محدثین اورفقہاء کا دائرہٴ کار اورمنہجِ عمل

   
تاریخ : 
اپریل ۲۰۱۶ء

جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اسے اپنی امت کے ساتھ اجتماعی طور پر الوداعی ملاقات قرار دیتے ہوئے مختلف خطبات میں بہت سی ہدایات دی تھیں اور ان ارشادات و ہدایات کے بارے میں یہ تلقین فرمائی تھی کہ:

فلیبلغ الشاھد الغائب فرب مبلغ اوعٰی لہ من سامع۔

’’جو موجود ہیں، وہ ان باتوں کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔ بسا اوقات جس کو بات پہنچائی جائے، وہ سننے اور پہنچانے والے سے زیادہ اس بات کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘

اس حفاظت کرنے میں یاد رکھنا، سمجھنا، اسے اہتمام کے ساتھ آگے پہنچانا اور صحیح طور پر استعمال میں لانا بھی شامل ہے۔ چنانچہ جب تابعین کرامؒ کے دور میں حدیث و سنت کی حفاظت و روایت اور تفقہ و استنباط کا ایک وسیع سلسلہ سامنے آیا تو حضرت محمد بن سیرینؒ اس کا مشاہدہ و تجربہ کرتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھے: ”صدق محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا، وہ آج ایک زندہ سچائی کی صورت میں سب کے سامنے جلوہ گر ہے۔

حدیث و سنت کی روایت اور حفاظت و ترویج کا محاذ محدثینِ کرام نے سنبھالا اور درایت و تفقہ کا پرچم فقہائے عظام نے بلند کر دیا، جبکہ ان دونوں کی جڑیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ان علمی کاوشوں میں پیوست تھیں جن کی نمائندگی کرنے والوں میں حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عثمان، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت ابو ہریرہ، حضرت انس بن مالک، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص، حضرت ام المومنین عائشہ اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نمایاں ہیں۔

محدثین اور فقہاء کی یہ محنت و کاوش آگے بڑھی تو دائرۂ کار الگ الگ ہونے کی وجہ سے ذوق اور تفہیم و اظہار کا امتیاز بھی واضح ہونے لگا، اور رفتہ رفتہ یہ دونوں گروہ مستقل طبقوں کی صورت میں نمایاں ہوتے گئے۔ انسانی ذہن و فہم اور استعداد و صلاحیت کا دائرہ اور سطح کبھی ایک نہیں رہے۔ اسی تنوع و اختلاف کے باعث آرا و افکار کا فرق و امتیاز ہمیشہ سے انسانی سوسائٹی میں قائم ہے جو قیامت تک موجود رہے گا۔ اور اگر یہ اپنی حدود میں رہے تو یہی انسانی سوسائٹی کا حسن و امتیاز ہے جو اسے باقی تمام مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں ارتفاقات یعنی انسانی سوسائٹی کی معاشرتی بنیادوں اور تقاضوں پر بحث کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ معاشرت اور تمدن کی بنیادی ضروریات پر تو تمام اقوام متفق ہیں، مگر ان کا اظہار ہر طبقہ اپنے اپنے انداز میں کرتا ہے۔ شاہ صاحب کا ارشاد ہے:

والناس بعدھا فی تمھید قواعد الآداب مختلفون فالطبیب یمھدھا علی استحسانات الطب والمنجم علی خواص النجوم والالھی علی الاحسان کما تجد فی کتبھم مفصلا۔

’’اصولوں پر اتفاق کے بعد لوگ آداب و ضوابط کی تشکیل و تعبیر میں مختلف ہو جاتے ہیں۔ طبیب انہیں طب کی اصطلاحات اور فوائد کی زبان میں بیان کرے گا، نجومی انہی باتوں کا ستاروں کے خواص کے پس منظر میں ذکر کرتا ہے، جبکہ صوفی نے اس کی وضاحت سلوک و احسان کے اسلوب میں کرنا ہوتی ہے، جیسا کہ تمھیں ان کی کتابوں میں اس کی تفصیل ملے گی۔’’

