قرآن و حدیث کا باہمی تعلق اور حضرت امام بخاریؒ

   
تاریخ: 
۲ فروری ۲۰۲۳ء

جامعہ اسلامیہ امدادیہ چنیوٹ میں ختمِ بخاری شریف کے اجتماع سے خطاب۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہمارے سامنے علماء کرام تشریف فرما ہیں جنہوں نے بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھی ہے اور وہ طلباء کرام موجود ہیں جنہوں نے قرآنِ مجید حفظ مکمل کیا ہے۔ میں اس موقع پر قرآن مجید اور حدیثِ رسولؐ کے باہمی تعلق پر مختصر بات کرنا چاہتا ہوں۔ قرآنِ مجید اور حدیثِ رسولؐ لازم و ملزوم ہیں، لیکن ان کے مابین تعلق پر دو تین باتیں ہر وقت ہمارے ذہن میں رہنا ضروری ہیں، عقیدہ اور ایمان کے طور پر بھی، اور عمل کے طور پر بھی۔ قرآنِ مجید اور حدیثِ رسولؐ کا باہمی تعلق کیا ہے، یہ ہمیشہ ذہن میں تازہ رہنا چاہیے۔

  1. پہلا تعلق یہ ہے کہ قرآن مجید ہمیں حدیث کے ذریعے سے ملا ہے۔ حدیثِ رسولؐ قرآن مجید تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ تفصیلات میں جانے کی بجائے میں ایک مثال عرض کروں گا کہ قرآنِ مجید کی پہلی وحی سورۃ العلق کی ابتدائی آیات ہیں جو ہمیں غارِ حرا سے ملی ہیں۔ غارِ حرا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا، حضورؐ نے وہ واقعہ بیان کیا اور صحابہ کرامؓ نے اس واقعہ کو روایت کیا۔ صحابہ کرامؓ جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کریں اسے حدیث کہتے ہیں۔ گویا ہمیں یہ پانچ آیتیں حدیث کے ذریعہ سے ملی ہیں۔ اگر یہ واقعہ ہے تو آیتیں بھی ہیں، واقعہ نہیں ہے تو آیتیں بھی نہیں ہیں۔ اور حدیث ہے تو واقعہ بھی ہے، حدیث نہیں ہے تو واقعہ بھی نہیں ہے۔ حدیث کے علاوہ کسی کے پاس کوئی اور ذریعہ نہیں ہے کہ ان پانچ آیات تک رسائی حاصل کر سکے۔ اور یہ صرف پانچ آیات کی بات نہیں ہے، ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ سے ’’من الجنۃ والناس‘‘ تک قرآن مجید کی ہر سورت، ہر آیت اور ہر جملہ ہمیں اسی پراسیس سے ملا ہے۔

    قرآنِ مجید کی کوئی بھی آیت یا جملہ دیکھ لیں۔ مثال کے طور پر سورۃ الکوثر کے بارے میں ہمیں کس نے بتایا کہ یہ سورۃ اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بتایا ہے، اور جب حضورؐ نے یہ بیان فرمایا تو یہ حدیث ہے۔ گویا ہمیں سورۃ الکوثر حدیث کے ذریعے ملی ہے۔ وہ حدیث جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ یہ تین آیتیں نازل ہوئی ہیں، اگر وہ حدیث نہیں ہے تو یہ تین آیتیں کہاں سے آئیں گی؟ لہٰذا قرآنِ مجید کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جو ہمیں حدیثِ رسولؐ کے بغیر ملا ہو۔ اور اگر کوئی لفظ جس کے بارے میں حضورؐ نے نہیں فرمایا تو وہ قرآن کا لفظ نہیں ہو سکتا۔

    لہٰذا قرآنِ مجید اور حدیثِ رسولؐ کا پہلا تعلق یہ ہے کہ قرآن مجید تک رسائی کا واحد ذریعہ حدیثِ رسولؐ ہے۔ حدیث کے علاوہ ہمارے پاس قرآنِ مجید کی کسی آیت تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

  2. قرآنِ مجید اور حدیثِ رسولؐ کا دوسرا باہمی تعلق یہ ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر اور شرح متعین کرنے میں بھی حدیثِ رسولؐ ہی اتھارٹی ہے۔ اگر قرآنِ مجید کی کسی آیت کا مطلب سمجھ میں نہیں آ رہا تو حدیث ہی اس کی وضاحت کرے گی۔ کسی بھی شخصیت کی بات اگر سمجھ نہ آرہی ہو تو اس کی وضاحت بات کرنے والے سے ہی لیتے ہیں۔ اگر آپ کو میری کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تو آپ مجھ سے پوچھیں گے، اپنی بات کی وضاحت کا حق مجھے ہے اور اپنی بات کی وضاحت کی اتھارٹی بھی میں ہوں۔ جب میں اپنی کسی بات کا کوئی مطلب بیان کر دوں تو پھر کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

    قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہم تک پہنچانے کا ذریعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ارشادات کی وضاحت کی اتھارٹی بھی حضورؐ ہی ہیں۔ مثلاً سورۃ الکوثر قرآن مجید کی سورت ہے، اسے امت تک پہنچانے کی اتھارٹی حضورؐ ہیں اور اس کا مطلب اور وضاحت بیان کرنے کی اتھارٹی بھی حضورؐ ہی ہیں۔ اس کا جو مطلب آپؐ بیان فرمائیں گے وہی حرفِ آخر ہوگا۔ اس کی بیسیوں مثالیں ہیں جن میں سے ایک عرض کر دیتا ہوں۔

    مسند دارمی کی روایت ہے۔ امام دارمیؒ امام بخاریؒ کے استاد ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں صحابہ کرامؓ تشریف فرما تھے، حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی موجود تھے۔ یہ آیت نازل ہوئی ’لیس باما نیّکم ولا امانیّ اھل الکتاب، من یعمل سوءًا یجز بہ‘‘۔ آیت کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک عرصہ تک مسلمان اور یہودی اکٹھے رہتے تھے۔ اکٹھے رہتے ہوئے محلے داری، شہرداری اور غمی خوشی میں اکٹھے بھی ہوتے تھے اور ایک دوسرے سے باتیں اور بحث و مباحثہ چلتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ کسی جگہ بیٹھے ہوئے ایک یہودی نے کہا کہ ہم رسولوں کا خاندان ہیں ’’نحن ابناء اللہ واحباءہ‘‘ ہم اللہ کے محبوب اور بیٹے ہیں، ہم سیدھے جنت میں جائیں گے۔ اس کے جواب میں ایک مسلمان نے کہا کہ تم انبیاء کے خاندان سے ہو، اس لیے سیدھا جنت میں جاؤ گے، ہم تو انبیاءؑ کے سردارؐ کے ساتھی ہیں، ہمیں جنت میں جانے سے کون روکے گا؟ اللہ تعالیٰ کو یہ ادا پسند نہ آئی، ارشاد فرمایا ’’لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتاب من یعمل سوءا یجز بہ‘‘ کہ نہ تمہاری آرزوؤں پر فیصلے ہوں گے اور نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر فیصلے ہوں گے، بلکہ اعمال پر فیصلے ہوں گے۔ جس نے بھی برا عمل کیا اس کو بھگتنا پڑے گا اور اسے اس کا بدلہ ملے گا۔ سوءًا نکرہ ہے اور یہ جملہ شرطیہ ہے، شرط اور جزا میں لزوم ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ جس نے ذرا بھی برا عمل کیا تو اسے اس کی سزا ضرور ملے گی۔ حضرت صدیق اکبرؓ سامنے بیٹھے ہوئے تھے، یہ سن کر پریشان ہو گئے، چہرے کا رنگ فق ہو گیا، قریب تھا کہ گر پڑتے، یہ سوچ کر کہ اگر ہر چھوٹی بڑی غلطی پر سزا ملے گی تو ہمارا کیا بنے گا؟

    اس حوالے سے میں ایک بات عرض کیا کرتا ہوں کہ صحابہ کرامؓ چونکہ قرآن مجید کو سمجھتے تھے اس لیے ایسی باتوں پر پریشان ہو جاتے تھے۔ ہم لوگ نہ سمجھتے ہیں اور نہ پریشان ہوتے ہیں۔ کوئی بات سمجھ میں آئے گی تو پریشان ہوں گے، جب سمجھنا ہی نہیں تو پریشان کیوں ہوں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر پوچھا ابوبکر! کیا ہوا خیر تو ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے یہ آیت سنائی ہے کہ ہر غلطی کرنے والا پکڑا جائے گا، اسے سزا ملے گی، تو پھر بچے گا کون؟ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’یجز بہ‘‘ کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت میں ہی پکڑا جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں مومن کو پیش آنے والی مصیبت، آزمائش، نقصان اور پریشانی وغیرہ کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ مطمئن اور خوش ہو گئے۔ ’’یجز بہ‘‘ کا جو معنی حضرت ابوبکرؓ نے سمجھا، آیت کا وہ مطلب نہیں تھا، بلکہ اس کا وہ مطلب ہے جو حضورؐ نے بیان فرمایا ہے۔ اور یہ مطلب ہمیں حدیث کے ذریعے معلوم ہوا۔ الغرض قرآن مجید کی تفسیر و تشریح کا ذریعہ بلکہ اتھارٹی بھی حدیث ہی ہے۔

  3. قرآنِ مجید اور حدیثِ رسولؐ کا تیسرا باہمی تعلق یہ ہے کہ قرآن مجید کے بہت سے احکامات کی تکمیل حدیثِ رسولؐ کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس کی بیسیوں مثالوں میں سے ایک مثال عرض کرتا ہوں۔

    مسند دارمی کی روایت ہے کہ حضرت عمران بن حصینؓ، جو فقہاء صحابہ میں سے ہیں، اپنی محفل میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا، اس نے سلام عرض کیا اور کہا کہ میں نے ایک مسئلہ پوچھنا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ آپ نے مسئلہ قرآن سے بتانا ہے۔ آج کل بھی یہ رویہ عام ہو گیا ہے کہ مسئلہ قرآن سے بیان کرو۔ حضرت عمران بن حصینؓ ذرا جلالی بزرگ تھے۔ جلالی حضرات کا بات کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ آپؓ نے اس سے کہا بیٹھو، اور اس سے پوچھا کہ آج تم نے فجر کی نماز میں کتنی رکعتیں پڑھی تھیں؟ اس نے کہا دو رکعتیں۔ تو آپؓ نے فرمایا کہ فجر کی دو رکعتیں پڑھنے کا ذکر قرآن مجید میں ہے؟ اس نے کہا نہیں! تو آپؓ نے فرمایا کہ پھر دو رکعتیں کیوں پڑھی تھیں؟ پھر اس سے پوچھا کہ دو رکعتوں میں کتنے سجدے کیے تھے؟ اس نے کہا چار! آپ نے پوچھا کہ ان چار سجدوں کا ذکر قرآن مجید میں ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ تو آپؓ نے فرمایا کہ پھر چار سجدے کیوں کیے تھے۔ اس پر اس آنے والے نے کہا کہ ٹھیک ہے بات سمجھ میں آگئی ہے۔ حضرت عمران بن حصینؓ نے فرمایا کہ نماز کے اصولی احکام قرآنِ مجید میں ہیں جبکہ تفصیلی احکام حدیثِ رسولؐ میں ہیں۔ قرآنِ اور حدیث مل کر کسی حکم کو مکمل کرتے ہیں۔ نماز کا ایک حصہ قرآنِ مجید میں بیان ہوا ہے تو دوسرا حصہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔ قرآن اور حدیث کو اکٹھے ملا کر عمل کریں گے تو نماز مکمل ہوگی۔

    قرآن مجید اور حدیثِ رسولؐ کے باہمی تعلق کے حوالے سے میں نے تین باتیں عرض کی ہیں۔ قرآن مجید تک رسائی کا ذریعہ حدیث ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی منشا کیا ہے یہ بھی حدیث سے معلوم ہوگا، اور قرآن مجید کے حکم کی تکمیل بھی حدیث کرتی ہے۔

اس کے بعد بخاری شریف کی آخری حدیث کے حوالے سے چند ایک باتیں عرض کرتا ہوں۔

امام بخاریؒ نے جو آخری باب قائم کیا ہے اس میں ایک غلط عقیدے کی تردید کی ہے۔ اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ قیامت قائم ہوگی، حشر بپا ہو گا، اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگی جس میں حساب و کتاب ہوگا اور اس کے لیے ترازو قائم کیا جائے گا جس میں انسانوں کی باتیں اور اعمال تو لے جائیں گے، زبان سے نکلی ہوئی بات اور جسم سے صادر ہونے والا عمل دونوں تولے جائیں گے۔ کسی زمانے میں یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں تھی کہ بات کیسے تولی جائے گی؟ بات تو زبان سے نکلی اور ختم ہو گئی، اسی طرح عمل بھی اعراض میں سے ہے جواہر میں سے نہیں ہے، تو ان کا وزن کیسے ہوگا؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی تو کچھ لوگوں نے انکار کر دیا۔ لیکن ہر بات کا سمجھ میں آنا ضروری نہیں ہے، بہت سی باتیں پہلے سمجھ میں نہیں آتی تھیں لیکن اب سمجھ میں آ رہی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ بات کیسے تلتی ہے یا عمل کیسے تولا جائے گا۔

جیسا کہ اب میں بات کر رہا ہوں تو یہ بات ہوا میں ضائع نہیں ہو رہی بلکہ ریکارڈ ہو رہی ہے اور اس کا وزن بھی ہو رہا ہے کہ کتنے KB یا کتنے MB کی ہے، یہ بات پانچ سیکنڈ کی ہے یا دس سیکنڈ کی ہے؟ اسی طرح میری حرکات و سکنات بھی ریکارڈ ہو رہی ہیں اور ان کا وزن بھی ہو رہا ہے کہ کتنے MB یا کتنے GB کی ہیں۔ یہ بات سو سال پہلے سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن آج سمجھ آ رہی ہے، اس لیے میں کہتا ہوں کہ جو باتیں اب سمجھ میں نہیں آ رہیں وہ بعد میں سمجھ میں آجائیں گی۔ اس لیے اس وجہ سے کسی بات کا انکار نہ کیا جائے بلکہ اس کا انتظار کیا جائے۔ ایک زمانے میں اس پر اشکال تھا لیکن اب کوئی اشکال نہیں ہے کہ باتیں اور اعمال کیسے تلیں گے۔

امام بخاریؒ نے اُن کا رد کیا کہ ’’ان اعمال بنی آدم و قولھم یوزن‘‘ کہ انسان کا عمل بھی تُلے گا اور بات بھی تُلے گی۔ امام بخاریؒ نے اس دعوے پر دو دلیلیں دی ہیں:

  1. پہلی دلیل قرآنِ مجید سے دی، اللہ تعالی فرماتے ہیں ’’ونضع الموازین القسط لیوم القیامۃ‘‘ کہ ہم انصاف کے لیے ترازو قائم کریں گے۔ جب اللہ تعالیٰ خود کہہ رہے ہیں کہ میں یہ کام کروں گا تو اس پر کوئی اشکال نہیں رہتا۔

    کسی موقع پر ایک نوجوان نے پوچھا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوا تھا؟ میں نے کہا ہاں ہوا تھا؟ اس نے پوچھا جاگتے ہوئے ہوا تھا؟ میں نے کہا ہاں جاگتے ہوئے ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ جسم مبارک کے ساتھ معراج ہوا تھا؟ میں نے کہا ہاں جسم مبارک کے ساتھ معراج ہوا تھا۔ اس نے کہا حضورؐ آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے؟ میں نے کہا ہاں تشریف لے گئے تھے۔ اس نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ تو میں نے کہا کہ حضورؐ نے کب فرمایا ہے کہ میں آسمانوں پر گیا تھا؟ معراج کی سب سے بڑی دلیل سورۃ الاسراء کی پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’سبحان الذی اسرٰی بعبدہٖ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصٰی‘‘۔ کیا اس میں نبی کریمؐ یہ فرما رہے ہیں کہ میں معراج پر گیا تھا؟ یا پھر اللہ رب العزت فرما رہے ہیں کہ میں اپنے بندے کو لے گیا تھا۔ جب اللہ تعالی کہہ رہے ہیں کہ میں لے کر گیا تھا تو اب کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ حدیث میں بھی یہ کہیں نہیں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ہو کہ میں معراج پر گیا تھا، بلکہ ’’اُسْرِیَ بِیْ‘‘ کے الفاظ ہیں کہ مجھے آسمانوں پر لے جایا گیا، مجھے سیر کرائی گئی۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ میں ترازو قائم کروں گا تو اب کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ اس لیے امام بخاریؒ نے وزن ِاعمال پر یہ دلیل دی۔

  2. اور دوسری دلیل حضرت ابوہریرہؓ سے مروی حدیث ذکر کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کلمتان حبیبتان الی الرحمٰن‘‘ کہ زبان سے نکلنے والے دو جملے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں، ’’خفیفتان علی اللسان‘‘ جو زبان پر ہلکے پھلکے ہیں، مشکل نہیں ہیں، ’’ثقیلتان فی المیزان‘‘ لیکن جب حساب کتاب کا ترازو قائم ہوگا تو وہ کلمے بڑے وزنی ثابت ہوں گے۔ اور وہ دو کلمے یہ ہیں ’’سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم‘‘۔ امام بخاریؒ کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم ترازو کو قائم کریں گے اور حضورؐ فرما رہے ہیں کہ کلمے تولے جائیں گے تو اعمال و اقوال کا وزن ہونے میں کیا اشکال باقی رہ جاتا ہے؟

آخر میں تمام فضلاء کرام کو مبارکباد پیش کروں گا، اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے علم کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائیں، فہم نصیب فرمائیں اور عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔

2016ء سے
Flag Counter