال کر دینے پر تل گیا ہے اور اسے حسب سابق مغربی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان فلسطینی عوام کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ فلسطین کے باشندے ہیں۔ اپنے اس حق سے دستبردار ہونے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں اور اس کے لیے مسلسل قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔ اب سے ایک صدی قبل برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتے ہوئے انہیں دنیا بھر سے وہاں لا کر بسانے اور ان کی ریاست قائم کرانے کا جو معاہدہ کیا تھا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نے ہر قسم کی انسانی، اخلاقی اور سیاسی حدود کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اسے نہ صرف پورا کیا ہے بلکہ وہ اس کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کر کے فلسطین کو الگ اور آزاد وطن دینے کا جو وعدہ کر رکھا ہے، اقوام متحدہ کے اصولوں اور بین الاقوامی معاہدات کی دنیا بھر میں دہائی دینے والے مغربی ممالک کو اس کا بھی کوئی پاس نہیں ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کر کے فلسطین اور اسرائیل کے نام سے دو آزاد ریاستیں قائم کی تھیں اور ان کی سرحدوں کا تعین بھی کر دیا تھا۔ اگرچہ اس حوالہ سے مسلم ممالک میں دو الگ الگ موقف پائے جاتے ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے اس تقسیم کو تسلیم نہیں کیا اور وہ اسرائیل کو ایک جائز ریاست کے طور پر قبول نہیں کر رہے، مگر مصر، اردن اور بعض دیگر مسلم ممالک نے اس تقسیم کو تسلیم کر رکھا ہے اور اسرائیل کو ایک قانونی ریاست کا درجہ دیا ہوا ہے، بلکہ خود فلسطینیوں میں الفتح اور حماس کے موقف اس سلسلہ میں الگ الگ ہیں۔ لیکن فلسطین کی تقسیم کو بالفرض تسلیم کرتے ہوئے بھی اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق جس آزاد فلسطین ریاست کو قائم ہونا چاہیے تھا، اس کا دنیا کے نقشے پر کوئی وجود نہیں ہے اور میونسپلٹی طرز کی فلسطینی اتھارٹی قائم کر کے فلسطینیوں کو ان کی اپنی حکومت کے لالی پاپ پر بہلانے کی فریب کاری تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بلکہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی مقرر کردہ بین الاقوامی سرحدوں کو پامال کر کے جن علاقوں پر گزشتہ نصف صدی سے قبضہ کر رکھا ہے، ان میں بیت المقدس بھی شامل ہے۔ انہیں اسرائیل سے واگزار کرانے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔

جو لوگ اسرائیل کو ایک جائز ریاست تسلیم نہیں کرتے اور فلسطین کی تقسیم کے فیصلے کو منصفانہ نہیں سمجھتے، ہم بھی ان میں شامل ہیں، لیکن اسے ایک طرف رکھتے ہوئے خود تقسیم فلسطین کے اس بین الاقوامی فیصلے کے دو بنیادی تقاضے ہیں۔ ایک یہ کہ فلسطینیوں کی آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کی جائے جو کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت اور نگرانی سے پاک ہو۔ دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کی مقرر کردہ سرحدوں کو پامال کر کے اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے، انہیں اس سے واگزار کرایا جائے۔ عراق نے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کر کے کویت پر قبضہ کیا تھا تو ہر طرف ہاہاکار مچ گئی تھی اور امریکہ نے اقوام متحدہ کی چھتری تلے فوجی کاروائی کر کے کویت کی خود مختاری کو بین الاقوامی سرحدات کے تقدس کے نام پر بحال کرا دیا تھا، لیکن اسرائیل نے دن دہاڑے بیت المقدس پر ناجائز قبضہ کیا اور مصر، شام اور اردن کی مسلمہ سرحدوں کو روند ڈالا مگر اقوام متحدہ خود بھی اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے مغربی ممالک بھی نصف صدی سے منقار زیر پر ہیں۔

سوال یہ ہے کہ دنیا پر اپنی چودھراہٹ کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی ممالک فلسطینیوں اور عرب ممالک کے اس جائز حق کی بحالی کے لیے سنجیدگی کیوں اختیار نہیں کر رہے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں فلسطینی مہاجرین اور فلسطین کے اندر اسرائیل کی بار بار جارحیت کا نشانہ بننے والے مظلوم فلسطینی انہیں دکھائی کیوں نہیں دے رہے؟ اس سے زیادہ ستم ظریفی کا منظر یہ ہے کہ عالم اسلام اور عرب ممالک میں بھی اس حوالہ سے کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ یوں لگتا ہے جیسے عالم عرب اور مسلم امہ نے بھی فلسطینیوں کو حالات بلکہ اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مسلم حکومتوں کو اپنی داخلی حدود میں شدت پسندی اور بغاوت تو دکھائی دیتی ہے اور اسے کچلنے کے لیے وہ اپنی پوری قوت صرف کر رہی ہیں، لیکن اس شدت پسندی اور بغاوت کا باعث بننے والی بین الاقوامی دہشت گردی اور اسرائیلی جارحیت ان کو دکھائی نہیں دیتی اور انہوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ حالانکہ اگر مسلم ممالک متفق ہو کر اسرائیل، کشمیر، اراکان اور اس جیسے دیگر سلگتے ہوئے مسائل پر جرأت مندانہ موقف اور کردار اختیار کرنے کا حوصلہ کر لیں تو یہ داخلی شدت پسندی اور بغاوت خود ان مسلم ممالک کی اپنی قوت کا رخ بھی اختیار کر سکتی ہے۔

مسلم حکمران تھوڑی دیر کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچیں کہ مسلم دنیا کے کسی حصے میں ’’خلافت‘‘ کا نعرہ ابھرتا ہے تو دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کی آنکھوں میں چمک کیوں آجاتی ہے اور ان کے دلوں کی دھڑکن کیوں تیز ہو جاتی ہے؟ دراصل مسلم امہ خلافت کے اس کردار کو زندہ رکھنا چاہتی ہے کہ سندھ میں راجہ داہر کی قید میں ایک مسلم خاتون اپنی بے بسی پر فریاد کرتی ہے تو عراق میں خلیفۂ وقت کا مقرر کردہ گورنر حجاج بن یوسفؒ اس کی مدد کے لیے بے چین ہو جاتا ہے اور اپنے بھتیجے محمد بن قاسمؒ کی کمان میں فوج روانہ کر دیتا ہے۔ یہ کردار امت مسلمہ کی ضرورت ہے اور وقت کا تقاضا ہے۔ اگر مسلم حکمرانوں میں یہ کردار اختیار کرنے کی سوچ اور حوصلہ موجود ہے اور وہ اسے روبہ عمل لانے کی کوئی صورت نکال سکتے ہیں تو شاید حالات کچھ سنبھل جائیں۔ ورنہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ خلا اور حبس زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے اور حبس جس قدر شدید ہو اس کی طرف بڑھنے والی آندھیوں کی رفتار بھی اسی حساب سے تیز ہوا کرتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter