سنی شیعہ کشمکش کا کارڈ

   
تاریخ : 
۷ اکتوبر ۲۰۰۵ء

سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے عراق کی تازہ ترین صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی پالیسیوں کی وجہ سے عراق بتدریج ایران کے زیر اثر جا رہا ہے اور عراق کے اہل سنت اقلیت میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ عراق کے لیے جو دستور تجویز کیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہم اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں اور اس سے عراق کی سنی آبادی مطمئن نہیں ہے۔ اس سے قبل عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل جناب عمرو موسی کی طرف سے بھی اس قسم کے خدشات کا اظہار ہوا ہے اور عرب صحافتی حلقوں میں عراقی دستور پر ملے جلے ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔

عراق کے بارے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا دعوٰی یہ ہے کہ انہوں نے فوج کشی کر کے عراقی عوام کو صدام حسین کے آمرانہ حکومت سے نجات دلائی ہے اور اب وہ عراق کو جمہوریت کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں جبکہ عراق میں امریکی اتحاد کی فوجوں کے خلاف مسلح مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

’’جمہوریت بذریعہ گولی‘‘ کا یہ فارمولا افغانستان میں بھی آزمایا جا رہا ہے اور افغان عوام کو بندوق کے سائے میں جمہوریت سے روشناس کرانے کا عمل جاری ہے۔ بعض عرب اخبارات میں اس حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق عراق کی نومنتخب پارلیمنٹ نے جس دستور کو ریفرنڈم کے لیے جاری کیا ہے اور جس پر اکتوبر کے دوران استصواب کرایا جا رہا ہے، اس کا مسودہ واشنگٹن سے تیار ہو کر آیا ہے اور اگر اسے اسی طرح نافذ کر دیا گیا تو عراق کے واضح طور پر تین حصوں میں تقسیم ہو جانے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ ان رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس مسودہ پر قومی اسمبلی میں اتفاق رائے کے حاصل نہ ہونے کے باوجود اسے ریفرنڈم کے لیے شائع کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے اور جس طرح ایسے ممالک میں ریفرنڈم ہوتے ہیں، اس کی رسم پوری ہونے کے بعد اسے نافذ کر دیا جائے گا جس کے لیے مسلسل راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

دستوری مسودہ پر اعتراض کرنے والے حلقوں نے اس کے جن پہلوؤں کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے، ان میں تین باتیں بطور خاص ہیں:

  1. ایک یہ کہ اس میں عراق کو ایک اسلامی ریاست کی بجائے سیکولر ریاست قرار دیا گیا ہے اور عراق کا اسلامی تشخص اس میں برقرار نہیں رکھا گیا۔
  2. دستور کے اس مسودہ میں عراق کو عرب ملک قرار نہیں دیا گیا بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ عراق میں جو لوگ آباد ہیں، ان میں عرب بھی شامل ہیں۔ اس طرح عراق بحیثیت ملک عرب ممالک میں اس دستور کی رو سے شمار نہیں ہوگا اور عراق کے عرب تشخص کو ختم کرنے کی اس دستوری کاروائی پر عرب لیگ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
  3. عراق میں شیعہ سنی تناسب کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ شمال کی کرد آبادی سنی ہونے کے باوجود کردوں کے قومی تشخص کے عنوان سے قومی معاملات میں شریک کی گئی ہے، جبکہ جنوب کی شیعہ آبادی اہل تشیع کے مذہبی تشخص کے ساتھ قومی معاملات میں شریک ہے۔ اس طرح شمال پر کردوں کا کنٹرول ہوگا اور جنوب میں ۹ صوبوں میں اہل تشیع کی بالادستی ہوگی، جبکہ عرب بحیثیت سنی درمیان کے صرف تین صوبوں انبار، صلاح الدین، اور نیٹوا کا کنٹرول حاصل کر سکیں گے۔

ایک عرب کالم نگار صلاح الدین حافظ نے عراق کی مجوزہ دستور کی رو سے سامنے آنے والی نئی تقسیم کی صورت کچھ اس طرح بیان کی ہے کہ ’’شیعہ بحیثیت شیعہ متحد ہیں۔ جنوب میں ان کی اکثریت ہے اور انہیں ۹ صوبوں پر اقتدار حاصل ہو گا۔ جبکہ سنی آبادی عربوں اور کردوں میں تقسیم ہوگی۔ سنی کردوں کو صرف ان کے کرد قومی تشخص کے ساتھ شمال کے علاقوں میں اقتدار حاصل ہوگا اور عربوں کو اہل سنت کے مذہبی تشخص کے ساتھ صرف ۳ صوبوں پر اقتدار ملے گا‘‘۔

صلاح الدین حافظ کے بقول جنوب کے تیل کے علاقے اہل تشیع کے پاس ہیں، شمال میں تیل کے علاقے کردوں کے حصے میں ہیں، جبکہ تینوں عرب سنی صوبوں میں تیل موجود نہیں ہے اور وہ ’’علی باب اللہ‘‘ اللہ کے دروازے پر ہوں گے۔ اس طرح اہل تشیع جنوب میں مذہبی تشخص کے ساتھ متحد ہوں گے۔ تیل کی دولت ان کے پاس ہوگی اور وہ ایران کے پہلو میں ہیں۔ عراق کا ایک ملک کی حیثیت سے عرب تشخص ویسے ہی اس دستوری مسودہ میں تسلیم نہیں کیا گیا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس خطے میں غیر عرب تشخص، جو ظاہر ہے کہ ’’فارسی‘‘ ہو گا، آگے بڑھے گا۔ اور جنوبی عراق جہاں ایرانی اثرات پہلے ہی نمایاں ہیں، دھیرے دھیرے عرب دنیا سے کٹ کر مکمل طور پر ایران کے زیر اثر چلا جائے گا۔

ہمارے خیال میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے عراق کی صورتحال اور اس کے مجوزہ دستور کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا ہے، اس کا پس منظر یہی ہے۔ اور اگر معاملات اسی طرح آگے بڑھتے ہیں تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی جان بوجھ کر اس خطے میں عربوں اور ایران کو ایک دوسرے کے سامنے لانے کے لیے کوشاں ہیں، یا دوسرے لفظوں میں اس خطے میں موجود رہنے کے لیے انہوں نے شیعہ سنی کشمکش کا کارڈ استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، اور وہ خلیج کے ممالک میں عوامی بیداری کا رخ اس طرف موڑ دینا چاہتے ہیں۔

عرب دنیا کے بہت سے ممالک مثلا بحرین، کویت، شام، لبنان وغیرہ میں شیعہ کمیونٹی سیاست میں مؤثر طور پر موجود ہے، مگر لبنان کے علاوہ اور کسی ملک میں جداگانہ مذہبی تشخص کے ساتھ قومی معاملات میں ان کی شرکت نہیں ہے۔ لبنان کے بعد عراق دوسرا ملک ہوگا جہاں اس دستور کے نفاذ کے بعد قومی معاملات میں اہل تشیع کی شرکت جداگانہ مذہبی تشخص کے ساتھ ہوگی اور یہ سلسلہ آگے چل نکلا تو پوری عرب دنیا سنی شیعہ کشمکش کی راہ پر چل پڑے گی۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس وسیع تر کشمکش میں ایک کو دوسرے کی ’’زیادتیوں‘‘ سے بچانے کے لیے امریکہ اور اس کے حواری پورے جواز کے ساتھ خطے میں رہیں گے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اس خطہ میں عسکری موجودگی پہلے بھی عراق اور کویت کے تنازع کو ختم کرانے کے لیے آنے والی امریکی فوجیں ابھی تک موجود ہیں۔ اب اس قسم کا ایک اور مصنوعی تنازع مذہبی حوالہ سے زیادہ وسیع تناظر میں کھڑا کیا جا رہا ہے جو اس خطہ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلح افواج کی مستقل موجودگی کا جواز بنے گا، اور عرب دنیا میں مغرب کی چیرہ دستیوں کے خلاف بڑھنے والی عوامی بیداری کا رخ بڑی آسانی سے دوسری طرف موڑ دیا جائے گا۔ اس میں نہ کہیں تیل کی دولت کے استحصال کا ذکر ہو گا اور نہ اسرائیل کے تحفظ و استحکام کی بات آئے گی، بس سنی شیعہ کشمکش کا عنوان ہوگا، ایران اور عرب آمنے سامنے ہوں گے اور مغربی ممالک ایک بار پھر ترازو ہاتھ میں لیے بندر بانٹ میں مصروف ہو جائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ کیا عرب لیگ اور ایران باہم مل بیٹھ کر اس خطے کے عوام کو اس نئے عذاب سے بچانے کے لیے کوئی مشترکہ موقف اور لائحہ عمل اختیار نہیں کر سکتے؟

   
2016ء سے
Flag Counter