تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کے سلسلہ میں علماء اور وکلاء کی مشترکہ ذمہ داری

   
تاریخ: 
۱۱ فروری ۲۰۲۱ء

اسلام آباد کے بہت سے سرکردہ وکلاء محترم حافظ ملک مظہر جاوید ایڈووکیٹ کی سربراہی میں تحفظ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں جو لائقِ تحسین ہے۔ گذشتہ دنوں ان کی محنت و کاوش سے خصوصی عدالت برائے انسدادِ دہشت گردی کے جج راجہ جواد عباسی نے سوشل میڈیا پر توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والے تین مجرموں کو سزائے موت، جبکہ ایک مجرم کو دس سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ محترم وکلاء کا یہ گروپ ’’انٹرنیشنل لائیرز فورم اسلام آباد‘‘ کے عنوان سے سرگرم عمل ہے اور اس سلسلہ میں گیارہ فروری جمعرات کو اسلام آباد کے ہوٹل میلوڈی میں تحفظ ناموس رسالتؐ کے حوالہ سے ایک اجتماعی مشاورت کا اہتمام کیا گیا جس سے مجھے بھی ٹیلی فون کے ذریعے کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔ حافظ کامران حیدر کی مرتب کردہ یہ گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ انٹرنیشنل لائیرز فورم اسلام آباد کا شکر گزار ہوں کہ تحفظِ ناموس رسالت علی صاحبہا التحیۃ والسلام کے حوالے سے اس مشاورت میں مجھے بھی شرکت اور گفتگو کا موقع عنایت فرمایا، اللہ تعالیٰ اس اجلاس کو اپنے مقاصد میں کامیابی عطا فرمائیں۔ تحفظِ ناموسِ رسالت ہمارا ایمانی تقاضا ہے اور ملتِ اسلامیہ کی اجتماعی حمیت اور غیرت کے اظہار کا مسئلہ بھی ہے۔ اور یہ ہمارا حق ہے شرعی اعتبار سے بھی اور دنیاوی اعتبار سے بھی کہ شہری حقوق اور انسانی حقوق میں سب سے زیادہ انسان کی عزت اور تکریم کو اس کا سب سے بڑا حق سمجھا جاتا ہے اور ہے بھی۔ لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ آج کا مغربی فلسفہ ایک عام انسان کی عزت اور تکریم کو تو ضروری سمجھتا ہے اور اسے حقوق میں شامل کر کے اسے قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات، جو نسلِ انسانی کی سب سے زیادہ بزرگ ترین شخصیات ہیں، ان کی عزت و ناموس کو قانون کے دائرے میں لانے اور ان کی توہین کو جرائم کے دائرے میں شمار کرنے کے لیے آج کی عالمی ثقافت تیار نہیں ہے، جو انتہائی تعجب اور بڑے افسوس کی بات ہے۔

یہ آج کی ایک بڑی ضرورت ہے کہ عالمی سطح پر بین الاقوامی اداروں میں توہینِ رسالت کو،انبیائے کرام علیہم السلام کی اہانت اور توہین کو جرم قرار دلوایا جائے اور قابلِ سزا جرم تسلیم کروایا جائے۔ جب دنیا کے ہر ملک میں ایک عام انسان کی ہتکِ عزت کو جرم سمجھا جاتا ہے، ایک عام شہری کی ازالہ حیثیتِ عرفی کو جرم قرار دیا جاتا ہے اور قانون اس کو تحفظ فراہم کرتا ہے تو حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات جو تکریم اور عزت کے حوالے سے نسلِ انسانی کی ممتاز ترین شخصیات ہیں، ان کا یہ استحقاق سب سے مقدم ہے۔ اس لیے اصل اور سب سے بڑی ضرورت یہی ہے۔ قانون دان حلقوں سے میں یہ عرض کروں گا کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ بین الاقوامی اداروں میں توہینِ رسالت کو جرم قرار دلوانے کے لیے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟

دوسرے نمبر پر ہمارے ملک میں ایسی لابیاں موجود ہیں جو اس مسئلہ کو خواہ مخواہ ہوا دیتی ہیں۔ بلاوجہ نہیں، کوئی وجہ تو ہوتی ہے کہ باقاعدہ منصوبے کے تحت ملک میں افراتفری اور ذہنی خلفشار پیدا کرنے کے لیے وہ ایسا کرتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جو مسلمانوں کے ایمان کو اور حمیت کو چیلنج بھی ہوتا ہے اور امتحان بھی ہوتا ہے۔ میں عام طور پر یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ بعض حلقے اور لابیاں وقفہ وقفہ سے مسلمانوں کی حمیتِ ایمانی کا ٹمپریچر چیک کرنے کے لیے اس قسم کی سازشیں کرتی ہیں، لیکن یہ بیکار ہے۔ اس لیے کہ ایمان کے حوالے سے، محبت رسولؐ کے حوالے سے، جناب نبی کریمؐ کے ساتھ محبت و عقیدت اور احترام کے حوالے سے مسلمان کا ٹمپریچر ایک جگہ سیٹ ہے، وہ لو (Low) نہیں ہوتا، کم نہیں ہوتا۔ اس لیے خواہ مخواہ وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

البتہ اس سلسلہ میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ملک میں جو قوانین نافذ ہیں ان پر عملدرآمد کے لیے، عمل کرنے کے لیے، عمل کرانے کے لیے اور ان کے خلاف جو منفی پروپیگنڈا مسلسل بین الاقوامی سطح پر اور ملکی سطح پر کیا جاتا ہے اس کا جواب دینے کے لیے ہم منظم محنت کریں، اور اس حق کو سب سے تسلیم کروائیں کہ اگر ہماری توہین جرم ہے، ہمارے کسی بزرگ کی توہین جرم ہے تو حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی توہین اور اہانت سب سے بڑا جرم ہے۔

میں اس سلسلہ میں دو باتیں عرض کرتا ہوں۔ ایک یہی جو میں نے عرض کی ہے کہ اگر ایک عام شہری کی توہین جرم ہے تو انبیائے کرامؑ کی توہین بھی جرم ہے اس کو تسلیم کیا جائے۔ جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ توہین اور توہین کے درجے میں فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر عرض کروں گا۔ پاکستان میں ایک عام شہری کی توہین بھی قانوناً جرم ہے اور پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی توہین بھی جرم ہے۔ لیکن کیا یہ ایک ہی سطح کا جرم ہے؟ عام شہری کی توہین کے جرم کا درجہ اور ہے اور بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم و مغفور کی توہین کے جرم کا لیول اور ہے۔ یہ فرقِ مراتب تسلیم شدہ ہے، دنیا کے ہر قانون میں تسلیم شدہ ہے، اس کا لحاظ بہرحال رکھنا ہوگا۔

اسی سلسلہ میں یہ بھی عرض ہے کہ وکلاءِ کرام جو محنت کر رہے ہیں، اسلام آباد کے وکلاء کرام اور قانون دان حلقوں نے گزشتہ دنوں جو محنت کی ہے گستاخانِ رسول کو سزا دلوانے میں، اس پر وہ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں، میں ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور تمام ملک کے علماء اور وکلاء سے ایک بات جو پہلے بھی عرض کرتا آرہا ہوں کہ یہ قانون کا مسئلہ ہے۔ ہمارے ہاں قانون کا ایک دائرہ شریعت کا ہے اور ایک دائرہ مروجہ قانون کا ہے، دونوں دائرے ہمارے لیے ضروری ہیں، لیکن دونوں کو سنبھالنے والے اور ان کو سمجھنے اور ان کی تطبیق کرانے والے طبقات کے درمیان مفاہمت، افہام و تفہیم اور اشتراکِ عمل بھی انتہائی ضروری ہے۔ میری سوچی سمجھی رائے ایک عرصہ سے چلی آ رہی ہے کہ ملک میں اسلامی قوانین کی عملداری، ختمِ نبوت کے تحفظ، ناموسِ رسالت کے تحفظ اور مغربی تہذیب کی روک تھام کے لیے جب تک علماء اور وکلاء دونوں مل جل کر محنت نہیں کریں گے تب تک بات نتیجہ خیز نہیں ہو گی۔ ہمیں مشترکہ فورم بنانے چاہئیں، مشترکہ محنت کا اہتمام کرنا چاہیے۔

میں انٹرنیشنل لائیرز فورم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ اس قسم کی کوئی کوشش ہوگی تو ہم ان شاء اللہ العزیز پورا تعاون کریں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں، آپ کی محنت کو بارآور کریں، ترقیات نصیب فرمائیں اور ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین

2016ء سے
Flag Counter