نوآبادیاتی نظام اور مظلوم عوام کا مستقبل

   
تاریخ : 
۹ مئی ۲۰۰۳ء

(زیر نظر مضمون ۳۰ اپریل ۲۰۰۳ء کو اقراء پبلک اسکول چیچہ وطنی میں ’’لٹریری ینگ فورم‘‘ کے زیر اہتمام ایک فکری نشست میں کی گئی گفتگو پر مشتمل ہے۔ ضرب مومن)

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جب بہت سے مسلم ممالک یورپی استعمار کے شکنجے سے آزاد ہوئے، ایشیا اور افریقہ کے ممالک پر برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال وغیرہ کی گرفت ڈھیلی پڑنا شروع ہوئی تو ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ ہم واقعی آزادی سے ہمکنار ہو رہے ہیں، اور اب ہم استعماری قوتوں کے دائرہ اثر و نفوذ سے نجات حاصل کر کے اپنی مرضی کے مطابق اپنا مستقبل طے کر سکیں گے۔ لیکن ہماری یہ غلط فہمی بہت جلد دور ہونا شروع ہوگئی اور کم و بیش نصف صدی کے عرصہ میں ہم پر یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ ہمارے ساتھ آزادی کے نام پر دھوکہ ہوا ہے اور ہم آج بھی اسی طرح غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جیسا کہ پون صدی قبل ہمارا حال تھا۔ صرف طریق کار تبدیل ہوا ہے کہ غلامی کی ظاہری زنجیروں کی بجائے ریموٹ کنٹرول سسٹم نے ہمارے گرد حصار قائم کر لیا ہے۔ اور بوڑھے برطانیہ کی جگہ اس استعمار اور نوآبادیاتی سسٹم کی قیادت جواں سال امریکہ نے سنبھال لی ہے۔ اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالہ سے ذرا معروضی صورتحال پر ایک نظر ڈال لی جائے تو مناسب ہوگا۔

سیاست و حکومت کے دائرہ میں صدر محمد ایوب خان کے دور میں انہی کے بھائی سردار محمد بہادر خان نے، جو ۱۹۶۲ء میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد تھے، ایک بات کہی تھی جو اس وقت بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ پاکستان میں کوئی حکومت بھی امریکہ کی مرضی کے بغیر نہ تشکیل پاتی ہے اور نہ ختم ہوتی ہے۔ لیکن آج ۳۰ سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہ بات ایک حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے ہے کہ ہماری سیاست و حکومت کے تمام معاملات اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں طے ہوتے ہیں اور ہمارا رول ان میں احکام کی بجا آوری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سردار بہادر خان ایک باخبر سیاست دان تھے، اسی لیے انہوں نے بالآخر قومی اسمبلی میں اپنا آخری خطاب اس شعر پر ختم کر کے قومی اسمبلی بلکہ قومی سیاست کا فلور ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا تھا کہ

یہ راز بھی اب کوئی راز نہیں سب اہل گلستاں جان گئے
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام بہاراں کیا ہوگا؟

معیشت و تجارت میں ہمارا حال کیا ہے اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ورلڈ بینک، اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں فری مارکیٹ عالمی تجارت اور گلوبلائزیشن کے خوشنما عنوانات کے تحت کیا ہونے والا ہے؟ میں اس وقت صرف دو حوالوں سے اس صورتحال کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ چند سال قبل ایک ذمہ دار اور مقتدر شخصیت نے، جو بعد میں وفاقی وزیر کے منصب پر بھی فائز رہے، مجھے بتایا کہ ہم نے اپنی ضرورت کے لیے ملائیشیا سے پام آئل خریدنے کا پروگرام بنایا، یہ سوچ کر کہ ملائیشیا کا پام آئل معیار کے لحاظ سے بہتر اور سستا ہے۔ اگر ہم ملائیشیا سے پام آئل خریدیں گے تو ان فوائد کے ساتھ ساتھ دو برادر مسلم ملکوں کے تعلقات میں بھی اضافہ ہوگا۔ چنانچہ ہم نے ملائیشیا کی حکومت سے اس سلسلہ میں گفت و شنید کی لیکن بعض مراحل طے ہونے کے بعد ہمیں یہ گفتگو اچانک معطل کر دینا پڑی۔ اس لیے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے ہمیں واضح طور پر وارننگ دی گئی کہ اگر ہم نے ملائیشیا کے ساتھ پام آئل کی خریداری کا معاہدہ کر لیا تو ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے حاصل ہونے والی بہت سی سہولتوں اور مفادات سے محروم ہونا پڑے گا۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ ایک آزاد ملک اور خودمختار حکومت کے لیبل کے باوجود ہم اپنی تجارت میں یہ حق نہیں رکھتے کہ اپنی ضرورت کا ایک تیل اپنی آزاد مرضی کے ساتھ کہیں سے خرید سکیں۔

دوسرے نمبر پر میں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی کتاب ’’ایشیا کا مقدمہ‘‘ کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں انہوں نے ملائیشیا کی معاشی ترقی، صنعتی عروج اور پھر اس کے اچانک زوال کی داستان بیان کی ہے۔ یہ کتاب عالمی مالیاتی استعمار کے طریقۂ واردات اور استحصال کے طور طریقوں کو بے نقاب کرتی ہے اور میرے خیال میں پاکستان کے ہر عالم دین، ہر سیاسی کارکن، اور ہر دانشور کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ملائیشیا میں جب سرمایہ کار آئے اور مشرق بعید کے اس مسلم ملک نے صنعتی ترقی کی طرف قدم بڑھانا شروع کیا تو میرے جیسے کارکن بہت خوش ہوئے کہ ایک مسلمان صنعتی ملک کا نام بھی سامنے آنے لگا ہے۔ لیکن کرنسی کے بین الاقوامی تاجروں نے اپنی اجارہ داری کا جس بری طرح استعمال کیا اور ملائیشیا کی معاشی اور صنعتی ترقی پر کرنسی کے خود ساختہ اتار چڑھاؤ اور اس کے نتیجے میں سرمایہ کے انخلاء کا اس سفاکانہ اور بے رحمانہ طریقہ سے وار کیا کہ ’’ایشیا کا ٹائیگر‘‘ کہلانے والے اس مسلم ملک کی معیشت اور تجارت کا پورا ڈھانچہ دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوگیا۔ اور یہ خوفناک معروضی صورت حال ایک بار پھر ہمارا منہ چڑانے لگی کہ جسے ہم نے آزادی سمجھ کر اس پر بیسیوں سالانہ جشن منا ڈالے ہیں وہ آزادی نہیں بلکہ غلامی سے بھی بدتر چیز ہے اور ہم سیاست و حکومت کی طرح معیشت، صنعت، اور تجارت میں بھی اپنی مرضی سے کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

سائنس، ٹیکنالوجی، اور خاص طور پر عسکری قوت کے محاذ پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ ہم یہ بات عام طور پر کہتے ہیں جو بالکل درست ہے کہ ہم سائنس، ٹیکنالوجی، اور عسکری قوت میں مغربی اقوام سے بہت پیچھے ہیں۔ اور اس وقت جو تقابلی صورتحال ہے وہ اس لطیفے کی صورت میں زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکتی ہے کہ ایک شخص سے کسی نے پوچھا کہ تم جنگل میں جا رہے ہو اور بالکل خالی ہاتھ ہو، اچانک کوئی درندہ تمہارے سامنے آجائے اور تم پر حملہ آور ہونا چاہے تو تم اس وقت کیا کرو گے؟ اس نے جواب دیا کہ بھئی میں نے کیا کرنا ہے، جو کچھ کرنا ہے اسی نے کرنا ہے۔ ہماری صورتحال بھی سائنس، ٹیکنالوجی، اور عسکری قوت کے حوالے سے اس وقت عالمی استعمار کے سامنے اسی طرح کی ہے کہ ہم ایک خالی ہاتھ شکاری کی طرح درندوں کے ہجوم میں گھرے ہوئے ہیں اور ہم میں سے ہر شخص صرف اس انتظار میں ہے کہ اس پر کون سا درندہ کس وقت جھپٹتا ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی میں یہ محرومی ہماری نا اہلی اور بد نصیبی کی انتہا ہے اور یقیناً اس میں سب سے زیادہ قصوروار ہم ہیں کہ ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی اور اس کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو تیل کی عظیم دولت عطا فرمائی وہ بھی ہمارے اس کام نہ آسکی کہ ہم اسے سائنس اور ٹیکنالوجی سے اپنی محرومی کو ختم یا کم کرنے کے لیے استعمال کر سکیں۔ ہماری یہ دولت دوسروں کے کام آئی اور ہماری نااہلی کی وجہ سے نہ صرف تیل کے چشمے بلکہ ان سے حاصل ہونے والی دولت بھی دوسروں کے کنٹرول میں ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں اس میں سے رائلٹی کے نام پر جو خیرات اور سود کے چار پیسے ملتے ہیں وہ بھی عیاشی پر خرچ ہوتے ہیں اور اس میں سے جو تھوڑے بہت پیسے بچ جاتے ہیں وہ مغربی ملکوں کے بینکوں میں پڑے ہیں جو کسی وقت بھی منجمد ہو سکتے ہیں۔

لیکن ہماری اس اجتماعی کوتاہی کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی، اور عسکری اسلحہ و مہارت میں ہمارے ایک حد سے آگے بڑھنے پر پابندیاں ہیں کہ جو ٹیکنالوجی اور مہارت قابضوں اور حملہ آوروں کے پاس ہے ہم وہ حاصل نہیں کر سکتے۔ ہمارے گرد اقوام متحدہ کی لگائی ہوئی قدغنوں کا حصار ہے۔ عراق نے ایٹم بم بنانا چاہا تو اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا اور اب خود عراق پر بھی قبضہ کر لیا گیا ہے۔ پاکستان نے ہمت کر کے ایٹم بم بنا لیا ہے تو اس کے باوجود کہ ہماری ایٹمی قوت و صلاحیت کا تناسب ہمارے معترضین و معاندین کی ایٹمی قوت و صلاحیت کے مقابلے میں ایک فیصد کا بھی نہیں ہے لیکن ہمارا ایٹم بم برداشت نہیں ہو رہا۔ اور ہماری ایٹمی صلاحیت کو ختم کرانے کی عالمی مہم اب آخری مراحل میں داخل ہو رہی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عالمی اداروں میں ہمارے طلبہ اور ماہرین کو ایک حد سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے اور ٹیکنالوجی کی جدید ترین صلاحیت اور وسائل تک ہماری رسائی تقریباً ناممکن بنا دی گئی ہے۔ اور یہ بھی اس ’’ریموٹ کنٹرول غلامی‘‘ کا ایک حصہ ہے جسے ہم نے آزادی سمجھ رکھا ہے اور جس کے فریب سے نکلنے کے لیے ہم اجتماعی طور پر سنجیدہ نہیں ہیں۔

یہ ایک جھلک ہے جو میں نے نوآبادیاتی شکنجے کے بارے میں آپ کو دکھانے کی کوشش کی ہے جو ہمارے گرد قائم ہے اور جس میں ہم بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ پہلے یہ شکنجہ نظر نہیں آتا تھا مگر اب تھوڑا تھوڑا نظر آنے لگا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اس کے بارے میں بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گنجائش بلکہ ضرورت ہے۔ لیکن سردست یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دو محاذ ایسے ہیں جن پر ہم اس وقت کام کر سکتے ہیں اور انہی پر سب سے پہلے کام کرنا ضروری ہے۔

ایک علم یعنی باخبری اور انفرمیشن کا محاذ ہے جبکہ دوسرا سیاسی اور فکری بیداری کا محاذ ہے۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ صورتحال اور معروضی حقائق سے باخبر نہیں ہیں۔ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے، بلکہ ہمارے داخلی حلقوں میں کیا ہو رہا ہے۔ ہمیں اس بے خبری سے نجات حاصل کرنا ہوگی، اس جہالت اور لاعلمی سے پیچھا چھڑانا ہوگا، اور معروضی حقائق سے آگاہی حاصل کرتے ہوئے صورتحال کا صحیح ادراک کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر ہم سطحی باتیں کرنے اور جذباتی نعرے لگانے کے سوا کچھ نہیں کر پائیں گے۔

دوسرا شعبہ سیاسی اور فکری بیداری کا ہے جس میں عالم اسلام بہت پیچھے اور بہت ہی پیچھے ہے۔ ہمارے پاس سیاسی جدوجہد، عالمی رائے عامہ، اور انسانی ضمیر کا ہتھیار آج بھی موجود ہے جسے اگر ہم کامیابی کے ساتھ استعمال کر سکیں تو حالات کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ اس میں ہمیں آزاد اقوام کی سیاسی جدوجہد سے استفادہ کرنا ہوگا اور عالمی سطح پر اپنا موقف پیش کرنے اور اس کا احساس بیدار کرنے کے لیے محنت کرنا ہوگی۔ یہ کام مشکل ضرورت ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اور ہمارے پاس اس وقت صرف یہی ایک راستہ باقی ہے۔ اگر ہمارے علماء کرام، اساتذہ، دانشور، اور صحافی اس کی اہمیت کا احساس کریں تو وہ اپنے اپنے شعبہ میں ذہن سازی، فکری تربیت، اور جذبۂ حریت کو بیدار کرنے کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے اور میرا ایمان ہے کہ اگر ہم اپنے حصے کا کام صحیح طور پر کر گزریں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ضرور آئے گی اور کامیابی کے راستے ضرور کھلیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter