ترکی میں بدکاری کی سزا اور لندن کے فون باکسز

   
تاریخ اشاعت: 
۹ جولائی ۱۹۹۸ء

لندن سے شائع ہونے والے ایک اردو روزنامہ کا ۲۵ جون ۱۹۹۸ء کا شمارہ میرے سامنے ہے جس میں ایک ہی مسئلہ سے متعلق دو خبریں ہیں:

ایک خبر رائٹر نے ترکی کے بارے میں دی ہے کہ وہاں کی دستوری عدالت نے ضابطۂ تعزیرات کی دفعہ ۲۴۰ کو ختم کرنے کا فیصلہ دے دیا ہے جس میں زنا کو عورت کے لیے جرم قرار دے کر اس کی مرتکب قرار پانے والی خاتون کے لیے تین سال قید کی سزا تجویز کی گئی تھی، اور یہ سزا ترکی میں نافذ العمل چلی آرہی ہے۔ اس دفعہ کو دستوری عدالت میں ’’مساوات کے قانون‘‘ کے تحت چیلنج کیا گیا کہ ترکی کے قوانین میں زنا مرد کے لیے جرم نہیں ہے تو عورت کے لیے اسے جرم کیوں تصور کیا گیا ہے، یہ مساوات کے منافی ہے اس لیے اس دفعہ کو ضابطۂ تعزیرات سے حذف کر دیا جائے۔ چنانچہ گیارہ رکنی دستوری عدالت نے ۲ کے مقابلہ میں ۹ ووٹوں سے یہ اپیل منظور کر لی ہے اور اس دفعہ کو ختم کرنے کا فیصلہ دے دیا ہے۔ رائٹر کے مطابق ترکی میں خواتین کی متعدد تنظیموں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

دوسری خبر برطانوی پارلیمنٹ میں دو روز قبل ہونے والی ایک بحث کے بارے میں ہے جو لندن کے وسطی علاقہ میں ٹیلی فون کے باکسوں میں عصمت فروش عورتوں کے تعارفی کارڈوں کے حوالہ سے ہوئی۔ وسطی لندن کے کسی علاقہ میں آپ کسی فون باکس میں داخل ہوں تو سامنے اور دونوں اطراف کی ونڈوز پر بیسیوں کارڈ چپکے ہوئے دکھائی دیں گے جن پر مختلف جنسی پوزوں کے ساتھ بالکل عریاں زنانہ تصاویر بنی ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ دعوتی جملے اور فون نمبر درج ہوتے ہیں۔ فون ایک عمومی ضرورت کی چیز ہے اور مختلف ٹیلی فون کمپنیوں نے ہر بازار اور گلی میں اپنے اپنے باکس نصب کر رکھے ہیں جس سے عام آدمی کو بہت سہولت ملتی ہے۔ بالخصوص ہمارے جیسے مسافروں کے لیے تو یہ بہت زیادہ سہولت کا باعث ہے اس لیے کبھی کبھار ایسے باکسوں میں جانے کی ضرورت پڑ جاتی ہے اور کہیں فون کرنے میں کم از کم دو چار منٹ تو لگتے ہیں اور اس دوران آنکھیں بھی مسلسل بند نہیں کی جا سکتیں۔ واقعہ یہ ہے کہ بسا اوقات اس مکروہ ماحول میں خود کو کھڑا دیکھ کر اپنے بارے میں شک ہونے لگ جاتا ہے کہ اپنے جسم پر بھی لباس ہے یا نہیں۔

خیر مذکورہ خبر کے مطابق باکسوں کے بارے میں پارلیمنٹ کے کچھ ارکان نے ہاؤس میں حکومت کو توجہ دلائی کہ ان سے ماحول خراب ہو رہا ہے اور اخلاق بگڑ رہے ہیں اس لیے انہیں کنٹرول کیا جائے۔ اس پر ایک سرکاری رکن پارلیمنٹ نے جواب دیا کہ سرکاری محکمے ان کارڈوں کو اتارنے کے لیے بہت کوشش کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں کوئی کمی نہیں ہو رہی۔ انہوں نے ہاؤس کو بتایا کہ گزشتہ سال کے دوران ان باکسوں سے سرکاری طور پر جو فحش کارڈ ہٹائے گئے ہیں ان کی تعداد ایک ملین کے لگ بھگ ہے۔

یہ دونوں خبریں ایک ہی شاہراہ کے دو مختلف سنگ میل ہیں۔ ایک قدرے آغاز کا ہے کہ ’’فری سوسائٹی‘‘ کی ابتدا جرم کے تصور کے خاتمے سے ہوتی ہے۔ جبکہ دوسرا انتہا کا ہے کہ جب کوئی عمل جرم ہی تصور نہ ہو بلکہ اسے حقوق میں شمار کیا جانے لگے تو اس کے تلخ نتائج کو روکنا منظم حکومتوں کے بس میں بھی نہیں رہتا اور پھر کف افسوس ملنے اور حسرت بھرے ریمارکس دینے کے سوا کچھ باقی نہیں رہ جاتا۔ ترکی کا مسئلہ تو ایک مسلم ملک کا ہے جہاں صدیوں تک اسلامی قوانین کی حکمرانی رہی ہے بلکہ خلافتِ عثمانیہ کے عنوان سے ترکی نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر آسمانی تعلیمات کی عملداری کی ذمہ داری صدیوں نبھائی ہے۔ پھر بتدریج ترکی سوسائٹی کو آسمانی تعلیمات سے محروم کرنے کی محنت شروع ہوئی جس کی شاید یہ آخری کڑی تھی کہ زنا کو کسی حد تک جرم سمجھنے کا جو قانونی تصور موجود تھا اسے بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

ہمارے نزدیک یہ مسئلہ مساوات کے اصول کی یکساں تطبیق کا نہیں ہے کیونکہ اگر ایسی بات ہوتی تو مطالبہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ زنا عورت کے لیے جرم ہے تو اسے مرد کے لیے بھی جرم قرار دیا جائے اور دونوں کے لیے یکساں سزا کا نفاذ کیا جائے، لیکن یہ مطالبہ نہیں ہوا بلکہ مساوات کے نام پر جرم کے تصور تک کو ختم کرنے کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ اور اس پر خواتین کی تنظیموں کا مذکورہ ردعمل سامنے رکھیں تو بدکاری کو حقوق کی فہرست میں شمار کر لیا گیا ہے جس پر انا للہ و انا الیہ راجعون کا مسلسل ورد کرنے کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟

زنا تمام آسمانی مذاہب میں جرم قرار دیا گیا ہے، بائبل اور قرآن سمیت ہر آسمانی کتاب میں اس کے لیے سنگین سزا تجویز کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ جو مرد یا عورت شادی شدہ ہونے کے باوجود اس قبیح جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو آسمانی قانون میں اس کے لیے سنگسار کی سزا طے ہے۔ اور اسلام نے تو اس کی قباحت اور برائی کا اس حد تک اظہار کیا ہے کہ اس کے اسباب اور دواعی جو مرد و عورت کی خواہشات کو ابھار کر انہیں اس عمل کے قریب کرتے ہیں ان کو بھی حرام قرار دے دیا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف عصمت و عفت کا انسانی معیار بلکہ رشتوں کا تقدس اور خاندانی سسٹم کا استحکام ابھی تک مسلمانوں کو نصیب ہے۔ آج بھی تمام تر خرابیوں اور بے عملیوں کے باوجود مسلمانوں کا خاندانی نظام معاصر سوسائٹیوں کے لیے قابلِ رشک ہے۔ اور مسلم معاشروں کو اس سے محروم کرنے کے لیے انسانی حقوق اور خواتین کی حمایت کے نام سے ہزاروں این جی اوز مغرب کے ثقافتی مشن کے لیے مسلم ممالک میں سرگرم عمل ہیں۔

خود ہمارے ہاں پاکستان میں بھی بدکاری کی سزا کو ختم کرنے کے مطالبے ہو رہے ہیں اور قرآن کریم کی بیان کردہ سزاؤں کو تشدد اور اذیت پر مبنی قرار دے کر ان کے خلاف قراردادیں منظور ہو رہی ہیں۔ یہ راستہ بھی اسی منزل کی طرف جاتا ہے اور خدانخواستہ ہماری قوم اگر اس راستہ پر چل پڑی تو آج یہ سخت سزائیں منسوخ ہوں گی، آنے والا کل نرم سزاؤں میں بھی سختی کے پہلو تلاش کر لے گا اور اس کے بعد اس عمل کو جرم تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا جائے گا۔ پھر کیا ہوگا؟ وہی جو مغربی معاشرہ میں ہو رہا ہے کہ رشتوں کا تقدس فضا میں تحلیل ہو جائے گا، خاندان بکھر جائیں گے، اولڈ پیپلز ہومز آباد ہوں گے، بوڑھی مائیں اور باپ اپنی اولاد کو دیکھنے کے لیے عید کے دن کا انتظار کیا کریں گے، اور لندن میں عام نظر آنے والے ایک اشتہار کے مطابق ماں اپنی جوانی کی طرف بڑھتی ہوئی لڑکی کو اسکول جانے سے قبل پوچھا کرے گی کہ کیا اس نے بستے میں کنڈوم رکھ لیے ہیں، ننگی عورتوں کی لاکھوں تصویریں ٹیلی فون کے باکسوں پر چسپاں ان کے ’’حقوق‘‘ کی بحالی بلکہ بالادستی کا اعلان کر رہی ہوں گی، اور قوم کے منتخب نمائندے پارلیمنٹ میں ماحول کی خرابی اور اخلاق کی گراوٹ کا رونا رو کر مطمئن ہوں گے کہ انہوں نے برائی کے خاتمہ کے لیے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔

آج دنیا کی مظلوم ترین مخلوق ’’عورت‘‘ ہے۔ عورت کو اس کے مقام عصمت و عفت سے محروم کر کے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ یہی بے عصمتی اور بے عفتی اس کا سب سے بڑا حق ہے اور جو ضابطہ و قانون اس کی عصمت و عفت کی حفاظت کرتا ہے وہ اس کا دشمن ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ بدکاری کے بارے میں آسمانی تعلیمات اور قرآنی احکام وہ واحد شیلٹر ہے جو عورت کو مرد کی جنسی ہوسناکیوں سے بچاتا ہے اور اس کی عصمت اور تقدس کی حفاظت کرتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter