بچوں سے پہلے والدین پر توجہ دینے کی ضرورت

   
تاریخ: 
۳ دسمبر ۲۰۲۲ء

(جامعۃ الخیر، جوہر ٹاؤن، لاھور کی سالانہ تقریبِ دستار بندی سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ برادرم مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور جامعۃ الخیر کا شکرگزار ہوں کہ آج کی اس تقریب میں آپ بزرگوں اور دوستوں سے ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ یہ تقریب قرآنِ کریم حفظ کرنے والے بچوں کی دستاربندی کی تقریب ہے اور ہم ان بچوں کی اس خوشی میں شریک ہیں، اللہ تعالیٰ ان بچوں کو دنیا و آخرت کی سعادتیں نصیب فرمائیں۔

مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے اپنے خطاب میں تمام والدین کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ نئی نسل کی بے راہ روی اور گمراہی کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ بات بہت ضروری ہے کہ اولاد کو صحیح رخ پر رکھنا ماں باپ کی ذمہ داری ہے جیسا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، آگے اسے یہودی، عیسائی اور مجوسی بنانا ماں باپ کا کام ہے۔ یعنی اپنے بچوں کو عقیدہ، تربیت، تعلیم اور دیگر حوالوں سے کوئی رخ دینا ماں باپ کی ذمہ داری ہے ، وہ اسے جیسا ماحول مہیا کریں گے وہ اسی سانچہ میں ڈھل جائیں گے۔

یہ بات بالکل درست ہے مگر اس کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ بچوں کے لیے ماں باپ کو فکرمند کرنا بھی مستقل کام ہے، اس لیے کہ وہ اگر اس کا احساس نہیں کریں گے اور ضرورت محسوس نہیں کریں گے تو کچھ بھی نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے بچوں کی فکر کرنے سے پہلے ماں باپ کا فکر کرنا ہو گا تاکہ انہیں اس ضرورت کا احساس ہو کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں گے تو وہ صحیح رہیں گے، ورنہ کسی غلط رخ پر چلے جانے کی ذمہ داری ان پر ہو گی۔

میں اس سلسلہ میں ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ۱۹۸۷ء یا ۱۹۸۸ء کی بات ہے کہ امریکہ کے شہر نیویارک میں ایک پاکستانی فیملی نے میری کھانے کی دعوت کی اور حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے مجھے اکرام سے نوازا۔ وہاں کچھ دوستوں نے بتایا تھا کہ ان صاحب کا جوان بیٹا ایک ایسی سوسائٹی کا حصہ ہے جس سے اس کے عیسائی ہو جانے کا خطرہ ہے، اس لیے آپ اسے سمجھائیں۔ میں نے ان صاحب کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کی فکر کریں تاکہ دوستوں کے خدشات کے مطابق وہ خدانخواستہ مذہبِ اسلام نہ چھوڑ دے۔ مگر ان صاحب نے بڑی بے پرواہی اور بے نیازی سے جواب دیا کہ اگر وہ عیسائی ہو جائے گا تو کیا فرق پڑے گا؟

میں ان کا یہ جواب سن کر ہکابکا رہ گیا اور میرے ذہن میں اس وقت سے یہ بات جمی ہوئی ہے کہ اولاد اور بچوں کا فکر کرنے سے پہلے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ ماں باپ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر سرے سے ان کے دل میں ہی دین کی اہمیت و ضرورت باقی نہیں رہے گی تو وہ اولاد اور بچوں کا فکر کیسے کریں گے؟

اس لیے میری گزارش ہے کہ نئی نسل کی طرف ضرور توجہ دیں مگر اس سے پہلے ماں باپ کو اپنی محنت کا ہدف بنائیں تاکہ وہ اپنی اولاد کو صحیح رخ پر ڈال سکیں۔

2016ء سے
Flag Counter