ملک کا عدالتی بحران اور حکومت کی ذمہ داری

   
تاریخ : 
اپریل ۲۰۰۷ء

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب محمد جسٹس افتخار چودھری کو غیر فعال کرنے کے بعد جبری رخصت پر بھیجے دینے کی کاروائی سے ملک میں جو بحران پیدا ہوا ہے اس کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے۔ پورے ملک کی وکلاء برادری اس پر سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور انہیں اس سلسلہ میں اپوزیشن کی سیاسی و دینی جماعتوں اور عوامی حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ جسٹس محمد افتخار چودھری جب سے ملک کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ بنے ہیں تب سے قومی اور عوامی نوعیت کے مقدمات میں ان کی دلچسپی نمایاں رہی ہے اور جہاں انہوں نے پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری اور اس جیسے دیگر مقدمات میں حکومت کے موقف کو مسترد کرکے عوام کے خیال میں قومی مفادات کا تحفظ کیا ہے وہاں انسانی حقوق سے متعلق متعدد معاملات کا از خود نوٹس لے کر بہت سے لوگوں کی داد رسی کا اہتمام بھی کیا ہے، جبکہ نازک اور حساس نوعیت کے بعض دیگر مقدمات بھی ان کی میز پر تھے اور عوامی حلقے یہ توقع کر رہے تھے کہ وہ ان میں بھی قومی مفادات کے تحفظ کے جذبہ کے ساتھ جرأت مندانہ فیصلے کریں گے۔

اس پس منظر میں چیف جسٹس موصوف کے خلاف جو کاروائی عمل میں آئی ہے اس پر عوام میں شدید ردعمل کا ظاہر ہونا فطری بات ہے اور اس کا اظہار مختلف فورموں سے مسلسل جاری ہے۔ حکومت نے چیف جسٹس موصوف کے خلاف سپریم جوڈیشیل کونسل میں ایک ریفرنس بھی دائر کیا ہے جس میں ان پر مختلف نوعیت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں مگر انہوں نے ان الزامات کو تسلیم کرنے کی بجائے سپریم جوڈیشیل کونسل میں پیش ہو کر الزامات کا سامنا کرنے اور اپنی بریت ثابت کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان سے تقاضہ کیا گیا تھا کہ وہ ان الزامات کے باعث اپنے منصب سے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہوجائیں لیکن انہوں نے اس سے انکار کر دیا ہے اور اپنے دفاع کا فیصلہ کیا ہے۔

ان الزامات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے بارے میں سردست کچھ نہیں کہا جا سکتا اور اب جبکہ یہ کیس سپریم جوڈیشیل کونسل میں زیر سماعت ہے اس لیے ان الزامات پر کوئی تبصرہ کرنا بھی نامناسب اور قبل از وقت ہوگا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان الزامات کے ثبوت فراہم کرے اور جسٹس محمد افتخار چودھری کا حق ہے کہ وہ اپنی بریت کے شواہد اور دلائل کونسل کے سامنے لائیں اور ان الزامات کو غلط ثابت کریں، اس کے بعد سپریم جوڈیشیل کونسل ہی اس سلسلہ میں حتمی فیصلہ کی مجاز ہے۔ البتہ ہم ان الزامات کے حوالہ سے کچھ گزارش کیے بغیر یہ بات ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اس کے لیے جو طریق کار اختیار کیا گیا ہے وہ درست نہیں ہے اور اس سے جہاں عدالت عظمیٰ کا وقار مجروح ہوا ہے وہاں حکومت نے بھی اپنی عزت میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ ملک کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ کو جس انداز میں غیر فعال کرنے کی کاروائی کی گئی ہے اور انہیں مسلسل کئی روز تک اپنے خاندان سمیت جس افسوسناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے اس سلوک کی کسی عام شہری کے بارے میں بھی توقع نہیں کی جا سکتی تھی چہ جائے کہ ملک کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ کو اس طرز عمل کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

چیف جسٹس کے بارے میں شکایات کی صورت میں حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دستور کے مطابق ان کے خلاف ریفرنس لائے اور اس کے پاس اس امر کا جواز بھی موجود ہے کہ انہیں ریفرنس دائر کرنے کے ساتھ جبری رخصت پر بھیج دے۔ لیکن جو کچھ ہوا ہے اور جن مناظر کا دنیا بھر نے میڈیا کے ذریعے مشاہدہ کیا ہے اسے کسی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس حوالہ سے ملک کی وکلاء برادری جو احتجاج کر رہی ہے وہ اس میں حق بجانب ہے۔ ہم حکومت سے گزارش کریں گے کہ وہ اس سلسلہ میں عدالت عظمیٰ کے وقار اور عوامی جذبات و احساسات کی پاسداری کرتے ہوئے چیف جسٹس موصوف کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس ناروا سلوک پر ان سے اور پوری قوم سے معذرت کرے اور اس کی تلافی کے لیے ضروری اقدامات کا اہتمام کرے۔

   
2016ء سے
Flag Counter