امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کا عندیہ

   
تاریخ : 
دسمبر ۲۰۰۱ء

روزنامہ نوائے وقت لاہور نے ۲۱ نومبر ۲۰۰۱ء کے اداریہ میں امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کے ان ریمارکس کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ

’’جب تک تہذیب مکمل طور پر محفوظ نہیں ہو جاتی دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔‘‘

گویا کولن پاول نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ اصل مسئلہ دہشت گردی کا نہیں بلکہ ’’تہذیب کے تحفظ‘‘ کا ہے، اور امریکی اتحاد کی جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ مغربی تہذیب و ثقافت کو بچانے کے لیے ہے، جسے مغربی لیڈروں کے بقول افغانستان میں ایک نئی تہذیب کے ابھرنے سے خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

ہم ایک عرصہ سے یہ عرض کر رہے ہیں کہ مغرب اور عالمِ اسلام کے درمیان کشمکش نظریہ اور ثقافت کی کشمکش ہے، جس کے ساتھ عالمِ اسلام کے معاشی وسائل پر کنٹرول کا ہدف بھی شامل ہو گیا ہے۔ اور افغانستان میں امریکہ کی معرکہ آرائی صرف اسامہ بن لادن اور ان کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ طالبان کی اسلامی نظریاتی حکومت کو ختم کرنے اور وسطی ایشیا میں زیر زمین موجود تیل اور گیس کے وسیع ذخائر کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اور اسی وجہ سے امریکہ اس خطہ میں مستقل طور پر موجود رہنے کی راہ ہموار کرتا جا رہا ہے۔

طالبان کی حکومت میں امریکہ کو ایک نئی تہذیب کے ابھرنے یا مغربی تہذیب کے لیے خطرہ بننے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں ،اور انہی آثار کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے امریکہ نے افغانستان پر وحشیانہ بمباری کر کے اس کی رہی سہی عمارتوں کو بھی کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ بہت سے دوستوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ طالبان کی کمزور سی حکومت اور افغان جیسی غریب اور بے سہارا قوم امریکی ثقافت اور مغربی کلچر کے لیے کیسے خطرہ بن سکتی ہے؟ مگر مغربی دانشور اتنے سادہ نہیں کیونکہ انہوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ

  • طالبان نے محض عقیدہ اور ایمان کی قوت کے سہارے افغانستان میں اپنے زیرِ قبضہ علاقہ کو مثالی امن و امان فراہم کر دیا۔
  • قرآن و سنت کے شرعی احکام و قوانین کی بنیاد پر لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو انتہائی خراب حالات میں بھی بہتر بنا کر ایک دفعہ دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ افغان معاشرہ کو ہتھیاروں اور منشیات سے مکمل طور پر پاک کر کے اکیسویں صدی میں اسلام کا زندہ معجزہ دکھایا۔
  • عالمی سسٹم کو من و عن قبول کرنے کی بجائے اس کے خلافِ اسلام حصوں کی نشاندہی کی اور اس حوالے سے اپنے تحفظات کو قائم رکھا۔
  • اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے کی پالیسی اختیار کر کے بیرونی قرضوں اور بین الاقوامی اداروں کے مشروط تعاون کو قبول کرنے سے گریز کیا۔ اور حکومتی شعبوں میں سادگی اور قناعت کے حوالے سے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی یاد تازہ کر دی۔
  • نظامِ مملکت کی بنیاد انسانی خواہشات پر رکھنے کی بجائے آسمانی تعلیمات اور قرآن و سنت کے ساتھ بے لچک وابستگی قائم رکھنے کا اعلان کیا۔

یہی اس ’’نئی تہذیب‘‘ کے بنیادی خدوخال ہیں جو افغانستان میں ابھرتی نظر آئی اور مغربی لیڈروں نے دیکھا کہ مسلم ممالک کے عوام میں اس نئی تہذیب سے دلچسپی بڑھ رہی ہے اور اس کے حامیوں کو تقویت حاصل ہو رہی ہے۔ اس لیے اسے مغربی تہذیب کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے امریکی اتحاد نے اس پر دھاوا بول دیا، اور اب مغربی لیڈر خوش ہو رہے ہیں کہ انہوں نے اس نئی تہذیب کو بمباری کے ذریعے افغانستان کے چند شہروں میں شکست دے کر مغربی تہذیب کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، لیکن یہ ان کی بھول ہے۔

عقیدہ اور ثقافت کی جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ اخلاق و اقدار کی قوت سے لڑی جاتی ہے، جس کا ایک ہلکا سا مظاہرہ دنیا نے افغانستان کی اس جنگ میں بھی دیکھ لیا ہے کہ

  • ایک طرف امریکی اتحاد کی وحشیانہ بمباری سے کھنڈرات میں تبدیل ہوئے افغان شہر ، اور شمالی اتحاد کے انتقام کا نشانہ بننے والے طالبان کی ننگی لاشوں کے ڈھیر ہیں،
  • اور دوسری طرف اس حالت میں بھی طالبان نے افغانستان میں گرفتار ہونے والی مغربی خاتون صحافی کو مہمان کے طور پر رکھنے کے بعد رہا کیا ہے، اور عیسائیت کی تبلیغ میں پکڑے جانے والے آٹھ افراد کو کابل چھوڑتے وقت اپنے ساتھ لے جا کر ان کی محفوظ رہائی کو یقینی بنایا ہے۔ جبکہ انہی میں سے دو خواتین نے رہائی کے بعد اخباری بیانات میں کہا کہ طالبان نے انہیں عزت و احترام کے ساتھ بہنوں کی طرح رکھا۔

دونوں تہذیبوں کے منظر دنیا کے سامنے ہیں اور کولن پاول درست کہتے ہیں کہ یہ تہذیب کے تحفظ کی جنگ ہے۔ البتہ ان کی خدمت میں ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جو تہذیب اپنے اخلاق و اقدار میں مقابلہ کا حوصلہ نہ پا کر ہتھیار اٹھا لیا کرتی ہے وہ تاریخ میں کبھی خود کو بچانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

   
2016ء سے
Flag Counter