محدثین کرام روایت کی نمائندگی فرماتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان کے ہاں ترجیح کی بنیاد روایت کے اصول اور تقاضے ہوں گے، جبکہ فقہاء کرام درایت و استنباط کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں تو وہ تفقہ و استنباط کی ضروریات کو ترجیح دیں گے۔ اس لیے یہاں یہ فرق صرف ذوق و اسلوب کا نہیں رہتا بلکہ اپنے اپنے کام کی ضروریات بھی اس کا حصہ بن جاتی ہیں، اور یہی بات امت میں محدثین کرام اور فقہاء عظام کے دو مستقل طبقات کے ظہور و ارتقا کا باعث بنی ہے۔

قرونِ اولیٰ میں بہت سے محدثینِ کرام نے حدیث و سنت کی روایت، جمع، حفاظت، رواۃ کی نقد و جرح اور سند و متن کی درجہ بندی کے شعبہ میں خدمات سرانجام دیں، جن میں سے صحاح ستہ کے مصنّفین اور امام مالک و احمد رحمہم اللہ تعالیٰ نمایاں ہو کر سامنے آئے اور تمام محدثین کے سرخیل قرار پائے۔ بالخصوص امام بخاریؒ کو سب محدثین کے سردار کے لقب سے نوازا گیا۔ اسی طرح بیسیوں فقہاء کرام نے اپنے اپنے استنباطات و استدلالات کو جمع کیا، اصول و قواعد وضع کیے، ان کے مطابق مسائل و احکام کا استنباط کیا، اور اپنے اپنے علمی حلقے قائم کیے۔ جن میں سے ائمہ اربعہ نے فقہاء کرام کی سیادت و قیادت کا اعزاز حاصل کیا اور امام اعظم ابوحنیفہؒ کی امامتِ عظمیٰ کی فوقیت کو سب نے تسلیم کیا۔

اہلِ سنت کے چاروں ائمہ حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل، بلکہ حضرت امام داؤد ظاہری رحمہم اللہ تعالیٰ کی فقہ و درایت سے بھی امت مسلمہ نے ہر دور میں استفادہ کیا ہے، ان کے مقلدین و متبعین لاکھوں کی تعداد میں ہمیشہ موجود رہے ہیں اور آج بھی کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ مگر ان میں سب سے زیادہ امتیاز فقہ حنفی کو حاصل ہوا جس کا اعتراف و احترام اہلِ علم و فضل نے ہمیشہ کیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس امتیاز و تفوق کے اسباب یہ ہیں:

  • حنفی فقہ شخصی نہیں، شورائی ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ اور ان کے تلامذہ اپنی اپنی آرا علمی مجلس میں پیش کرتے تھے، ان پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔ جس بات پر اتفاق ہوتا تھا وہ متفقہ موقف کی صورت میں درج ہوتی تھی۔ مختلف فیہ بات کو اختلاف کے درجہ میں رکھا جاتا تھا، کسی پر جبر نہیں ہوتا تھا۔ اگر مجلس کے کسی شریک کو اجتماعی رائے سے اتفاق نہیں ہوتا تھا تو اس کی رائے الگ درج کی جاتی تھی۔
  • شورائیت اور اجتماعیت کی یہ روایت فقہ حنفی کی تشکیل و تدوین کے بعد اس پر بوقتِ ضرورت نظرثانی کے موقع پر بھی قائم رہی۔ چنانچہ مغل دور میں فقہ حنفی کی ازسرِنو ترتیب و تشریح کی ضرورت پیش آئی تو سلطان اورنگزیب عالمگیرؒ کی سربراہی میں یہ فریضہ سینکڑوں علماء کرام پر مشتمل کونسل نے تفصیلی بحث و مباحثہ کے ذریعے سرانجام دیا۔ جبکہ خلافتِ عثمانیہ کے دور میں فقہ حنفی کی بنیاد پر حالاتِ زمانہ کے مطابق نئی قانون سازی کا مرحلہ پیش آیا تو ’’مجلۃ الاحکام العدلیة‘‘ کی ترتیب و تدوین فقہاء و علماء کی ایک مجلس نے مشاورت و مباحثہ کی صورت میں انجام دی۔
  • فقہ حنفی میں روایت و درایت کے درمیان فطری توازن کا پوری طرح لحاظ رکھا گیا ہے، اور عقل و درایت کو نص و روایت پر فوقیت دینے کے بجائے اس کے تابع کیا گیا ہے۔ فقہ حنفی میں نہ تو عقل و درایت کی ضرورت و افادیت سے انکار کیا گیا ہے، نہ اسے نص و روایت پر ترجیح دی گئی ہے، اور نہ ہی نص و روایت کے فہم و استنباط کو عقل و درایت کی خدمت و معاونت سے محروم کیا گیا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ وہ پہلے قرآن کریم سے استنباط کرتے ہیں، پھر حدیث و سنت سے استفادہ کرتے ہیں، اس کے بعد صحابہ کرامؓ سے رجوع کرتے ہیں اور کسی ایک صحابیؓ کا قول بھی مل جائے تو اسے ترجیح دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ احناف کے ہاں ضعیف حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ احناف عقل و درایت اور قیاس پر صرف نص کو ہی مقدم نہیں سمجھتے، بلکہ نص کے آخری امکان تک کا لحاظ رکھتے ہیں۔
  • فقہ حنفی میں عقل و درایت کا اس کے دائرہ میں بھرپور اور فطری استعمال کیا گیا ہے اور اس سے استفادہ میں کوئی کوتاہی روا نہیں رکھی گئی۔ البتہ احناف کے ہاں نظری اور فلسفیانہ عقلیت کے بجائے عملی اور معاشرتی عقل و درایت کو احکام و قوانین کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ چنانچہ عرف و تعامل کا حنفی فقہ میں اس کی جائز حدود کے اندر پورا احترام کیا گیا ہے اور معاشرتی عقل سے بہت سے احکام و مسائل میں استنباط کیا گیا ہے۔
  • فقہ حنفی کو طویل عرصہ تک رائج الوقت قانون و نظام کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ خلافتِ عباسیہ، خلافتِ عثمانیہ اور مغل سلطنت میں صدیوں تک عدالتی قانون کے طور پر فقہ حنفی کی عملداری رہی ہے۔ جس کی وجہ سے تجربات و مشاہدات کا جو ذخیرہ اس کے پاس ہے، اور انسانی معاشرہ کی مشکلات کو سمجھنے اور حل کرنے کی جو صلاحیت و تجربہ اس کے دامن میں ہے، وہ (ایک حد تک فقہ مالکی کے سوا) کسی دوسری فقہ کو میسر نہیں آیا۔

فقہ حنفی کے انہی امتیازات و خصوصیات کی وجہ سے بجا طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ عالمِ اسلام میں عدالتی اور انتظامی طور پر شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کے جو امکانات دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں، ان میں فقہ حنفی ہی نفاذِ اسلام اور تنفیذِ شریعت کی علمی قیادت کی پوزیشن میں ہے۔ اس لیے یہ بات پہلے سے زیادہ ضروری ہو گئی ہے کہ فقہ حنفی کو ماضی کے معاملات و تجربات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے امکانات و ضروریات کے حوالے سے بھی تحقیق و مطالعہ کا موضوع بنایا جائے، اور انسانی سوسائٹی کی ضروریات و مشکلات کے دائرہ میں فقہ حنفی کی افادیت و اہمیت کو علمی اسلوب اور فقہی انداز میں واضح کیا جائے۔

فقہ حنفی کو اس امتیاز و تفوق کے پس منظر میں فطری طور پر کچھ الزامات و اعتراضات کا بھی ہر دور میں سامنا رہا ہے جن میں بعض کا تعلق دائرۂ کار اور ذوق و اسلوب کے فرق و تنوع سے ہے، بعض اعتراضات نے غلط فہمی کے باعث جنم لیا ہے، کچھ الزامات معاصرت کی پیداوار ہیں، اور ان میں ایسے اعتراضات بھی موجود ہیں جو ”حسدًا من عند انفسھم من بعد ما تبین لھم الحق‘‘ کا مصداق قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان الزامات و اعتراضات کا دفاع مختلف ادوار میں اہلِ علم نے کیا ہے اور صرف احناف نے نہیں، بلکہ منصف مزاج غیر حنفی علماء و افاضل اس دفاع میں پیش پیش رہے ہیں جو یقیناً امامِ اعظمؒ کے خلوص و دیانت اور علم و فضل کی ’’خدائی تائید‘‘ ہے۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔

   
2016ء سے
Flag Counter