عالم اسلام اور مغرب کے درمیان غلط فہمیاں

   
تاریخ : 
مئی ۲۰۰۷ء

روزنامہ پاکستان لاہور ۲۳ اپریل ۲۰۰۷ء کی خبر کے مطابق لاہور کے ایک ہوٹل میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیشنل آفیئرز (پائنا) کے زیر اہتمام ’’اسلام اور مغرب کے مابین درپیش چیلنجز اور مواقع‘‘ کے عنوان سے سیمینار منعقد ہوا جس میں قومی سطح کے بہت سے دانشوروں کے علاوہ اسپین سے یونیورسٹی آف بار سلونا کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر پری ویلا نووہ اور پروفیسر راحیل بیونو نے بھی خطاب کیا، مقررین نے جن خیالات کا اظہار کیا ان کے اہم نکات یہ ہیں:

  • مغرب اور اسلام میں غلط فہمیاں دور ہو رہی ہیں، اگر دونوں ایک دوسرے کی اچھی باتیں اپنا لیں تو اسلام مغرب سے جمہوریت، شہریوں کے انسانی حقوق، علم اور ٹیکنالوجی کا سبق سیکھ سکتا ہے، جبکہ مغرب اسلام کے خاندانی نظام کو اپنا کر اپنے بہت سے معاشرتی مسائل دور کر سکتا ہے۔
  • دنیا میں مسلمانوں کے مسائل حل کرنا ہوں گے جن میں فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ سر فہرست ہے۔
  • آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام اور مغرب مل کر غربت اور بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے جنگ کریں۔
  • دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ بیڈ گورننس، موقع پرست سیاستدانوں اور فوجی حکومتوں کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔
  • مغرب کی نظر میں مسلمان ممالک جمہوریت سے دور ہیں مگر دوسری طرف امریکہ اور مغربی ممالک اپنے مفادات کے لیے غیر جمہوری مسلم حکومتوں کی حمایت کرتے ہیں۔
  • مغرب کی نسبت مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کو خود بہت مارا ہے، مسلمان آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔
  • دہشت گردی کے بارے میں اقوام متحدہ صحیح تعریف وضع نہیں کر سکا، آزادی کی جنگ اور دہشت گردی میں فرق واضح ہونا چاہیے۔

اس قسم کے اور بہت سے نکات اس سیمینار کے موقع پر مختلف دانشوروں کی طرف سے سامنے لائے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک قابل توجہ ہے اور اس پر سنجیدگی کے ساتھ بحث و مکالمہ کی ضرورت ہے۔ ہم سردست صرف ایک حوالہ سے کچھ عرض کرنا چاہیں گے کہ یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ مغرب اور عالم اسلام میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے اور انہی مبینہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے جذبہ سے ہمارے بہت سے دانشور مکالمہ، مذاکرہ اور دیگر ذرائع سے مصروف عمل رہتے ہیں۔

  1. لیکن کیا مغربی دنیا اور خاص طور پر مغربی دنیا کی وہ سطح جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اس وقت برسر جنگ ہے واقعتاً اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہے؟
  2. اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس کی وجہ چند غلط فہمیاں ہیں جنہیں دور کر دیا جائے تو ان کے رویہ میں تبدیلی آجائے گی؟

ہمیں اس کا جواب اثبات میں دینے میں تامل ہے اور ہمارے نزدیک یہ بات بجائے خود ایک بہت بڑی بلکہ اس دور کی سب سے بڑی غلط فہمی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مغربی دنیا کی مختلف سطحیں ہیں اور ہر سطح کی صورتحال مختلف ہے لیکن مغرب کا وہ مقتدر اور بالادست طبقہ جو اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسلام اور اسلامی عناصر کو کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے اور جو مسلم دنیا میں اسلامی ثقافت و تمدن اور مذہبی روایات و اقدار کو پروپیگنڈا اور قوت کے زور سے دبا کر مغرب کی اباحت مطلقہ پر مبنی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے تمام ممکنہ حربے استعمال کر رہا ہے، اس کے بارے میں یہ سوچنا کہ وہ یہ سب کچھ کسی غلط فہمی کی وجہ سے کر رہا ہے، ہمارے نزدیک مسلم دانشوروں کی خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

ہم اپنے دانشوروں سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ وہ خود اس غلط فہمی اور خود فریبی سے نکلیں اور اس حقیقت کا ادراک کریں کہ یہ سب کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے پروگرام کے تحت ہو رہا ہے، جس کا مقصد مسیحیت، بدھ مت اور ہندو مت کی طرح اسلام کو بھی انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے بے دخل کرنا ہے۔ اگر ان دانشوروں کو مغرب کے اس ہدف سے اتفاق ہے تو وہ ’’نام نہاد غلط فہمیاں‘‘ دور کرنے کی کوشش کرتے رہیں، لیکن اگر وہ اس سے اتفاق نہیں رکھتے اور اسلام کے معاشرتی کردار پر ان کا ایمان قائم ہے تو خدا کے لیے غلط فہمیوں کے چکر میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو اسلام کے معاشرتی کردار کے تحفظ اور بحالی کے لیے استعمال میں لائیں اس لیے کہ ’’مسلم دانشور‘‘ کی حیثیت سے ان کی یہی ذمہ داری بنتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter