سودی نظام اور سپریم کورٹ کا فیصلہ

   
فروری ۲۰۰۰ء

روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۲۲ جنوری ۲۰۰۰ء نے این این آئی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ملک میں سودی نظام کے خاتمہ کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلٹ بینچ نے گزشتہ دنوں جو تاریخی فیصلہ صادر کیا ہے، اس کے خلاف اپیل کے لیے صرف دو دن کی میعاد باقی رہ گئی ہے، اور اعلیٰ حکام اپیل دائر کرنے کے لیے فیصلے کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے رہے ہیں۔

اس سے قبل وفاقی شرعی عدالت نے میاں محمد نواز شریف کے سابقہ دورِ اقتدار میں ملک میں رائج تمام سودی قوانین کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے حکومت کو ان قوانین کے خاتمہ اور ان کی جگہ متبادل اسلامی قوانین نافذ کرنے کی ہدایت کی تھی تو ملک بھر کے دینی حلقوں نے میاں صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل نہ کریں اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عملدرآمد کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ لیکن انہوں نے دینی حلقوں بلکہ اپنی بعض حلیف جماعتوں کا مشورہ بھی قبول نہ کیا اور اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کر دی۔ جس پر سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ نے طویل سماعت کے بعد وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کو بحال رکھا ہے اور حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ۳۰ جون ۲۰۰۰ء تک سودی نظام کے خاتمہ کے لیے عملی اقدامات کرے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف بھی ایک اپیل کی گنجائش ابھی باقی ہے۔ اور اسی وجہ سے ملک کی دینی جماعتیں اور قائدین حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپیل کا یہ حق استعمال کر کے معاملہ کو مزید طول نہ دے، بلکہ فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ملک کے معاشی نظام کو سودی قوانین کے شکنجے سے چھڑانے کے لیے عملی پیشرفت کرے۔ مگر حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا۔ البتہ مذکورہ بالا خبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ سطح پر ایک بار پھر اپیل دائر کر کے مسئلہ کو لٹکا دینے کی تیاری ہو رہی ہے، اور ہو سکتا ہے ان سطور کی اشاعت تک یہ اپیل دائر ہو چکی ہو۔

اس لیے ہم حکومت سے یہ عرض کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اس بات کو مزید طول دینا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو اور بڑھانے کا باعث ہو گا کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سودی کاروبار پر اصرار کو اللہ تعالیٰ اور رسولِ خدا کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ لہٰذا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران کی حیثیت سے جنرل پرویز مشرف کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے اس اہم مسئلہ کو بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے ملک کی دینی قیادت کو اعتماد میں لیں اور سودی نظام کے عملی خاتمہ کے لیے اقدامات کا آغاز کر دیں تاکہ ہم اس منحوس اور ملعون نظام سے جلد از جلد نجات حاصل کر سکیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter