درسی کتب سے مذہبی مواد حذف کرنے کی کاروائی

   
تاریخ : 
اگست ۲۰۰۶ء

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۲ جولائی ۲۰۰۶ء کی خبر کے مطابق سعودی عرب نے درسی کتب میں مذہبی عقائد سے متعلق کٹر خیالات کو حذف کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق سعودی عرب نے درسی کتابوں سے کٹر عقائد اور خیالات کو حذف کرکے اصلاحات کے مخلصانہ رویے کا ثبوت دیا ہے اسی لیے اس پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ معطل کر دیا گیا ہے۔ سعودی عرب میں امریکی سفیر جان یان فورڈ نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ اور ان کی حکومت نے اصلاحات پر عملدرآمد کا جو قدم اٹھایا ہے وہ قابل ستائش ہے تاہم اب بھی چند کتب میں تکلیف دہ ریمارکس موجود ہیں۔

خبر میں ان کٹر عقائد اور خیالات کی نشاندہی نہیں کی گئی جو مبینہ طور پر امریکی مطالبہ پر کتابوں سے حذف کیے گئے ہیں لیکن مسلم ممالک میں نصابی کتب کے حوالہ سے امریکہ کے جو مطالبات ریکارڈ پر ہیں ان کے پیش نظر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ سعودی عرب کی درسی کتب میں شامل کن باتوں کو ہدف اعتراض قرار دیا گیا ہوگا اور کون سے مواد کو نصاب تعلیم سے خارج کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا ہوگا۔ مسلم ممالک کے تعلیمی نصاب کے بارے میں امریکہ اور اس کی قیادت میں مغرب کا یہ اعتراض ہے کہ مسلمانوں کو ان کتابوں میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ:

  • اسلام حق مذہب ہے اور اس کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب باطل ہیں، مغرب کے نزدیک اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کو باطل قرار دینا اور ان کے خلاف مسلم نوجوانوں کی ذہن سازی کرنا کٹر پن اور انتہا پسندی شمار ہوتا ہے،
  • اسی طرح دنیا پر اسلام کے غلبے کی بات کرنا اور اسلامی تہذیب و تمدن کو دنیا کی دوسری تہذیبوں سے بہتر قرار دینا بھی انتہا پسندی کی علامت ہے،
  • کسی بھی مسلمان ملک میں اسلام کو ریاستی فیصلوں کی بنیاد بنانا اور ان کو حکومتی پالیسیوں کے لیے راہنما قرار دینا بھی انتہا پسندی اور دقیانوسیت کا اظہار ہے،
  • جبکہ جہاد کے احکام اور مسائل تو سرے سے دہشت گردی کا عنوان بتائے جاتے ہیں۔

اس پس منظر میں سعودی عرب پر ڈالا جانے والا دباؤ اسی نوعیت کا ہے جیسا دباؤ ہمارے ملک میں مسلسل بڑھایا جا رہا ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران ریاستی تعلیمی نصاب میں اصلاحات کے نام سے بتدریج کرتے جا رہے ہیں۔ مغرب کا کہنا ہے کہ وہ آزادی اور جمہوریت کا علمبردار ہے اور افراد، طبقات اور قوموں کے لیے آزادی کی بات کرتا ہے لیکن وہ مسلم ممالک کے عوام کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دیں اور اسلامی احکام و قوانین کے علم سے انہیں آراستہ کریں۔ مغرب قرآن و سنت کے بارے میں اس فیصلہ کا اختیار بھی خود حاصل کرنا چاہتا ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کو قرآن و سنت کے کون سے حصے کی تعلیم دیں اور کس کو تعلیمی نصاب سے خارج کریں۔مغرب اپنے لیے تو یہ حق باقی رکھتا ہے کہ وہ اپنی تہذیب کو سب سے بہتر تہذیب قرار دے، اپنے فکر و فلسفہ کو بالاتر فکر و فلسفہ کے طور پر پیش کرے اور اس کے مقابلہ میں اسلام سمیت دنیا کے ہر فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کو ملیامیٹ کرنے کے لیے دولت، طاقت، جبر اور دھونس کا ہر حربہ استعمال کرے، لیکن دوسرے فلسفوں اور تہذیبوں کے لیے یہ حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ وہ خود کو بہتر قرار دیں اور اسلام کے لیے تو وہ کسی صورت میں یہ بات سننے کا روادار نہیں ہے کہ مسلمان اسلام کو دنیا کے دوسرے مذاہب اور تہذیبوں سے بہتر کہیں اور اسے ایک عالمی فلسفہ اور نظام حیات کے طور پر پیش کریں۔

اس پس منظر میں ہمیں ان مسلمان دانشوروں پر حیرت ہوتی ہے جو یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی بڑی آسانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش تہذیبی نہیں ہے اور اسے تہذیبوں کے درمیان تصادم قرار دینا درست نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ بھی تہذیبی کشمکش نہیں ہے تو پھر تہذیب اور کشمکش دونوں الفاظ کے معانی تبدیل کرنا پڑیں گے۔ ہم مسلمان دانشوروں سے اس حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ اس صورتحال کا معروضی انداز میں از سر نو جائزہ لیں اور مسلم ممالک میں مسلم نوجوانوں کو دی جانے والی تعلیم کے نصاب اور اہداف کو جبرًا تبدیل کرانے کے اس مکروہ عمل کے خلاف اپنا کردار ادا کریں۔

   
2016ء سے
Flag Counter