عالمی استعمار کے روبوٹس اور افغان طالبان کا امتحان

   
تاریخ اشاعت: 
۴ جنوری ۲۰۱۹ء

افغان طالبان کی طرف سے کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی کے ساتھ مذاکرات سے دوٹوک انکار پر اس بات پر اطمینان میں اضافہ ہوا ہے کہ تاریخ کا عمل اگرچہ سست رفتار ہے مگر اس کا رخ صحیح سمت ہے اور دھیرے دھیرے صورتحال واضح ہوتی جا رہی ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایک عرصہ سے افغان طالبان پر یہ دباؤ تھا کہ وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کریں یا کم از کم مذاکرات کے عمل میں اسے شمولیت کا موقع دیں، مگر امارت اسلامیہ افغانستان نے گزشتہ روز حتمی طور پر واضح کر دیا ہے کہ اگلے ماہ سعودی عرب میں اس کے نمائندوں کے مذاکرات براہ راست امریکہ سے ہوں گے اور ان میں کابل کی کٹھ پتلی انتظامیہ کی شمولیت قبول نہیں کی جائے گی۔ افغانستان کی تاریخ، جہاد افغانستان اور امارت اسلامیہ افغانستان سے آگاہی رکھنے والوں کے لیے یہ بات خلاف توقع نہیں بلکہ باعث اطمینان ہے اور وہ اس اصولی موقف پر امارت اسلامیہ افغانستان کی استقامت اور کامیابی کے لیے مسلسل دعاگو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

اٹھارہ سال قبل جب امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان پر لشکرکشی کی تھی، ہم نے انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ یہ مہم کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگی اور اتحادی فوجوں کو بالآخر یہاں سے بے نیلِ مرام واپس جانا پڑے گا۔ اگرچہ ایسا ہونے میں ہمارے اندازے سے زیادہ تاخیر ہوگئی ہے جس کی وجہ بہت سے عسکری گروپوں کی جلدبازی اور بے تدبیری تھی کہ انہوں نے اردگرد غیر ضروری جنگیں چھیڑ کر خود کو مشکل میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کے لیے بھی رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں اور ان کے اس غلط طرزعمل کی سزا پورے خطہ بلکہ عالم اسلام کو بھگتنا پڑ رہی ہے، مگر اس سب کچھ کے باوجود افغان قوم کی تاریخ اور مزاج کے پیش نظر یہ تو ہونا ہی تھا کہ افغانستان پر عسکری یلغار کرنے والی غیر ملکی فوجیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے گھر واپس چلی جائیں۔

مغرب کی یہ حکمت عملی برطانوی استعمار کے نوآبادیاتی تسلط میں بھی رہی ہے کہ مسلم ملکوں کے دارالحکومتوں میں ہر جگہ ’’اشرف غنی‘‘ بٹھا دیے جائیں، جو امریکی استعمار کی بالادستی کے بعد بھی ہر طرف موجود ہیں اور استعماری آقاؤں کے ساتھ معاملات طے کرنے میں ہر جگہ یہی لوگ پیش پیش رہتے ہیں۔ یہ لوگ سیاست و حکومت میں بھی ہیں، معیشت و اقتصادیات میں بھی ہیں، میڈیا اور لابنگ میں بھی ہیں اور عسکری دائرے بھی ان کے وجود سے خالی نہیں ہیں۔ پورے عالم اسلام کی یہی صورتحال ہے۔ البتہ ایک فرق جو تاریخ کے میرے جیسے طالب علموں کو محسوس ہو رہا ہے کہ یورپی استعماری ممالک اپنی نوآبادیوں میں جس کو ’’اشرف غنی‘‘ بناتے تھے اس کی عزت و احترام اور سیکریسی کا خیال رکھتے تھے اور کام لے چکنے کے بعد بھی اسے تحفظ فراہم کرتے تھے، جبکہ امریکی استعمار کی شروع سے یہ پالیسی رہی ہے کہ جس سے کام لے لیا جائے، وہ اسے بے نقاب بھی خود کرتے ہیں اور اس کی تذلیل و تحقیر بھی پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ فلپائن کے مارکوس، ایران کے رضا شاہ پہلوی اور عراق کے صدام حسین کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ اس کی نفسیاتی وجہ کچھ بھی ہو، ایک فائدہ اس کا یہ ہے کہ امریکیوں کی اس افتاد طبع کے باعث اب ایسے لوگوں کی تلاش کے لیے کسی خاص ریسرچ کا اہتمام نہیں کرنا پڑتا بلکہ استعمال کرنے والے خود ہی بول پڑتے ہیں اور ہر ایسے شخص کو خود اپنے ہاتھوں انجام تک پہنچا دیتے ہیں۔

ہم بھی پاکستان میں گزشتہ سات عشروں میں بہت سے ایسے لوگ بھگت چکے ہیں اور خدا جانے اور کتنے بھگتنا پڑیں گے۔ سیاست، معیشت، لابنگ اور میڈیا کے ساتھ ساتھ فکر و دانش میں بھی بہت سے حضرات یہی ’’کیپ‘‘ پہنے ہوئے قوم کی راہنمائی بلکہ نمائندگی کا منصب سنبھالے بیٹھے ہیں اور بے چاری سیدھی سادی پاکستانی قوم انہی کو اپنا نمائندہ اور ترجمان سمجھتے ہوئے چرکے پر چرکے کھائے چلی جا رہی ہے۔

مغرب کی سیاسی قیادت اور ارباب فکر و دانش سے ہم اس مرحلہ میں یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ انہیں معروضی حقائق کا ادراک اور ان کا احترام کرنا چاہیے اور مسلم امہ کے ساتھ ان کے جو معاملات حل طلب ہیں اس کے لیے انہیں حقیقی قیادتوں سے بات کرنا ہوگی اور ’’روبوٹس‘‘ کو درمیان سے ہٹا کر مسلم امہ سے بحیثیت امت معاملات طے کرنا ہوں گے، ورنہ معاملات اسی طرح گڑبڑ رہیں گے اور کوئی مسئلہ بھی صحیح رخ پر آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ جناب شوکت عزیز کے دور حکومت میں پروٹسٹنٹ مسیحی فرقہ کے عالمی سربراہ آرچ بشپ آ ف کنٹربری اسلام آباد تشریف لائے تو ہم نے اس وقت یہ سوال اٹھایا تھا کہ آرچ بشپ آف کنٹربری تو مسیحی دنیا کے پروٹسٹنٹ فرقہ کے مسلمہ سربراہ ہیں، مگر ان کے سامنے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے والے شوکت عزیز صاحب مسلمانوں کے کون سے مذہبی مکتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں؟ مذاکرات اصل فریقوں میں ہوں تو وہی نتیجہ خیز ہوتے ہیں ورنہ وہ محض ’’مذاکرات مذاکرات‘‘ کا کھیل بن کر رہ جاتے ہیں۔

دس بارہ سال قبل کی بات ہے میں امریکی ریاست ورجینیا کے علاقہ اسپرنگ فیلڈ کے ایک دینی مرکز دارالہدٰی میں چند روز کے لیے قیام پذیر تھا، کچھ دوست ملنے کے لیے آئے جو دوسرے ممالک سے آکر امریکہ میں رہائش اختیار کرنے والے امریکی تھی اور اپنا تعلق کسی تحقیقاتی ادارے سے بتا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس موضوع پر ریسرچ کر رہے ہیں کہ سوویت یونین کے خلاف جہاد افغانستان کے باعث دنیا بھر میں جو غیر ریاستی عسکریت پسندی پھیل گئی ہے اسے کس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ سادہ سی بات ہے کہ جن لوگوں نے یہ صورتحال پیدا کی ہے وہی مل بیٹھ کر اس کا حل نکالیں۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ یہ سب کچھ صحیح ہوا ہے یا غلط مگر یہ تسلیم کرتا ہوں کہ سوویت یونین کے خلاف لڑی جانے والی جہاد افغانستان کی جنگ دنیا کے مختلف حصوں میں پرائیویٹ عسکریت پسندی کا باعث بنی ہے اور اسے کنٹرول کرنے کی ضرورت بھی محسوس کرتا ہوں، مگر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس سارے عمل میں دو فریق بنیادی کردار رکھتے ہیں۔ پہلے نمبر پر وہ افغان مجاہدین جنہوں نے سوویت یونین کے خلاف یہ جنگ لڑی ہے اور ان کی حمایت و امداد کے لیے دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے مسلمان ہیں، جبکہ دوسرا فریق امریکہ کی قیادت میں انہیں سپورٹ کرنے والے عالمی ادارے اور حکومتیں ہیں۔ ان دونوں کی مشترکہ جدوجہد کی وجہ سے سوویت یونین پسپا ہوا اور افغانستان میں تشکیل پانے والی عسکریت پسندی دنیا بھر میں پھیل گئی، اب اس معاملہ کو کنٹرول کرنے کے لیے دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کا وجود اور کردار تسلیم کرنا ہوگا اور اس کے حل کے لیے مشترکہ سوچ بچار اور منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک مسلسل عمل میں تو دونوں شریک کار تھے اور ایک دوسرے کا اعتراف و احترام کرتے تھے لیکن اس کے منفی نتائج کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں۔ یہ غیر منطقی بات ہوگی جس کا نتیجہ مثبت نہیں ہو سکتا، اس کا حل صرف یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ان جہادی گروپوں کا وجود اور کردار تسلیم کریں جنہوں نے ان کے تعاون سے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی تھی اور اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ وہ ان کے ’’کرائے کے سپاہی‘‘ نہیں تھے بلکہ افغانستان کی خودمختاری اور اسلامی نظام کے نفاذ کا اپنا ایجنڈا رکھتے تھے، جنہیں حالات کے تقاضوں نے ان کے ساتھ شریک عمل بنا دیا تھا۔ یہ بات انصاف کی نہیں ہے کہ جنگ جیتنے والے دو گروہوں میں سے ایک فریق تو اپنے سارے ثمرات سمیٹ لے اور فوائد حاصل کر لے مگر دوسرے فریق کو ان کے اہداف و مقاصد سے محروم رکھنے کا طرز عمل اختیار کیے رکھے۔

افغان طالبان اور امارت اسلامیہ افغانستان کا معاملہ اسی نوعیت کا ہے، امریکہ اگر فی الواقع خطہ میں امن چاہتا ہے تو اسے امارت اسلامیہ افغانستان کا وجود تسلیم کرنا ہوگا، ان کے ایجنڈے کا احترام کرنا ہوگا اور کسی ’’اشرف غنی‘‘ کو ان کے سامنے میز پر بٹھا دینے کی بجائے ان سے خود بات کرنا ہوگی اور براہ راست معاملات طے کرنا ہوں گے۔ ہمیں اس مرحلہ پر افغان طالبان کی یہ حکمت عملی درست معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے حالات کا صحیح ادراک کرتے ہوئے امریکہ سے کہہ دیا ہے کہ وہ براہ راست اس کے ساتھ مذاکرات کریں گے اور اس کے روبوٹس کو مذاکرات کی کرسی پر نہیں بیٹھنے دیں گے۔ البتہ یہ افغان طالبان کا بہت بڑا امتحان ہوگا کہ وہ کس طرح افغانستان کے تمام طبقات کو اعتماد میں لے کر ایک ایسی قومی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو سکیں گے جو افغانستان کی خودمختاری، استحکام اور نفاذ شریعت کی ضامن بن سکے، اور اس سلسلہ میں ایسی تمام بے تدبیریوں سے بچنے کی کوشش کریں گے جن کی وجہ سے ان کے پہلے دور میں ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ ہم افغان طالبان سے امید رکھتے ہیں کہ وہ معروضی حقائق کا اعتراف و ادراک کرتے ہوئے حقیقت پسندی کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے اور افغانستان کی قومی خودمختاری کی بحالی کے ساتھ ساتھ افغان قوم کے اسلامی تشخص کے تحفظ اور جہاد افغانستان کے نظریاتی اہداف کی تکمیل کے لیے حکمت و تدبر سے کام لیں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مغرب کے ساتھ مسلم امہ کے حل طلب مسائل میں ہر مسئلہ پر بات ہو سکتی ہے، الجھنوں کا حل نکالا جا سکتا ہے اور تنازعات کو سلجھایا جا سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ ہر جگہ اور شعبہ میں مذاکرات اصل فریقوں کے درمیان ہوں، امارت اسلامیہ افغانستان اپنے اس اصولی موقف پر تحسین کی مستحق ہے اور اب امریکی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ معاملات کو صحیح رخ پر آگے بڑھاتی ہے یا ابھی اس کا موڈ کچھ عرصہ اور مذاکرات کے اس کھیل میں وقت برباد کرنے کا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter