عید الفطر پر تذبذب کی صورتحال اور اس کا حل

   
تاریخ : 
۴ دسمبر ۲۰۰۳ء

عید الفطر گزر گئی ہے اور ملک بھر میں روایتی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی ہے۔ رؤیت ہلال کا تنازع حسب توقع عید کے موقع پر بھی قائم رہا۔ صوبہ سرحد کی رؤیت ہلال کمیٹی نے اپنے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے پیر کی شام کو اجلاس طلب کر لیا اور سینکڑوں شہادتوں کی بنیاد پر فیصلہ صادر کر دیا کہ عید الفطر ۲۵ نومبر منگل کو ہوگی۔ صوبہ بلوچستان کی رؤیت ہلال کمیٹی نے بھی اس حد تک صوبہ سرحد کا ساتھ دیا کہ چاند دیکھنے کے لیے اجلاس پیر کی شام کو طلب کر لیا مگر کوئی شہادت نہ ملنے کی وجہ سے بدھ کی عید کا اعلان کر دیا۔ جبکہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمن اپنے سابقہ فیصلے پر قائم رہے اور نہ صرف پیر کو کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس شام کو چاند دیکھے جانے کے بارے میں صوبہ سرحد کی رؤیت ہلال کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والی شہادتوں کو بھی رد کر دیا۔ اس تنازع کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ صوبہ سرحد کے بیشتر حصوں میں منگل کو عید منائی گئی اور باقی تین صوبوں اور صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں بدھ کو عید ہوئی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پشاور شہر میں بھی یہ صورتحال رہی کہ بہت سے لوگ عید منا رہے تھے جبکہ بعض حضرات روزے سے تھے جنہوں نے دوسرے روز عید کی، حتٰی کہ گورنر سرحد نے بھی وفاق کا نمائندہ ہونے کی بنا پر بدھ کو نماز عید الفطر ادا کی۔

یہ صورتحال خلاف توقع نہیں تھی، ہم اس کالم میں یہ عرض کر چکے تھے کہ اگر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی اور صوبہ سرحد کی رؤیت ہلال کمیٹی کے درمیان، یا مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور ارکان کے مابین تنازع کو ختم کرانے کے لیے عید سے قبل فریقین کو بٹھانے اور مصالحت کرانے کی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو عید الفطر خلفشار کا شکار ہو جائے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور اگرچہ خلفشار کا دائرہ زیادہ وسیع نہیں ہوا مگر رؤیت ہلال کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے جو صرف اس لحاظ سے نئی ہے کہ ایک طویل وقفے کے بعد یہ بحث دوبارہ شروع ہوئی ہے، ورنہ اس میں زیر بحث آنے والے مسائل اور نکات میں کوئی نکتہ ایسا نہیں ہے جس پر اس سے قبل تفصیل کے ساتھ گفتگو نہ ہو چکی ہو، کیونکہ کم و بیش ربع صدی پہلے طویل مباحثے کے بعد قومی سطح پر اس بات پر اتفاق رائے ہو گیا تھا کہ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی قائم کی جائے اور عید یا رمضان المبارک کے چاند کے بارے میں اسی کے اعلان کو حتمی تصور کیا جائے۔

ہمارے خیال میں اس تنازع سے رونما ہونے والے خلفشار کا دائرہ وسیع نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کی رؤیت ہلال کمیٹی کو عید کا چاند پیر کی شام کو دیکھنے جانے کی شہادتیں نہیں ملیں ورنہ رمضان المبارک کے چاند میں کوئٹہ کی رؤیت ہلال کمیٹی پشاور کی رؤیت ہلال کمیٹی کے ساتھ متفق تھی۔ اور اگر عید کے چاند میں بھی دونوں کا اتفاق ہو جاتا تو اس خلفشار کا دائرہ ملک کے دوسرے حصوں تک بڑھ سکتا تھا، اس لیے کہ کراچی کے ایک ذمہ دار مفتی صاحب نے مجھے ذاتی طور پر بتایا ہے کہ کراچی کے جن علماء کرام نے رمضان کے چاند کے بارے میں مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کو کسی حد تک مشکوک قرار دے کر اعتکاف احتیاطاً ایک دن پہلے بیٹھنے اور احتیاط ہی کے طور پر ایک روزہ قضا کرنے کا جو اعلامیہ جاری کیا تھا، اس میں پشاور کی رؤیت ہلال کمیٹی کا اعلان اصل بنیاد نہیں بنا تھا بلکہ کوئٹہ کی رؤیت ہلال کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والی شہادتوں اور مذکورہ کمیٹی کے فیصلے کے باعث کراچی کے چند سرکردہ علماء کرام نے یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عید کے چاند کے بارے میں کوئٹہ کی رؤیت ہلال کمیٹی کو چند شہادتیں مل جاتیں اور وہ منگل کی عید کا فیصلہ کر دیتی تو کراچی اور دوسرے شہروں کے ان علماء کرام کے لیے بھی منگل کو عید نہ کرنے کا اعلان مشکل ہو جاتا جو اس سے قبل قوم کو اعتکاف ایک دن پہلے بیٹھنے اور ایک روزے کی احتیاطاً قضا کرنے کا مشورہ دے چکے تھے۔

ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں پیر کی شام تک تذبذب کی فضا موجود تھی۔ بہت سے مراکز میں جہاں ۲۹ویں شب کو تراویح میں قرآن کریم ختم کرنے کا عرصہ سے معمول چلا آ رہا ہے، انہوں نے احتیاطاً ایک روز قبل ۲۸ویں شب کو قرآن کریم مکمل کر لیا تھا۔ اور چونکہ اس قسم کے معاملات میں مرکزی جامع مسجد کے اعلان کو شہر میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اس لیے مغرب کے بعد سے ہی فون پر لوگوں نے سوال کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور جب پشاور کی رؤیت ہلال کمیٹی نے مبینہ طور پر سینکڑوں شہادتوں کی بنیاد پر منگل کی عید کا اعلان کر دیا تو ان رابطوں میں اضافہ ہو گیا اور بعض بزرگوں نے مجھ سے یہ تقاضا شروع کر دیا کہ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کی طرف سے بھی منگل کو عید منانے کا اعلان کر دیا جائے، مگر میرے پیش نظر تین باتیں تھیں۔

  1. ایک یہ کہ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں کے علماء کرام کا موقف کیا ہے؟ اسے معلوم کرنا چاہیے اور جو فیصلہ بھی ہو اس کا اعلان اجتماعی طور پر کرنا چاہیے تاکہ خلفشار کو کم سے کم دائرے میں محدود کیا جا سکے۔
  2. دوسری بات یہ تھی کہ کم و بیش ربع صدی کی محنت کے ساتھ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا اعتماد اور ساکھ اس درجے پر آئی ہے کہ اس کے اعلان کو رؤیت ہلال کے بارے میں قومی سطح پر حتمی تصور کیا جاتا ہے، اس لیے ایک وقتی تنازع اور اختلاف کی وجہ سے اس ساکھ اور اعتماد کو مجروح کرنے کی کوئی صورت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔
  3. تیسرا مسئلہ یہ تھا کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمن کے رمضان المبارک کے چاند کے بارے میں اعلان سے اختلاف کرنے والے سب علماء کرام دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، اور انہوں نے رمضان المبارک کے دوران اس اختلاف کے اظہار کے مختلف مراحل میں سے کسی مرحلے میں بھی اس بات کا اہتمام نہیں کیا کہ وہ اپنے اختلاف کے بارے میں دوسرے مسالک کے علماء کرام کو بھی اعتماد میں لیں۔ جس کی وجہ سے عملی صورتحال یوں ہو گئی تھی کہ مولانا مفتی منیب الرحمن کے فیصلے سے اختلاف صرف دیوبندی مکتب فکر کی طرف سے سامنے آیا اور دوسرے مکاتب فکر مثلاً اہل حدیث اور اہل تشیع نے اپنی خاموشی کی صورت میں مفتی صاحب کے موقف کا ساتھ دیا۔ اس صورتحال میں پنجاب اور سندھ میں منگل کی عید کا اعلان فرقہ وارانہ تنازع کی شکل اختیار کر سکتا تھا اور میں نے کبھی خود کو ایسی صورتحال کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں پایا، اس لیے مقامی سطح پر کسی مشاورت کا اہتمام کرنے کے بجائے میں نے بڑے شہروں کے علماء کرام سے رابطہ قائم کرنے کو ترجیح دی اور جب نصف شب کے قریب کراچی، لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی کے ذمہ دار علماء نے فون پر بتایا کہ انہوں نے بدھ کے روز عید کا فیصلہ کر لیا ہے تو میں نے بھی مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کی طرف سے دوستوں کو بتا دیا کہ ہم بھی بدھ ہی کو عید کریں گے۔

اس طرح عملاً اس بار بھی وہی ہوا جو اس سے قبل کئی بار ہو چکا ہے کہ پشاور اور کچھ دیگر علاقوں میں ایک روز پہلے عید ہوئی اور باقی ملک نے دوسرے دن عید منائی۔ البتہ اس بار فرق یہ تھا کہ صوبائی حکومت اس مسئلہ میں فریق بن گئی جو اسے نہیں بننا چاہیے تھا۔ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت کا چاند کے مسئلہ پر فریق بننا ہمارے خیال میں درست نہیں ہے، اس سے خلفشار پیدا ہوگا۔ سرحد حکومت کو یہ مسئلہ رؤیت ہلال کمیٹی کے ارکان کے درمیان ہی رہنے دینا چاہیے تھا اور اس میں فریق کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن ’’رموز مملکت خویش خسرواں دانند‘‘ کے مصداق سرحد حکومت نے فریق بننے کو ترجیح دی جس سے خود سرحد حکومت کو نقصان پہنچا ہے۔

گزشتہ روز چند نوجوان علماء کرام میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے سوال کیا کہ جب پشاور کے سرکردہ اور ذمہ دار علماء کرام نے کہا ہے کہ ان کے سامنے پیر کی شام کو عید کا چاند دیکھے جانے کی سینکڑوں شہادتیں پیش ہوئی ہیں تو ملک کے دیگر حصوں کے علماء کرام نے ان کی اس بات کو قبول نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا کہ اس کا ایک جواب تو وہ ہے جو حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے دیا ہے کہ سرحد کی صوبائی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلے کا اطلاق صرف صوبہ سرحد پر ہوتا ہے، ملک کے دوسرے حصوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ معلوم نہیں مفتی صاحب موصوف نے یہ بات پاکستان کے مختلف حصوں کے مطالع مختلف ہونے کے مبینہ اصول کو تسلیم کرتے ہوئے کہی ہے، یا حکومتی اختیار اور صوابدید کے دائرہ کار کو سامنے رکھ کر یہ جواب دیا ہے، اس کی وضاحت مفتی صاحب ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ مگر ان کے اس جواب سے یہ نیا سوال پیدا ہو گیا ہے کہ پاکستان میں رؤیت ہلال کے بارے میں اعلان کا حتمی اختیار صرف مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کو حاصل ہے یا علاقائی رؤیت ہلال کمیٹیاں بھی الگ طور پر یہ اختیار رکھتی ہیں؟

البتہ میرے نزدیک پشاور کے علماء کرام کا فیصلہ باقی ملک میں قبول نہ کیے جانے کی وجہ اس کہاوت کے ذریعے سے زیادہ بہتر طور پر سمجھ میں آ سکتی ہے جو اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ ایک لڑکے نے گاؤں سے باہر جا کر ایک ٹیلے پر چڑھ کر اعلان کیا کہ لوگو، اپنا بچاؤ کر لو، شیر آ گیا ہے۔ گاؤں میں بھاگ دوڑ شروع ہو گئی مگر تھوڑی دیر کے بعد پتہ چلا کہ شیر کہیں سے نہیں آیا، اس لڑکے نے مذاق کیا ہے۔ ایک آدھ بار اس لڑکے نے پھر ایسا کیا تو تھوڑی بہت ہلچل ہوئی، مگر زیادہ لوگوں نے اس میں دلچسپی نہ لی۔ ایک روز ایسا ہوا کہ فی الواقع ایک شیر گاؤں کی طرف آ گیا جس پر اسی لڑکے نے ٹیلے پر چڑھ کر شور مچایا کہ ’’شیر آیا شیر آیا‘‘ مگر کسی نے اس کی بات کی طرف توجہ نہ دی اور شیر اطمینان کے ساتھ اپنا کام کر گیا۔

میں پشاور کی رؤیت ہلال کمیٹی کے سامنے پیش کی جانے والی شہادتوں اور ذمہ دار علماء کرام کے فیصلے پر کسی شک کا اظہار نہیں کر رہا، یقیناً یہ شہادتیں پیش ہوئی ہیں اور ان کی بنیاد پر فیصلہ کرنے والے علماء کرام کی نیک نیتی اور سنجیدگی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے، مگر اس سوال کا جواب خود انہیں تلاش کرنا چاہیے کہ ان کے اس اعلان کو باقی ملک میں آخر کیوں قبول نہیں کیا گیا اور سینکڑوں شہادتوں اور اس قدر اہتمام کے باوجود ان کے فیصلے کو ایک بار پھر یہ کہہ کر کیوں ٹال دیا گیا ہے کہ ’’چھوڑ جی! پشاور والے تو پہلے بھی اسی طرح کرتے ہیں۔‘‘

باقی رہی بات مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور ارکان کے درمیان اختلاف و تنازع کی تو اس کا حل آج بھی صرف یہ ہے کہ انہیں بٹھا کر باہمی اتفاق سے اختلاف کو دور کرا دیا جائے اور اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو موجودہ کمیٹی کو توڑ کر نئی کمیٹی تشکیل دی جائے، کیونکہ موجودہ صورت میں یہ کمیٹی آئندہ بھی قوم کو کوئی متفقہ فیصلہ نہیں دے سکے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter