بین الاقوامی سائنس کانفرنس یا عالم اسلام کے خلاف گھناؤنی سازش؟

   
تاریخ : 
دسمبر ۱۹۹۲ء

استعماری قوتیں عالم اسلام کو ایٹمی توانائی، ٹیکنالوجی اور سائنس میں اعلی مہارت سے محروم رکھنے کے لیے جو جتن کر رہی ہیں وہ کسی ذی شعور مسلمان سے مخفی نہیں ہے، اور ان قوتوں کے پورے وسائل اس کوشش میں صرف ہو رہے ہیں کہ کوئی مسلمان ملک ان معاملات میں اعلی مہارت اور وسائل کسی صورت بھی حاصل نہ کر سکے۔ اس سلسلہ میں استعماری قوتوں کا ایک طریق واردات یہ بھی ہے کہ اپنی مرضی کے سائنسدان مسلمان ممالک کے سائنسی شعبوں پر مسلط کر دیے جائیں تاکہ ان کے ذریعے عالم اسلام کی سائنسی استعداد و صلاحیت پر نظر بلکہ گرفت رکھی جا سکے اور یہ طریقہ ان قوتوں کے لیے اب تک سب سے زیادہ مؤثر اور مفید ثابت ہوا۔

کچھ عرصہ قبل پاکستان کے قادیانی سائنس دان ڈاکٹر عبد السلام کو نوبل انعام سے نوازا گیا تو ارباب فراست نے اسی وقت محسوس کر لیا تھا کہ یہ ڈاکٹر عبد السلام کو پاکستان اور عالم اسلام کی سائنسی سرگرمیوں پر مسلط کرنے کی پہلی سیڑھی ہے۔ ڈاکٹر عبد السلام کو نوبل انعام دیے جانے کا اصل پس منظر کیا ہے؟ اس کے بارے میں پاکستان کے نامور اور قابل فخر سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر کے اس تبصرہ کے بعد کچھ کہنے ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ:

’’یہ نوبل انعام نظریات کی بنیاد پر دیا گیا، ڈاکٹر عبد السلام ۱۹۵۷ء سے اس کوشش میں تھے کہ انہیں نوبل انعام ملے آخر کار آئن سٹائن کے صد سالہ یوم وفات پر ان کا مطلوبہ انعام دے دیا گیا۔ دراصل قادیانیوں کا اسرائیل میں باقاعدہ مشن ہے جو ایک عرصے سے کام کر رہا ہے۔ یہودی چاہتے ہیں کہ آئن سٹائن کی برسی پر اپنے ہم خیال لوگوں کو خوش کر دیا جائے، سو ڈاکٹر عبد السلام کو بھی انعام سے نوازا گیا۔‘‘

البتہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ارشاد پر اس قدر اضافہ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ نوبل انعام پہلا قدم تھا جس کے بعد اگلا مرحلہ ڈاکٹر عبد السلام کو پاکستان اور پھر عالم اسلام کے سب سے بڑے سائنسدان کے طور پر متعارف کرا کر عالم اسلام کی سائنسی سرگرمیوں پر ان کے ذریعے ’’ریموٹ کنٹرول‘‘ کا نظام قائم کرنا تھا جس پر عملدرآمد کا آغاز ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر عبد السلام کا پاکستان میں سائنس کا ’’چودھری‘‘ بننے کا خواب تو دینی حلقوں کی بیداری کی وجہ سے پورا نہ ہو سکا لیکن یوں لگتا ہے کہ امریکہ بہادر کے زیر اثر مسلم ممالک کو دام فریب میں الجھا کر عالم اسلام کے ممتاز ترین سائنسدان کا مقام حاصل کرنے کے لیے ان کی سرگرمیوں میں پیشرفت ہو رہی ہے۔ چنانچہ اخباری اطلاعات کے مطابق فروری ۱۹۹۳ء کے دوران اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی سائنس کانفرنس کے انعقاد کی تجویز طے پا چکی ہے جس کے داعی ڈاکٹر عبد السلام ہوں گے اور جس میں تیسری دنیا کے سربراہان مملکت بھی شریک ہوں گے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اسی سلسلہ میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ڈاکٹر عبد السلام کی ملاقات ہو چکی ہے اور برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر درانی، ڈاکٹر عبد السلام کے نمائندہ کی حیثیت سے چین اور جاپان کا دورہ کر چکے ہیں۔

ہمیں اس بارے میں ذرہ بھر شبہ نہیں کہ ’’یہ بین الاقوامی سائنس کانفرنس‘‘ مسلمان ممالک کی سائنسی سرگرمیوں کو سبوتاژ کرنے اور ڈاکٹر عبد السلام کو عالم اسلام پر مسلط کرنے کی سازش ہے، اور ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ امریکہ بہادر کے زیر اثر مسلم دارالحکومتوں کے لیے اس میں شرکت اور اس کی کامیابی کے لیے تعاون کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوگا، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کی رائے عامہ ڈاکٹر عبد السلام کے پس منظر اور سامراجی ایجنٹ کے طور پر قادیانی گروہ کے کردار سے ناواقف نہیں ہے۔ اس لیے دینی حلقے اگر اس سلسلہ میں رائے عامہ کو بیدار اور منظم کرنے کے لیے ابھی سے سرگرم عمل ہو جائیں تو اس سازش کو ناکام بنانا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ پاکستان کی دینی جماعتیں اور محب وطن سیاسی حلقے اس حوالہ سے اپنا کردار بر وقت ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کریں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter