شادی کے مقدس بندھن کا مذاق نہ اڑایا جائے

   
تاریخ : 
نومبر ۲۰۱۱ء

چند ماہ قبل جس روز اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں پاکستانی ہم جنس پرستوں کا اجتماع ہوا، اسی روز نیویارک میں سینکڑوں ہم جنس مرد جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ شادی کے قانونی بندھن میں بندھے تھے اور نیویارک کے میئر نے اس تقریب کی صدارت کی تھی۔ جبکہ مرد اور عورت کی فطری شادیوں کی صورتحال یہ ہے کہ روزنامہ پاکستان لاہور نے ۲۵ ستمبر کو یہ خبر شائع کی ہے:

’’لاس اینجلس (اے پی پی) انجلینا جولی اور بریڈ پٹ کے بچوں نے ان پر شادی کرنے کا دباؤ ڈالنا شروع کر دیا، ہالی وڈ کی مشہور جوڑی انجلینا جولی اور بریڈپٹ گزشتہ ۶ سال سے ایک ساتھ زندگی گزار رہی ہے مگر ابھی تک انہوں نے شادی نہیں کی۔ دونوں اسٹار ۶ بچوں کے والدین ہیں، ۳ بچے ان کے اپنے اور ۳ انہوں نے گود لیے ہیں۔ ان بچوں نے ان پر شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے، بچوں کا کہنا ہے کہ اب ان کو شادی کر لینی چاہیے کیونکہ آنے والے وقت کا کچھ نہیں کہا جا سکتا کب دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔ بچوں کا کہنا ہے کہ دونوں کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جانے سے ان کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا۔‘‘

اس سے اگلے روز ۲۶ ستمبر کو روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق چیچہ وطنی ضلع ساہیوال کے ایک شہری ایوب مسیح نے اپنے کتے کی شادی محنت کش صابر کی کتیا سے کر دی ہے، وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق کتے کی بارات لے کر صابر کے گھر گیا، کتے کے گلے میں ہار ڈالا گیا اور کتیا کو سرخ عروسی جوڑا پہنایا گیا، بارات کی خاطر تواضح کی گئی اور کتیا کو دلہن کی طرح رخصت کیا گیا۔ کتیا کے مالک صابر نے کہا ہے کہ میں نے اس کتیا کو بڑے لاڈ پیار سے پال کر بڑا کیا ہے اور آج میں نے اسے ایک بیٹی کی طرح رخصت کیا ہے۔

شادی ایک مقدس بندھن ہے جو انسانی سوسائٹی کی فطری ضرورت ہے اور خاندان اور رشتوں کے وجود و تعارف کی اساس ہے۔ آسمانی تعلیمات میں اسے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت قرار دیا گیا ہے اور اسی سے رشتوں، خاندانوں، قبیلوں اور قوموں کے ادارے تشکیل پاتے ہیں۔ آسمانی مذاہب میں شادی کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی حدود اور قوانین و ضوابط وضع کیے گئے ہیں، لیکن مغرب نے جب سے آسمانی تعلیمات سے دستبرداری اختیار کر کے شادی کو محض دو انسانوں کا اپنی جنسی ضروریات کی تکمیل کا معاہدہ قرار دے رکھا ہے ، شادی، خاندانی روایات اور نکاح مذاق بن کر رہ گئے ہیں اور اس مقدس بندھن کی توہین اور اس کے ساتھ استہزا کا یہ ذوق مشرقی ممالک اور افراد میں بھی سرایت کرتا جا رہا ہے۔

میں جب ۱۹۸۷ء میں پہلی بار امریکہ گیا تو بروکلین (نیویارک) کی مکی مسجد میں چند پاکستانی نوجوان ایک جوڑے کو لے کر آئے اور کہا کہ ان کا نکاح پڑھا دیں، لڑکا پاکستانی مسلمان تھا اور لڑکی امریکن تھی اور عیسائی تھی، مجھے مکی مسجد کے خطیب صاحب نے کہا کہ آپ ان کا نکاح پڑھا دیں، میں نے نکاح پڑھا کر لڑکے کو مبارک باد دی تو اس نے خدا جانے کس ترنگ میں آکر یہ جملہ کہا کہ ہم تو کئی سالوں سے اکٹھے رہ رہے ہیں، آج ان دوستوں نے زور دیا کہ دو کلمے بھی پڑھ لینے چاہئیں تو ہم ان کے ساتھ آگئے۔ مجھے سخت حیرت اور پریشانی ہوئی کہ چند سا ل سے امریکہ میں رہنے والے ایک پاکستانی کا یہ حال ہے تو یہاں کے اصل باشندوں کی حالت کیا ہو گی؟ یہ سب کچھ آسمانی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ ہے، انسانی سوسائٹی جب تک آسمانی تعلیمات اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ارشادات و ہدایات کی طرف واپس نہیں جاتی، مقدس انسانی رشتوں کے ساتھ یہ افسوسناک یہ مذاق اسی طرح ہوتا رہے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter